امارتِ جماعت اسلامی ہند کا چاند پٹی سے ناندیڑ تک کا سفر‎

زبـــــــــــیر خان سعیدی العمری

مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی

جماعت اسلامی ہند، بھارت کی موجودہ اسلامی تنظیموں میں ایک ایسی تنظیم شمار کی جاتی ہے، جہاں شورائی نظام ابتدا سے اب تک قائم ہے، عہدے کے حصول کے کسی گٹھ جوڑ کی کوئی روایت یہاں پنپ نہیں پائی ہے- الحمد للہ، کل شام جماعت اسلامی ہند کے نئی میقات 2019-2023 کے لئے بطور امیر منتخب کئے گئے ایک جواں سال سید سعادت اللہ حسینی کا انتخاب اس کی سب سے بڑی دلیل ہے، سید سعادت اللہ حسینی 7 جون 1973 کو ناندیڑ، مہاراشٹرمیں پیدا ہوئے، اس اعتبار سے وہ پینتالیس سالہ جواں سال ہیں-

واضح رہے کہ گزشتہ میقات میں بھی موصوف کا نام جماعت اسلامی ہند کی امارت کے لئے پیش کیا گیا تھا، لیکن اس وقت کی مجلس نمائندگان میں شامل بیشتر افراد نے امارت کے لئے موصوف کے مقابلے مولانا سید جلال الدین عمری کو زیادہ اہل قرار دیا تھا، لیکن بعد میں انہیں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر اور مرکزی

محمد یوسف صاحب

مشاورتی کونسل کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا-

نو منتخب امیر جماعت اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی اپنے زمانہ طالب علمی میں بھارت کی مشہور و معروف اسلامی طلبہ تنظیم

(ایس آئی او) کے کل ہند صدر (1999-2003) بھی رہ چکے ہیں-

بات اگر تعلیم کی کریں تو جناب سعادت اللہ حسینی صاحب نے اپنے آبائی وطن ناندیڑ شہر سے تعلیم حاصل کی ہے، جہاں انہوں نے

سراج الحسن صاحب

الیکٹرانکس اور ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ میں گریجویشن مکمل کیا ہے- حصول علم کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستانی طلبا کی اسلامی تنظیم کے ساتھ بھی باقاعدہ منسلک رہے۔  انجینئر سعادت اللہ حسینی جو جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے ایک کم عمر رکن رہے ہیں، وہ اب سب سے کم عمر کے امیر جماعت کے زمرے میں بھی شامل ہو گئے ہیں، ان سے قبل صرف مولانا ابو اللیث ندوی ہی ایک ایسے امیر جماعت ہیں جو محض اپنی عمر کے پینتیسویں سن میں اولین امیر جماعت کی حیثیت سے منتخب کئے گئے تھے-

 اگر بات کریں امارت کی تاریخ کی، تو اس سلسلہ امارت کا آغاز اعظم گڑھ شہر کے ایک گاؤں چاند پٹی کے مولانا ابواللیث ندوی علیہ الرحمہ کی امارت سے ہوتا ہے، مولانا آزاد ہند (بھارت) کے پہلے امیرِ جماعت اسلامی ہند تھے ( مولانا 1948 میں جماعت اسلامی ہند کے امیر مقرر ہوئے اور 1990 تک درمیان میں آٹھ سال چھوڑ کر مسلسل اس

پروفیسر عبد الحق انصاری

منصب پر فائز رہے)۔ ان کے بعد رام پور سے  تعلق رکھنے والے مولانا محمد یوسف رح کو امارت کا منصب سونپا گیا، جن کے بعد رائچور کرناٹک سے تعلق رکھنے والے محمد سراج الحسن جماعت اسلامی ہند کے امیر بنے، امارت کی لسٹ میں چوتھا اور اہم نام عبد الحق انصاری مرحوم کا آتا ہے، جن کے عہد میں مرکز کیمپس میں واقع اسلامی اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا اور کچھ اہم اصلاحات کی گئی تھیں، موصوف کا تعلق اتر پردیش کے ضلع دیوریا کے ایک چھوٹے سے قصبے ‘تمکوہی’ سے تھا، مرحوم عبد الحق انصاری کے بعد جماعت اسلامی ہند کو مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ و رعاہ کی شکل میں ایک فاضل امیرِ  جماعت کا حصول ہوتا ہے، جماعت اسلامی ہند کی مجلسِ نمائندگان نے مولانا کی شخصیت پر لگاتار تین میقات تک بہ شکل امیر بھروسہ جتایا، مولانا کا آبائی وطن ‘پتہ گرم’ ہے، جو

مولانا سید جلال الدین عمری

ریاست تامل ناڈو کے شہر ‘ترپاتور’ کے پاس آباد ہے اور اس بار 2019 میں، میقات رواں ٢٠١٩ تا ٢٠٢٣ حالیہ ارکانِ مجلسِ نمائندگان نے انجینئر سید سعادت اللہ حسینی پر اعتماد کیا ہے، جن کا تعلق ریاست مہاراشٹر کے شہر ‘ناندیڑ’ سے ہے-

اس طرح امارتِ جماعتِ اسلامی ہند نے 70 سالوں میں اتر پردیش کے مردم خیز سرزمیں اعظم گڑھ شہر کے ایک گاؤں چاند پٹی سے جو سفر شروع کیا تھا وہ اب ناندیڑ مہاراشٹر تک پہنچ گیا ہے-

الگ الگ ریاستوں کے آنے والے یہ امرائے جماعت اسلامی ہند کی اس بے مثال انفرادیت کو بھی پیش کرتے ہیں، جس کی نظیر فی زمانہ کم ہی ملتی ہے، جہاں علاقائیت اور موروثی عصبیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

انجینئر سید سعادت اللہ حسینی

اللہ کرے کہ یہ انفرادیت یوں ہی قائم رہے اور نئے امیرِ جماعت کی شکل میں جو جوان قائد اس منظم اور مثالی تنظیم کو حاصل ہوا ہے، وہ جماعت اسلامی ہند کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے لئے بھی نفع بخش ثابت ہو- آمین

1 تبصرہ
  1. محمد عامر لاتور کہتے ہیں

    آؤ ڈوب مریں

    جماعت اسلامی ہند کے نو منتخب صدر کو مبارکباد کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
    ساتھ ہی کہا جارہا ہے کہ جماعت کا شورائی نظام طاقتور ہے، اس سے دوسری تنظیموں کو سیکھنا چاہیئے

    افسوس ہے۔۔۔
    ہمارا چیلینج ہے کہ جماعت اسلامی ہند زمینی سطح پر آکر بات کرے کہ اور دکھائے کہ اراکین میں کتنا اتفاق ہے۔۔

    سب سے پہلے یہ کہ جماعت اسلامی ہند عام مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے۔۔ اگر ہے تو ثابت کرے۔

    مخصوص اور ہم خیال احباب کی جماعت اسلامی ہند (عام مسمانوں کو یہاں کوئی جگہ نہیں ہے) کے اراکین کسی بھی کام میں اختلاف نہیں کرسکتے ورنہ رکنیت خطرہ میں پڑ جائیگی۔۔

    دوسری بات آخر اپنا اتحاد اور یک جہتی بتاکر جماعت اسلامی ہند کیا ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک عالمی یا کم از کم ملکی سطح کی تنظیم ہے تو اسکی حقیقت عیاں ہے، وہ یوں کہ اسکے یوٹیوب چینل کے سبسکرائبرس 12000 سے کم ہیں جبکہ یہ تعلیم یافتہ طبقہ کی تنظیم تصور کی جاتی ہے اور ہر سرگرمی کی تصویر کشی اور ویڈیوگرافی انٹرنیٹ پر ڈالی جاتی ہے۔

    مبارکباد اپنی جگہ لیکن دوسری تنظیموں پر تھوپنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔۔

    خدارا، زمینی حقائق پر کام کیجیئے۔۔
    عرصہ ہوا آپکی تنظپم اپنی بقاء کی کوشش میں لگی ہوئی ہے، اگر اتنی صلاحیتیں امت کی رہبری میں صرف کرتی تو عوام کا اعتماد بھی حاصل کر پاتی اور مقبولیت بھی۔۔۔۔
    آو اب ڈوب مریں۔۔۔۔۔

    محمد عامر لاتور

تبصرے بند ہیں۔