مسلم معاشرے کو مؤمن قائدین کی ضرورت ہے

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

بعض لوگوں کی یہ کج رفتاری و ناہنجاری ہے کہ دین کو دنیا سے الگ گردانتے ہیں جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور العمل ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ جہاں تک حکمرانی اور حکومت کا تعلق ہے اسلام طوائف الملوکی اور ایسی طرزِ حکومت کے خلاف ہے جو عوامی مسائل اور ان کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر صرف حزب اقتدارکے مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔ اسی لیے دین اسلام نے حاکم کے لیے عالم، عادل، مدبرِ امور دین و دنیا کی شرط لگائی ہے تاکہ وہ ملک و قوم کے تمام طبقات کے مفادات کے لیے کام کرسکے۔ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ جس کو قرآن حکیم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم حاکم وقت کے لیے دولت و ثروت کے بجائے علم وشجاعت کو ضروری قرار دیا چونکہ حاکم وقت کے پاس علم ہوگا تو اچھائیوں کا حکم دیگا اور شجاعت و طاقت ہوگی تو برائیوں سے روکنے میں کامیاب ہوگا۔

لیکن آج اس ترقی یافتہ دورکا انتہائی تاریک پہلو یہ ہے کہ بعض کج فہم قائدین اپنے جھوٹے اور فانی رعب و دبدبے کو برقرار رکھنے لیے اپنے اطراف و اکناف غیر سماجی عناصر کا حلقہ بنائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی ان تک رسائی مشکل مرحلہ بن جاتی ہے اور درمیانی لوگ اس قربت کا بیجا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے کرتے ہیں جس کے سبب حقدار اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ قائدین کی یہ روش اسلامی تعلیمات اور انسانی فطرت کے بالکل مغائر ہے چونکہ اس سے ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے جبکہ اسلام نہ صرف مظلوموں کی فریادرسی اور معاونت کرنے کا اپنے پیروکاروں کو حکم دیتا ہے بلکہ ظالم کو ظلم سے روکنے کی بھی تاکید فرماتا ہے۔ رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’اپنے بھائی کی معاونت کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ (بخاری) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مظلوم کی مدد کرناسمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی کس طرح مدد کریں تب آپ ﷺ نے فرمایا ظالم کو اس کے ظلم سے بازر کھنا اس کی مدد کرنے مترادف ہے۔انسان غیر سماجی عناصر کی مدد سے دنیا میں وقتی طور پر فوائد تو حاصل کرسکتا ہے لیکن بروز قیامت وہ کف افسوس ملتا رہ جائے گا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے’’ اور اُس روز ظالم (فرطِ ندامت سے) کاٹے گا اپنے ہاتھوں کو (اور) کہے گا کاش! میں نے اختیار کیا ہوتا رسول (مکرم) کی معیت میں (نجات کا) راستہ ہائے افسوس! کاش نہ بنایا ہوتا میں نے فلاں کو اپنا دوست‘‘ (سورۃ الفرقان آیات 27-28) قائدین کا کام ظلم کو بڑھاوا دینانہیں بلکہ عوام الناس کو ظلم و زیادتی سے بچانا، انہیں راحت پہنچانا اور ان کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔

مؤمن قائد اس لیے ظالم نہیں ہوسکتا چونکہ وہ جانتا ہے کہ آج میں لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کروں گا تو اللہ تعالی میدان قیامت میں میری مشاکل کو آسان فرمادے گا۔ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے تاجدار کائناتﷺ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص دنیا میں اپنے بھائی کی مشکلات کو دور کرتا ہے اللہ تعالی بروز قیامت اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا‘‘ (بخاری شریف)۔ جس طرح فرعون نے انسانی معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا عصرِ حاضر کا ترقی یافتہ دوربھی اسی نحوست کا شکار ہے۔یعنی انسان آج بھی امیری و غریبی اور اونچ نیچ کے غیر انسانی خانوں میں بٹا ہوا ہے جس کا اسلام سختی سے مخالف ہے چنانچہ اس خرافاتی طرزِ فکر کو باطل قرار دیتے ہوئے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ’’ کیا وہ بانٹا کرتے ہیں آپ کے رب کی رحمت کو؟ ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے درمیان سامانِ زیست کو اس دنیوی زندگی میں اور ہم نے ہی بلند کیا ہے بعض کو بعض پر مراتب میں تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں ‘‘ (سورۃ الزخرف آیت 32)

اس آیت پاک میں پہلی بات یہ بیان کی گئی کہ انسان کا حاکم یا محکوم، غالب یا مغلوب، قاہر یا مقہور، مطاع یا مطیع بننا من جانب الہی ہے اس فرق و اختلاف، تفوق و امتیازات میں انسان اور اس کی فطری، ذہنی اور اختراعی صلاحیتوں کا کو کوئی دخل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت اس لیے نہیں دی کہ لوگ مال و دولت، تزک و احتشام، منصب و اقتدار، خوب صورت لباس و عالیشان محلات کو انسانی اقدار کا معیارسمجھنے لگیں یا حاکم اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہوکر محکوم افراد کو تابع فرمان بناکر ان کا استحصال کرے اور خود غرور و تکبر کا شکار ہوجائے یا پھر محکوم اپنی خودداری کو بالائے طاق رکھ کرچاپلوسی کی زندگی گزارے بلکہ یہ تفاوت درجات اس لیے ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی استعداد اور صلاحیتوں سے وقت ضرورت بہر مند و مستفید ہوں تاکہ انسانوں کے درمیان جذبۂ معاونت اور الفت و محبت کا اٹوٹ رشتہ قائم رہے۔ اور ایک مقام پر فرمایا گیا ’’اور وہی ہے جس نے بنایا تمہیں (اپنا) خلیفہ زمین میں اور بلند کیا ہے تم میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں تاکہ آزمائے تمہیں اس چیز میں جو اُس نے تمہیں عطا فرمائی ہے‘‘ (سورۃ الانعام آیت 166)

یعنی انسانوں کے درمیان ارزاق و اخلاق، افضال و اکرام، محاسن و معائب، عادات و اطوار، اشکال و الوان اور مناصب و مراتب میں پائے جانے والے فرق کی حکمت و غایت صرف آزمائش و ابتلا ہے کہ کون حسنِ عمل بجالاکر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور کون سرکشی و نافرمانی میں مبتلا ہوکر دنیاو آخرت کو تباہ و تاراج کرلیتا ہے۔ مالدار کو اس کی تونگری میں آزمایا جاتا ہے اور اس سے کل بروز قیامت شکر کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ آیا وہ دولت و ثروت کی وجہ سے غرور و تکبر کا شکار ہوگیا تھا یا پھر شکر بجالاکر عجز و انکساری کا برتائو کرتا تھا۔ محتاج کے لیے فقر و ناداری اس کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور اس سے بروز محشر صبر کے متعلق سوال کیا جائے گاکہ آیا وہ مصائب و آلام سے گھبراکر گناہوں کے ارتکاب میں ملوث ہوگیا تھا یا پھر ہماری رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا تھا۔ جن حکمرانوں کے دل نورِایمانی سے محروم ہوتے ہیں ان کا اکثر یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی ساکھ اور اقتدار کو بچانے کے لیے عوام الناس میں منافرت کی میں آگ میں ڈھکیل کر اپنے آشیانیوں کے لیے روشنی فراہم کرنے کا سامان کرتے ہیں۔ ایسے ہی جابر و ظالم حکمرانوں کے شبستانوں کے سایوں میں انسانیت سسکتی رہتی ہے، انہی کے عشرت کدوں سے گناہوں اور عیش پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے اور یہ مومنانہ صفت کے بالکل برعکس عمل ہے۔ ہادی اعظمﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘ (مسلم شریف)

چونکہ جو شخص کسی فرد کا اپنے قول یا عمل سے دل توڑدیتا ہے اسے خدا کی معرفت کبھی نہیں ملتی۔ بد زبانی سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور بد اخلاقی سے ایمان خطرے میں پڑھ جاتا ہے۔ لیکن اس احساس کی دولت سے محروم عصرِ حاضر کے رہنما اپنی کرسیوں کے کھیل میں غربا و مساکین کی عافتیوں سے کھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہر سو مایوسی کا عالم ہے جو انسان کی روح کے لیے سم قاتل ہے۔ اور جب انسان کی روح مر جاتی ہے کہ وہ مردوں سے زیادہ بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مؤمن قائد وہ ہوتا ہے جو محروم و مظلوم افراد کے درد سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں تم میں بہترین شخص وہ ہے جو کسی کے لیے روئے اور بدترین شخص وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی روئے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آج کے قائدین کی ذمہ داری اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے مفادات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے عوام الناس اور ان کے مسائل اور حل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے لیکن یہ ایک مومن قائد ہی کی نشانی ہوسکتی ہے کہ وہ اقربا پروری کے جال سے نکل کر مظلوموں کی فریادرسی کرے جیسا کہ حضرت سیدنا موسیؑ نے فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے ’’ وہ شہر میں داخل ہوئے اُس وقت جب وہ بے خبر سو رہے تھے اس کے باشندے۔ پس آپ نے پایا وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے یہ ایک ان کی جماعت سے تھا اور یہ دوسرا ان کے دشمنوں سے پس مدد کے لیے پکارا آپ کو اس نے جو آپ کی جماعت سے تھا اس کے مقابلے میں جو آپ کے دشمن گروہ سے تھا تو سینہ میں گھونسا مارا موسی نے اس کو اور اس کا کام تمام کردیا‘‘ (سورۃ القصص آیت 15)۔

تنازعات کا نمٹانا اور گروہ واریت کا خاتمہ کرنا بھی قائدین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جبکہ موجودہ دور میں مفاد پرست قائدین کی وجہ سے ہی طبقہ واریت کو بڑھاوا مل رہا ہے۔  ایسی نازیبا حرکات میں مومن قائد کسی صورت ملوث نہیں ہوسکتا چونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ اگر آج میں کسی پر ناجائزظلم و ستم کروں گا تو کل رحمت کردگار سے محروم ہوجائوں گا۔ حضرت سیدنا عمرو بن مرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا ہے جو بھی امام ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے اللہ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے۔ (ترمذی، ابودائود، ابو یعلی، حاکم، احمد)

سورۃ القصص میں یہ واقعہ مذکورہ ہے کہ حضرت سیدنا موسیؑ نے حضرت سیدنا شعیب ؑ کی صاحبزادیوں کی ریوڑ کو پانی پلانے میں مدد فرمائی تو ایک صاحبزادی نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کو اجرت پر رکھ لینے کی استدعا کی جس کو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ’’ ان دو میں سے ایک خاتون نے کہا میرے (محترم) باپ اسے نوکر رکھ لیجیے۔ بیشک بہتر آدمی جس کو آپ نوکر رکھیں وہ ہے جو طاقتور بھی ہو یا دیانتدار بھی ہو‘‘۔ (سورۃ القصص آیت 26) اس آیت پاک میں خادم کے لیے دو صفات بیان کی گئی (1) طاقتور اور (2) دیانت دار۔ چونکہ قائدین بھی عوام کے خدمت گذار ہوتے ہیں اسی لیے ان میں بھی عزم و استقلال کی قوت، فکر سلیم اور امانت و دیانتداری کا پایا جانا از حد ضروری ہے۔ رسول رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’سید القوم خادمھم‘‘ قوم کا خدمت گذار ہی قوم کا قائد ہوتا ہے۔ (مواھب اللدنیہ للقسطلانی، شرح زرقانی)

اس بات کا بلالحاظ مذہب و ملت ہر انسان معترف ہے کہ موجودہ قائدین صرف الیکشن کے وقت دکھائی دیتے ہیں یہ روش نہ صرف غیر ذمہ داری پر دلالت کرتی ہے بلکہ دین متین کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے نبی مکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں وہ مومن جو (اجتماعی روابط) لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہونچنے والی تکالیف و آلام پر صبر کرتا ہے تواللہ تعالی اسے اجر عظیم سے سرفراز کرتا ہے اس مومن کے مقابل جو نہ لوگوں سے میل جول بڑھاتا ہے اور نہ اسے کوئی رنج و تکلیف پہنچتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ترمذی، حاکم، صفوۃ التصوف، مشکل الآثار للطحاوی، حیلۃ الاولیاء لابی نعیم)  اس حدیث پاک میں ان مسلمانوں کے لیے بھی نصیحت ہے جو سیاست کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں اور کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ لوگ اپنا قائد اس لیے چنتے ہیں تاکہ وہ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرے نہ کہ اپنا سیاسی قد بڑھانے میں مصروف رہے۔ لیکن یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انتخابات سے قبل ووٹروں کو لبھانے کے لیے قائدین ان کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کے بعد جب ووٹر اپنے مسائل کو حل کروانے کے لیے ان کا رخ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ انتہائی نازیبا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور غربت و افلاس کے پنجوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو دھتکارا جاتا ہے۔ اکثر قائدین ان اشخاص کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں جو معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتے ہوں یا مال دار ہوتے ہیں اگرچہ وہ باطل پر ہوں۔ غریب عوام کے مسائل کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے اگرچہ وہ حقدار ہوں۔

مومن قائد اس روش کا شکار اس لیے نہیں ہوسکتا چونکہ اس کے سامنے حضوراکرمﷺ کا یہ ارشاد مبارک ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں جو شخص کسی مظلوم کی مدد کے لیے اس کے ہمراہ چلے گا تو اللہ تعالی بروز قیامت جو قدموں کے پھسلنے کا دن ہے اس کے قدموں کو پُل صراط پر ثابت قدم رکھے گا اور جو شخص ظالم کے ساتھ اس کے ظلم پر اس کی مدد کرنے کے لیے جاتا ہے تو اس دن اُس کے قدم پلصراط سے پھسل جائیں گے۔ (تفسیر قرطبی) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اطلاعات سے اکثر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائدین اکثر متمول حضرات کی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں جبکہ ایک عام انسان کو قائد بنانے میں متمول طبقے سے کہیں زیادہ رول غریب طبقہ کا ہوتا ہے۔ مومن قائد کا یہ طرۂ امتیاز ہوتا ہے کہ وہ متمول حضرات کے ساتھ ساتھ غریب کی تقریب میں بھی شرکت کرتا ہے۔ چونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ غریب کی تقریب میں شرکت کرنے سے اگرچہ دنیوی فوائد حاصل نہ ہوتے ہیں لیکن اخروی نعمت یعنی نیکی ضرور مل جاتی ہے۔ حضور پور نورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کسی نیکی کو چھوٹی مت سمجھواگر تم اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات کرتے ہو تو یہ بھی نیکی کا کام ہے (ابو دائود)۔ اس کے برعکس متمول حضرات کی تقاریب میں شرکت کرنے سے انسان بسا اوقات گناہوں کے ارتکاب کی طرف آمادہ ہوجاتا ہے۔

خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علیؓ ارشاد فرماتے ہیں امیروں کی محفل ایمان کو تباہ و تاراج کرنے کا سبب بنتی ہے۔ آج کے اکثر قائدین میں جذبۂ خدمت خلق کم اور پیسہ بٹورنے کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے اس روش کو بھی صرف مومن قائد ہی بدل سکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایوبی سلطنت کے بانی، فاتح بیت المقدس حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ (1137-1193/532-589)جنہوں نے فلسطین، اردن، لبنان اور مصر پر بھی فتح حاصل کی تھی لیکن تاریخ عالم کے اس عظیم حکمران نے معاشی تنگدستی کے باعث حج کی سعادت سے محروم رہے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کی تجہیز و تکفین کے لیے بھی پیسہ نہ تھا۔ یہ ہے ہمارے اسلاف کی تعلیمات اور ان کی مومنانہ زندگی جو ہمارے لیے تاقیام شمس و قمر مشعل راہ ہے۔

عصر حاضر کا انگریز مورخ لین پول نے اس عظیم فاتح کے بارے میں لکھتا ہے ’’ آپ کے ہمعصر بادشاہوں اور آپ میں ایک عجیب فرق تھا بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہر دلعزیزی کی دولت کمائی‘‘۔ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ دنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا البتہ اللہ کی محبت سے دنیاو آخرت دونوں سنورجاتے ہیں اور اللہ سے محبت کی عملی دلیل خدمت خلق ہے جس کا موقع اللہ رب العزت نے قائدین کو دیا ہے وہ اسے غنیمت جانیں اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ دنیا تو فانی ہے زندگی کا کیا بھروسہ اس کی کبھی بھی شام ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اس کی آنکھ بند (یعنی موت) ہوجاتی ہے۔ آنکھ کھلنے سے پہلے آنکھ کھول لینا ہی عقلمندی کی نشانی ہے۔ چونکہ حقیقی کامیابی طاقت، دولت، شہرت اور مرتبے میں نہیں بلکہ غلامی مصطفیﷺ میں مضمر ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔