رجب طیب اردوگان- ایک جمہوری حکمراں یا مرد مجاہد

آفتاب عالم فلاحی

اسلام نے جہاں طاعت امیر اور بہت سے اجتہادی مسائل میں اولی الامر کی اتباع کی تعلیم دی ہے وہیں مومنوں کو ہشیار اور بیدار مغر رہنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے ‘ چنانچہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ مومنوں کی فراست سے بچو۔ دوسری جگہ روایت میں آتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ آج جب کہ وقت کے شیاطین، اسلامی نظام حیات کو بودا اور ناقابل عمل ثابت کرنے کے لئے اس کے متبادل کے طور پر جمہوریت کو بڑے شدو مد کے ساتھ پیش کررہے ہیں ‘ ہمارے دانش وران بھی اسی وقت کی رو میں بہتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس مرعوبیت کے عہد میں عصر حاضر کی ظاہری چکاچوند سے ان کی آنکھیں اتنی خیرہ ہو چکی ہیں کہ وہ اس کے مفاسد کو دیکھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ ہماری ظاہر پرستی کا یاہماری بے مائیگی کاعالم یہ  ہو چکا ہے کہ ہم کسی کو بھی اپنا پیشوا اور ہیرو بنا لیتے ہیں۔ آج کل ہمارا سارا زور قلم اس بات کو ثابت کرنے میں صرف ہو رہا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان مسلمانوں کے نجات دہندہ ہیں اوران ہی سے مسلمان کی توقعات وابستہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر رجب طیب اردگان کی بعض باتیں قابل تعریف ہیں لیکن ان کے تئیں ہمارا  رویہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان کی اچھی بری دونوں باتوں کی آنکھ بند کرکے  تعریف کرتے جائیں بلکہ اس سے بڑھ کر ان کہ فاش غلطیوں کو لنگ دلائل کے ذریعہ اچھے خانے میں ڈالتے جائیں۔ حال ہی میں ترکی کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے لئے گئے ہیں نیز کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ ان باتوں کو اگر بغور دیکھا جائے تو ایک بیدار ذہن میں سوالات کا اٹھنا لازمی ہے۔ ان میں سے چند حقائق مندرجہ ذیل ہیں:

  1۔ گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ میں عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرا ئیل کو صدر منتخب کیا گیا،جس میں ترکی حکومت نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دے کر آخروہ کیاثابت کرناچاہتی ہے؟

2 ۔ ترک پائلٹ کے ذریعے روسی طیارہ مار گرانے کے بعد اردوغان کو’ مرد مجاہد‘ کہا جانے لگا، جبکہ طیارہ گرانے کا فیصلہ اردوغان کا نہیں تھا بلکہ اس پائلٹ کی اسلامی غیرت کا نتیجہ تھا، لہذا اب جب کہ اردوغان روس سے معافی مانگ چکے ہیں، تو اب انھیں کس چیز کالقب دیا جانا چاہیے؟

3۔ جب فلسطینیوں کی جان کی حفاظت کیلٰے ترک فوج سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے، تو حالات کی ناسازگاری کا بہانہ بناکر ہمیشہ راہِ فرار اختیار کر جاتی ہے، مگروہیں بات جب مسلمان اور مسلم ممالک کے خلاف جنگ کی ہوتی ہے، تو یہ فوج امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے؛ اس کی مثال 2001 میں افغانستان اور فی الحال شام میں دیکھی جاسکتی ہے، جہاں طیب اردوغان نے اپنا ہوائی اڈہ امریکہ کے لیے فری کر رکھا ہے۔ اس ہوائی اڈے سے امریکہ اب تک50 ہزار سے زائد بم گراچکا ہے، ظاہر ہے ان حملوں میں عورتیں اور بچے بھی شھید ہوئے ہوں گے؟

4۔ کیا غزہ میں امدادی رسد پہنچانے، یا وہاں اسپتال قائم کرنے سے اسرائیل غزہ پر بمباری بند کردے گا، یا اسرائیل سے ریکارڈ توڑ تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کرکے اس کی شرارتوں کو ہمیشہ کے لئے خاموش کیا جاسکتا ہے؟  بلکہ اس سے اسرائیل کی معیشت اور دفاعی صلاحیت اور مضبوط ہوگی جس سے اسرائیل مستقبل میں مزید حملے کرے گا، توکیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے میں ترکی بھی مدد فراہم کررہا ہے؟

5۔ فلوٹیلا واقعہ میں اسرائیل نے ترکی کے 9 باشندوں کو شہید کردیا اور اب اسرائیل ان شہیدوں کی جان کا معاوضہ دے رہا ہے جسے اردوغان کے حامی فتح قرار دے رہے ہیں، واہ کون نہ مر جائے اس فتح پہ اے غالب!!

6۔ آخری مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر یہ ساری مجبوریاں کیوں درپیش آتی ہیں اور حامیان اردوغان جس ڈپلومیسی کی رٹ لگاتے رہتے ہیں، تو کیا سفارتکاری کے یہ اصول اسلام کے ہیں یا مروجہ دور کے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ سفارتکاری کے یہ سارے اصول اقوام متحدہ اور مغرب کے ایجاد کردہ ہیں اور جب ہم اسلام کی خارجہ پالیسیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو سفارتکاری کے اسلامی اصول، مروجہ اصول سے بالکل مختلف ملتے ہیں، اسلام کسی بھی ایسی ریاست جو کھلے عام اسلام دشمنی کرے اور مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہو، اس سے کسی بھی طرح کے تعلقات قائم کرنے سے منع کرتا ہے(خیال رہے اسلامی اصول کی بات اس وجہ سے کی جارہی ہے کیونکہ سوال ایک مرد مجاہد کا ہے)۔ ان ساری مجبوریوں کی واحد وجہ یہ ہے کہ آپ جمہوریت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوے ہیں، اسلام کے سفارتی اصولوں سے ہٹ کر جمہوری انداز سے سوچتے ہیں اور اسلام کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اقوام متحدہ کے اصولوں کے پابند ہیں، لہذا آپ اپنے ملک میں اسلام کے عبادات وغیرہ کے احکام تو نافذ کرسکتے ہیں، یعنی وہاں نماز، روزہ، حج اور دیگررفاہی کاموں کی اجازت تو ہوسکتی ہے، کیونکہ مغرب کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے، مگر آپ اسلام کے معاشی، سیاسی، تعلیمی اور سفارتی اصولوں کو نافذ نہیں کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ تجزیہ نگار جو جمہوریت کے مخالف ہیں، ان کا دعوی ہے کہ جمہوریت میں رہ کرآپ سو سال میں بھی اسلام کی ایک حد نافذ نہیں کرسکتے، پوری شرعیت کا نفاذ تو دور کی بات ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہب سے آزادی حاصل کرنے کیلئے مغرب نے جمہوریت کا سہارا لیا اور آج بعض اسلامی تحریکیں کم فہمی کی بنیاد پر جموریت کے ذریعے اسلام لانے کی لاحاصل کوششیں کررہی ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ اردوغان بھی دیگر حکمرانوں کی طرح ایک جمہوری حکمراں ہیں اور ان سے اسلام کی سربلندی کی امید کرنا دھوکہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔