اشتہاری ویکسین سے دم توڑتی معیشت کا علاج

ڈاکٹر سلیم خان

یہ حسن اتفاق ہے کہ  جب مودی حکومت اپنی ساتویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہی ہے،مالی سال 21-2020 میں جی ڈی پیکے اندر  7.3 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ کورونا کی وباء نے  فی الحال انسانی صحت کے ساتھ قومی معیشت کو بھی مفلوج کررکھا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو پچھلے چالیس سالوں میں سب زیادہ  ہے۔ اس سے قبل 1979-80  میں گروتھ ریٹ نفی 5.2 فیصد درج کی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو قحط سالی تھی نیز کچے تیل کے دام  بھی دوگنا ہوگئے تھے۔ فی الحال کچے تیل کا دام بہت کم ہے اس کے باوجود اپنے ملک میں پٹرول 100 روپیہ سے زیادہ فی لیٹر بک رہا ہے اور سرکار نوٹ چھاپ رہی ہے۔ اس وقت جنتا پارٹی کی سرکار 33 ماہ بعد گر گئی تھی یہ حکومت بھی اپنے 3سال پورے کرسکے گی یا نہیں کوئی نہیں جانتا؟ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سال کی چوتھی سہ ماہی (جنوری-مارچ) میں شرح نمو میں 1.6 فیصد کی ترقی  درج کی گئی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ سرکاری ادارہ  این ایس او  کوجی ڈی پی میں 7.7 فیصد کے گراوٹ کی توقع تھی۔ گزشتہ سال جی ڈی پی کی شرح نمو  4 فیصد تھی۔

گجرات کے لوگ چونکہ  تجارت میں تیز ہوتے ہیں اس لیےوزیر اعظم نریندر مودی سے  لوگوں نے بڑی توقعات و  ابستہ تھیں لیکن وقت کے ساتھ اس پر اوس پڑ گئی۔ 2014سے لے 2019 تک کوئی وباء نہیں تھی اس کے باوجود معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ 2014میں جب مودی جی نے اقتدار سنبھالا تھا جی ڈی پی 7.41 فیصد تھی اور اس میں 1.02فیصد کی بڑھوتری نوٹ کی گئی تھی۔ 2015میں یہ شرح نمو  بڑھ کر 8 فیصد پر تو پہنچی لیکن اضافہ کی شرح   نصف سے کم یعنی0.26 فیصد  ہوگئی۔ اس کے بعد مودی جی نے نوٹ بندی کی حماقت کی تو 2016 میں  جی ڈی پی 8.26پر آگئی یعنی اضافہ کی شرح پھر سے گھٹ 0.26 فیصد پر آگئی۔ 2017میں مودی جی نے اور بڑی حماقت کرکےجی ایس ٹی لاگو کردی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرح نمو بڑھنے کے بجائے گھٹ گئی۔ کل شرح نمو 7.04تھی مگر 1.21فیصد کی گراوٹ نوٹ کی گئی۔ 2018 میں انتخاب سامنے تھے اس لیے مودی جی محتاط ہوگئے  اس کے باوجود شرح نمو6.12 پر آگئی یعنی 0.92 کی گراوٹ جاری رہی۔

 مودی جی نے دوبارہ انتخاب جیت کر بڑی ٹھاٹ سے 5ٹریلین اکونومی کا اعلان تو کیا مگر   جی ڈی پی صرف 4.18تھی یعنی مزید 1.94 فیصد کی گراوٹ دیکھنے کو ملی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے وزیر اعظم کس طرح شیخ چلی کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔  یہ اعدادو شمار اس بات کا ثبوت ہیں  معیشت پہلے ہی پھسل رہی تھی لیکن اب اس کو کورونا کا  بہانہ مل گیا ہے ۔ کورونا وبا کی پہلی لہر میں  اپریل سے جون کے دوران  جی ڈی پی میں منفی ترقی درج دیکھی گئی  بلکہ  جون کی سہ ماہی میں تو جی ڈی پی تقریباً23.9فیصد کی تاریخی گراوٹ تک پہنچ گئی۔یکم ستمبر 2020 کو  قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی طرف سے جاری اعدادو شمار کے مطابق اپریل تا جون کے بیچ  زبردست گراوٹ کا سبب تالہ بندی تھا۔ اس دوران  تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور تجارت، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ ان میں بالترتیب منفی 50.3 فیصد، 39.3 فیصد اور 40.7 فیصد کی ریکارڈ گراوٹ دیکھنے میں  آئی تھی۔

اس وقت ماہر  اقتصادیات  انشومن تیواری نے کہا  تھا کہ ‘حکومت ابھی تک ایک من گھڑت اور امید افزا ماحول کی تصویر پیش کررہی تھی لیکن معیشت کی حقیقی تصویر اب سامنے آگئی ہے اور حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی نقلی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔” اس کو وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انشومن تیواری نے  ملک میں انتہائی شدید اقتصادی کساد بازاری کی پیشنگوئی کی تھی جو وقت کے ساتھ سچ ثابت ہوئی مگر موجودہ حکومت ان ماہرین کی جانب توجہ دینے کی قائل نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں بھی موجودہ سرکار نے ملک کی معیشت سنبھالنے کے لیے منموہن سنگھ یا پی چدمبرم  جیسے کسی ماہر اقتصادیات کی خدمت حاصل نہیں کی۔ اس وقت پی  چدمبرم نےنے مودی حکومت پر الزام لگایا  تھا کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے علاوہ  ہر  کسی  کو معیشت کے بحران کی سنگینی کا علم تھا۔ سرکاری  خود فریبی کی قیمت ملک کے عوام چکا رہے ہیں۔ غریب لوگ  مایوسی کا شکار ہورہے تھے مگربے فکر مودی سرکارجھوٹی کہانیاں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرتی رہی۔ بی جے پی رکن پارلیمان ور  ماہر معاشیات ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا  ابھی حال میں دعویٰ  کیا ہے کہ قومی معیشت کو سدھارا جاسکتا ہے لیکن اس حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟

 ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کے صنعت کار اور تاجر  وزیر خزانہ کی جانب سے واضح حکمت عملی اور تعاون کی امید کررہے تھے انہوں نے خراب اقتصادی صورت حال کے لیے ‘بھگوان کو ذمہ دار‘ ٹھہراکر اپنا دامن جھٹک لیا۔ اس طرح گویا  قومی معیشت کو رام بھروسے چھوڑ دیا گیا۔ سرکار کی  اس  بے حسی کا نتیجہ حالیہ اعدادوشمار میں سامنے آگیا اس لیے  کہ حقائق جلد یا بہ دیر سامنے آہی جاتے ہیں۔ مودی سرکار کو معلوم تھا کہ جب یہ حقیقت سامنے آئے گی تو وزیر اعظم کے حوالے  سے عوام کے اندر مایوسی میں اضافہ ہوگا اور ان کی مقبولت مزید کم ہوجائے گی۔ اس لیے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک جعلی اشتہار اخبارات میں شائع کروا دیا گیا۔ یہ کام اس قدر بھونڈے طریقہ سے کیا گیا کہ بیچ بازار میں سارا بھانڈا پھوٹ گیا اور عزت ووقار  کے بجائے ذلت و رسوائی ہاتھ آئی۔ناکام  سرکار کو میک اپ کرنے کے لیے  معاشی امور کے ممتاز اخبار ‘اکنامک ٹائمز’ اور اسی گروپ کے ایک بڑے اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ میں ایک اشتہار شائع کرکے  اچانک  سنسنی  پھیلا ئی  گئی۔

عام طور پر کسی  اشتہار میں براہ راست ملک کے وزیر اعظم  سے خطاب نہیں کیا جاتا لیکن یہاں مخاطب نریندر مودی تھے۔ اس  اشتہارمیں ایک فرضی  کمپنی نے ہندوستان کے اندر 500 ارب ڈالر یعنی تقریباً 36 لاکھ کروڑ روپے سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ سوال یہ ہے کہ کسی  سرمایہ کار کو وزیر اعظم سے خطاب کرنے کی کیا ضرورت؟  اس اشتہار کو دیکھ کر ساری دنیا اس لیے حیرت زدہ تھی گذشتہ سال ہندوستان کے اندر  امریکہ سے ہونے والی کل سرمایہ کاری سات ارب ڈالر تھی۔ ایسے میں اگر کوئی بے نامی  کمپنی جملہ امریکی سرمایہ کاری سے 71 گنا زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا اشتہار دے تو اس کا شکوک و شبہات میں گھر جانا فطری بات ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کو  چاہیے کہ آئندہ اتنا بڑا جھوٹ نہ بولے کہ کسی احمق ترین مودی بھگت کے لیے بھی  اس  پر یقین کرنا مشکل ہوجائے۔ لہذا بی بی سی نے اس اشتہار کی جانچ پڑتال شروع کردی  اور  جو حقائق اس کے ہاتھ لگے وہ  حقیقت میں مضحکہ خیز ہیں۔

عصر حاضر میں ہر تفتیش کی ابتداء گوگل سے ہوتی ہے وہاں جانے پر پتہ چلا کہ  سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کرنے والی کمپنی کی ویب سائٹ ایک صفحے پر مشتمل تھی اور اس میں بھی اشتہار کے سوا کچھ  درج نہیں ہے یعنی اس کمپنی کی جمع پونجی  ایک  اشتہار تک محدود  ہے۔ اس جعلی کمپنی کی  ویب سائٹ کے مطابق پردیپ کمار ستیہ پرکاش  اس کےچیئرمین اور سی ای او ہیں۔ ان کے علاوہ  ڈائرکڑس کے طور پر ممتا ایچ این، یشہاس پردیپ رکشت گنگادھر اور گناشری پردیپ کمار کے نام لکھے ہیں۔مشیروں کے کالم میں  پامیلا کیؤ، پروین آسکر شری، پروین مرلی دھرن، اے وی بھاسکر اور نوین سجن جیسے غیر معروف نام ہیں جن کوکوئی نہیں جانتا مگر یہ سب نام سے  ہندوستانی نژاد لگتے ہیں۔ وہاں پر ان کی تصاویر تو ہیں لیکن تعارف غائب ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی چائے والا اور کوئی کرانے والا ہو، اس لیے تعارف کرانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر نیو جرسی، امریکہ کاپتہ  تودیا گیا لیکنفون نمبر غائب تاکہ کوئی فون کرنے کی زحمت نہ کرسکے۔

بی بی سی والے جب کسی کے پیچھے پڑتے ہیں تو اسے انجام تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتے۔ بی بی سی کا معاون نامہ نگار جب ویب سائٹ پر درج  پتے پر پہنچا  تو پتہ چلا کہ لینڈمس ریئلٹی وینچر انک، ریورسائڈ سٹیشن بولیورڈ، نیو جرسی ایک  رہائشی عمارت ہےجہاں کسی کمپنی  کےدفتر کا نام و نشان  نہیں ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار نے سوچا کہ ممکن دفتر کہیں منتقل ہوگیا ہو اس لیے اس نےعمارت کی معلومات  رکھنے والی خاتون سے ربطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں  لینڈمس ریئلٹی نامی کمپنی کا  دفتر کبھی  نہیں تھا۔ بی بی سی نے پردیپ کمار ستیہ پرکاش  کو ای میل لکھ کر تفصیل طلب کی تو  جواب  ملا : ‘ہم نے اپنی تفصیلات حکومت ہند کو ارسال کردی ہیں اور ان کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب ہمیں جواب ملے گا تو مکمل تفصیلات عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ یہ عجیب منطق  ہے جو معلومات سرکار کو دی گئی ہے وہ ذرائع ابلاغ کو دینے میں کیا پریشانی ہے؟  نیز اشتہار میں غلط پتہ کیوں دیا گیا؟

کمپنی کی ویب سائٹ کے بارے میں مزید چھان بین سے پتہ چلا کہ اسے 2015 میں کرناٹک  کے اندر بنانے والی تنظیم کے نام پر یونائیٹڈ لینڈ بینک تھا۔ کارپوریٹ وزارت کے مطابق  2015 میں بنگلور کی  لینڈمس ریئلٹی وینچر پرائیویٹ لمیٹڈ  کا ادا شدہ سرمایہ ایک لاکھ روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ 6سالوں میں ایک لاکھ کی کمپنی کے پاس سرمایہ کاری کے لیے36لاکھ کروڈ  کہاں سے آگئے؟ جبکہ اس کے پاس ہندوستان میں دفتر تک نہیں ہے۔ ٹویٹر پر مالیاتی امور کے ماہرین نے اس اشتہار کو ‘مذاق’ اور ‘شرارت’ قرار دیا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے اشتہاریوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا  لیکن جو سرکار دہلی فساد کے مجرموں پر کارروائی نہیں کرتی اس سے کیا توقع کی جائے؟  اس جعلی اشتہار نے پھر ایک بار وزیر اعظم کی پھیکو والی شبیہ پر مہر ثبت کردی ہے۔ بی بی سی کو اس فریب دہی  پر حیرت ہے لیکن ہندوستانی باشندے پچھلے سات سالوں میں اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ پھر بھی   سوال  پیدا ہوتا  ہے کہ یہ  کھیل تماشہ کب تک چلے گا؟  عوام کو کب تک جھوٹے دلاسے دے دے کر بہلایا پھسلایا جائے گا؟؟  اور کیا جعلی اشتہاری ویکسین سے دم توڑتی معیشت کا صحت یاب ہوجائے گی ؟؟؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔