ڈاکٹر عابد الرحمن
گنگا الٹی تو نہیں بہہ رہی ہے لیکن آلودگی کی وجہ سے اس کا نظام پوری طرح گڑبڑ اگیا ہے اسی طرح سیاسی اور سماجی آلودگی نے ملک کے نظام اور جمہوری اداروں کی کار کردگی کو بھی گڑ بڑا دیا ہے شاید اسی گڑ بڑ کا نتیجہ ہے کہ اب اداکار انٹر ویو لینے لگے ہیں اور وہ بھی سیاسی طور پر انتہائی گرم ماحول میں ’غیر سیاسی ‘ انٹر ویو۔ اداکار بہت حساس ہوتے ہیں وہ سماج کی اچھائی اور برائی کو اپنی اداکاری کے ذریعہ اجاگر کرتے ہیں تاکہ اچھائی کی تحسین کی جائے اور برائی کا سد باب کیا جاسکے۔ اداکار اکشے کمار نے وزیر اعظم مودی جی کا انٹرویو لیا ہمیں لگا چلو مودی جی کی شخصیت کے مثبت و منفی دونوں پہلو اجاگر ہوں گے لیکن اس انٹرویو کے ذریعہ ہمیں جومعلومات ملی وہ یہ کہ مودی جی کو آم پسند ہیں لیکن ان کے پاس آم خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے، انہیں جب زکام ہوتا ہے تو وہ گرم پانی کا استعمال کرتے ہیں اور سرسوں کا نیم گرم تیل ناک میں ڈال لیتے ہیں پورے انٹرویو میں مودی جی نے جگہ جگہ اپنی غریبی اور سادہ زندگی کو اجاگر کر نے کی کوشش کی یہاں اگراکشے کمار اپنی پیشہ ورانہ حساسیت سے کام لیتے تو مودی جی کے مہنگے کھانے کپڑے چشمے پین اور گھڑی وغیرہ کے متعلق میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہوئی باتوں کے بارے میں ضرور پوچھتے اسی طرح مودی جی نے کہا کہ انہیں غصہ نہیں آتا اور اگر آتا ہے تو اسے اتارنے کے لئے وہ ساری واردات لکھ لیتے ہیں، انہیں ظرافت پسند ہے اور اپنے متعلق بنے کارٹونوں میں وہ تخلیقی صلاحیت، کریٹیوٹی (creativity) دیکھتے ہیں اکشے کماریہاں ایک غیر سیاسی سوال یہ پوچھ سکتے تھے کہ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے پیروکاروں کو کریٹیوٹی کیوں نہیں دکھاتے انہیں کیوں نہیں کہتے کہ غصہ نہ ہوا کریں اور لوگوں کو ماں بہن کی گالی نہ بکا کریں۔ اکشے کمار نے مودی جی کے صفائی ابھیان کی بڑی تعریف کی ان کے ذریعہ پاخانے بنوانے کی بڑی تحسین کی۔ مودی جی نے کہا ہے کہ ان کے اس ابھیان کی وجہ سے ملک میں جو پہلے ۳۸فیصد رورل سینیٹیشن تھا اب ۹۸ فیصد ہو گیا اگر اکشے کمار کی جگہ کوئی ایسا داکار ہوتا جس کی حساسیت زندہ ہوتی اور جسے اصل ا نڈیا یا دیہاتی رورل انڈیا کا کچھ علم ہوتا تو وہ مودی جی کو بتاتا کہ آج بھی اگر آپ گاؤں دیہاتوں میں جائیں تو آپ کا استقبال راستے کے ہر دو جانب پڑے انسا نی فضلہ سے ہوگا اور اگر علی الصبح و شام آپ کا جانا ہوجائے توآپ لوگوں کو رفع حاجت کرتے ہوئے بذات خود دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن شاید اس انٹر ویو کے لئے اکشے کمار کو اسی لئے چنا گیا تھا کہ وہ مودی جی کی کسی بات پر کوئی سوال نہ اٹھائیں۔ اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو بھکت ثابت کرنے میں کوء کثر نہ چھوڑی۔
لوک سبھا الیکشن میں مودی جی نے ایک بایو پک ’ بال نریندر ‘ جاری کی تھی جس میں مودی جی کے بچپن کی پوری کہانی درج تھی، ، اس الیکشن کے موقع پرتو ان کی زندگی پر باقائدہ ایک فلم بنوالی گئی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس کی رلیز پر پابندی عائد کردی، مودی جی نے الیکشن کمیشن کے منھ پر طمانچہ جڑتے ہوئے یہ انٹرویو جری کر شاید فلم کی پوری کہانی سنادی۔ یوں تو اس انٹر ویو کو ’غیر سیاسی ‘ کہا گیا لیکن یہ ایک خالص سیاسی انٹر ویو تھا جس کے ذریعہ لوگوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ عین الیکشن کے زمانے میں جب کہ اپنا قائد اور حزب اقتدار چننے کا انتہائی ذمہ دارانہ عمل جاری ہے، ملک کے سلگتے مسائل کی طرف دھیان دینے کی ضرورت نہیں صرف مودی جی کی انفرادی زندگی کے متعلق جاننا ہی کافی ہے۔ اس انٹر ویو کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مودی جی انتہائی سادہ شائستہ اور مقدس ہستی ہیں، انتہائی غریب گھرانے سے ہیں وہ یاتو ملک کے لئے فوجی بننا چاہتے تھے یا پھر سنیاسی، انہوں نے ملک کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ رکھا ہے، وزیر اعظم بننے کا خیال بھی ان کے دل میں نہیں تھا لوگوں نے بنادیا، وہ محض تین ساڑھے تین گھنٹے سوتے ہیں بقیہ تمام وقت ملک کے لئے کام کرتے ہیں، بھلا ایسے شخص کو ملک کے مسائل کا ذمہ دار کیسے گردانا جا سکتا ہے اس سے ملک کے مسائل کے متعلق سوالات کیسے کئے جاسکتے ہیں ؟!
اس’غیر سیاسی ‘ انٹر ویو میں مودی جی نے بھی کئی سیاسی تیر چلا لئے ایک تو بار بار اپنی غریبی اور سادہ زندگی کا ذکر کر کے انہوں دراصل یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ عام آدمی میں سے ہی ہیں دوسرے اپنی اس عام اور سادہ زندگی کی تربیت میں آر ایس ایس کا ذکر کر کے یہ ظاہر کر نے کی کوشش کی کہ ان کے اندر کا عام آدمی نہ صرف ہندو ہے بلکہ سنگھی ہندو ہے یعنی اس غیر سیاسی انٹر ویو کے ذریعہ انہوں نے نہ صرف اپنے عام آدمی ہونے کو ہائی لائٹ کیا بلکہ اپنی سیاست’ ہندوتوا‘ کو بھی آگے بڑھا یا۔ اسی طرح حزب اختلاف میں موجود دوستوں میں انہوں نے ممتا بنرجی کا خاص ذکر کیا کہ وہ انہیں ہر سال خاص چنندہ کرتے بھجواتی ہیں، دراصل انہوں نے دوستی کے ذکر سے زیادہ ممتا کے ووٹ بنک کو یہ بتانے کی کوشش کی وہ ان کی کتنی بھی مخالف کیوں نہ ہوں ان کی دوست ہیں بلکہ ایسی دوست ہیں جو انہیں ہر سال تحفہ بھجواتی ہیں یعنی وقت پڑنے پر وہ سیاسی طور پر بھی ان کی دوست ہو سکتی ہیں، کوئی اور نہیں تو مما بنر جی کے مسلم ووٹ مودی جی کی اس بات سے ضرور متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح انہوں سماجوادیوں یا سوشلسٹوں کے متعلق ایک لطیفہ چھوڑ کرایک ہی تیر سے ان کے مخالف تما سماجوادیوں کو نشانے پر لے لیا، درصل یہ بتا نے کی کوشش کی کہ وہ دوہری زندگی گزارتے ہیں جو عوامی طور پر لگ ہوتی ہے ور انفرادی طور پر الگ، یعنی وہ لاکھ عام آدمی کی بات کریں انفرادی طور پر مودی جی کی طرح عام آدمی نہیں ہوسکتے۔ کیا اس سب کے بعد بھی اس انٹر ویو کو ’غیر سیاسی ‘ کہا جا سکتا ہے ؟ یوں تو شاید ہی کوئی ہو جو اسے غیر سیاسی سمجھتا ہو اور اگر کوئی اسے غیر سیاسی سمجھتا ہے تو سمجھئے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس انٹر ویو کے ذریعہ مودی جی نے انتہائی چالاکی سے اپنی سیاسی ضرورت پوری کی ہے۔ غالب گمان ہے کہ اکشے کمار بھی اس سیاست میں برابر کے شریک ہیں اور اگر وہ اسے غیر سیاسی ہی سمجھتے ہیں اور واقعی اس انٹرویو کی سیاست میں شریک نہیں تو سمجھئے کہ مودی جی نے انہیں بے وقوف بنایا کر اپنا کام نکال لیا۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔