تُو نے کیا دیکھا نہیں بھارت کا جمہوری نظام؟

ڈاکٹر سلیم خان

 ہندوتواوادی وزیر ہنس راج اہیرکو جمہوریت کی رکشا میں گولیاں دینے والے ڈاکٹروں کو گولیوں سے بھون دینے کی دھمکی سن کر پہلے تو تعجب ہوا لیکن غور کرنے پر پتہ چلا  کہ  ہندوستان کی پراچین تہذیب میں جہاں شودروں کو حیوانی  حقوق سے  بھی محروم کردیا گیا تھا ، جابرانہ ہ ملوکیت کے باوجود حکمرانوں  کے اندر  جمہوریت کا ایک عنصرضرور پایا جاتا تھا۔  اس کا مظاہرہ  راجہ مہاراجہ اپنی شہزادی کی شادی کے وقت کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے داماد کا انتخاب نہ خود کرتے اور نہ اپنی بیٹی کو کرنے دیتے بلکہ ایک  کھلا  سوئمبر رچاتے۔  اس میں عجیب و غریب آزمائش رکھی جاتی۔  مختلف ممالک  کے شہزادوں کو قسمت آزمائی کا موقعہ  دیا جاتا  اور جو کامیاب ہوجاتا وہ مقدر کا سکندر کہلاتا۔  مریادہ پرشوتم رام کو بھی سیتا کو اپنی زندگی میں لانے کے لیے اس آزمائش سے گذرنا پڑا۔  رام چندر جی کی آزمائش  کافی آسان تھی ویٹ لفٹنگ کا  معاملہ تھا سو بخیر و خوبی نمٹ گیا لیکن ارجن بیچارہ  گھومتی ہوئی مچھلی کے عکس کو دیکھ کر اس کی آنکھ میں نشانہ لگانے کے باوجود ایک نئی آزمائش میں پھنس گیا۔

ارجن نے واپس ہستنا پور  آکر اپنی نابینا ماں کو یہ بتانے کے بجائے کہ میں آپ کی  بہو کو آپ کے پاس لایا ہوں یہ کہہ دیا کہ میں آپ کے لیے ایک بیش بہا تحفہ لایا ہوں۔  اسے توقع رہی ہوگی کہ ماں اس کی تفصیلات دریافت کرے گی لیکن ذہین  کنتی نے تفصیلات  میں جاکر وقت ضائع کرنے کے بجائے براہِ راست  اپنا فرمان جاری کردیا کہ بیٹے  مل بانٹ کر کھاو یہ اب پانچوں بھائیوں کی مشترکہ میراث ہے اس طرح بیچاری درپدی پنچالی بن گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاعلمی کی بنیاد پر جاری کیے گئے  اس فرمان پر نہ تو فرمانبردار سپوتوں میں سے کسی نے اُف کیا اور نہ  دروپدی نے اعتراض  کیا۔  ساری اطاعت گذار اولاد نے کنتی کی مانند آنکھ موند کر اس کی عملی تدابیر وضع کرنی شروع کردی۔  یہ سب اپنی ماتا شری کے فیصلے سے اس قدر راضی برضا تھے کہ دروپدی نے ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک بیٹے کو جنم دیا اور وہ اپنے منفرد باپ اور مشترک ماں کے نام سے پہچانے گئے۔  جمہوری عمل میں کبھی  کا سوئمبر کے نتائج مختلف ہوتے ہیں کبھی رامائن کی کہانی دوہرائی جاتی ہے تو کبھی مہابھارت چھڑ جاتی ہے۔

انتخابات  کو  جمہوریت  میں سوئمبر کا مقام  حاصل ہے فرق صرف یہ ہے کہ دورِ جدید کی یہ نیلم پری ہر پانچ سال بعد تجدیدعہد کی خاطر نیا سوئمبر رچاتی ہے۔ وہ  اس مقابلے میں حصہ لینے والوں کو سام، دام، دنڈ جیسا  ہر عیارانہ و مکارانہ  حربہ استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دیتی ہے۔ اس اٹھا پٹخ کے بعد  ناکام ہونے والے کھلاڑیوں کو بے دردی سے دھتکار کر بھگا دیتی ہے اور کامیاب ہونے والے کے گلے میں  بڑے شوق سے ورمالا ڈال دیتی ہے۔ انتخابات  کے نتیجے میں  کبھی رام چندر جی کی مانند کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہوجاتی ہے اور کوئی ایک رہنما بلا شرکت غیرے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال  لیتا ہے کبھی کسی  جماعت کو اکثریت نہیں مل پاتی ایسے میں پانڈو کی مانند مختلف لوگوں کو  مل بانٹ کر ستاّ(اقتدار)کا بھوگ کرنا پڑتا ہے۔

جمہوریت کی تقریب نکاح یعنی انتخابات تو بڑے دھوم دھام سے ہوتے ہیں ۔  اس دوران سب کا  ساتھ اور سب کا وکاس کے  سہانے خواب سجائے جاتے ہیں  جن میں پندرہ لاکھ نوٹوں کی برسات  بھی ہوتی ہے مگر آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ۵۰۰ کے نوٹ بھی غائب ہوگئے۔۔ یہ تو خیر عمومی واقعات ہیں ایک خاص واردات کی مثال سے دیکھیے کہ یہ جمہوری  گھر سنسار  کیسے چلتا ہے۔ ہنس راج اہیر ریاستِ مہاراشٹر میں چندرپور سے رکن پارلیمان ہیں۔  انہیں چار مرتبہ ایوان پارلیمان کے رکنیت کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔  چودھویں لوک سبھا میں ان کو اس وقت کے اسپیکر سومناتھ چٹرجی  نے دیگر ارکان پارلیمان کے لیے نمونہ قرار دیا تھا۔  ؁۲۰۱۱، ؁۲۰۱۲، ؁۲۰۱۳  اور ؁۲۰۱۴ میں ان سنسد رتن یعنی ایک معنیٰ میں اکبر کے نورتن جیسے خطاب سے نوازہ گیا۔ ہنس راج اہیر نے اعزازات  حزب اختلاف میں رہتے ہوئے کانگریس کے دورمیں حاصل کیے۔ ان تفصیلات کا پیش کرنا اس لیے ضروری تھا کہ بات کسی للوّ پنجو جمہوری رہنما کی نہیں ہورہی ہے بلکہ یہ ایک رہنما ہیں جن کی جمہوریت نوازی کا لوہا ان کے حامی تو کجا مخالفین بھی مانتے ہیں۔   ؁۲۰۱۴ میں جب سے ہنسراج اہیر کی اپنی جماعت اقتدار میں آگئی تو انہیں وزیر بنایا گیا اور فی الحال وہ وزیرمملکت برائے داخلہ کی اہم  عہدے پر فائز ہیں۔

۲۵ اگست  ؁۲۰۱۷ کے دن وزیر موصوف کو چندرپور کے گورنمنٹ میڈیکل کالج  اور اسپتال میں ایک عمومی ادویات کے کاونٹر کھولنے کی سوجھی۔  اہیر  نے دہلی سے چندر پور آنے کا قصد کیا مگر وہاں پر ضلعی سیول سرجن ڈاکٹر اودے ناواڑے اور ڈین میڈیکل کالج ڈاکٹر ایس ایس مورے موجود نہیں تھے۔ سرکاری ڈاکٹروں کو اپنا زرخرید غلام سمجھنے والا یہ گھمنڈی  خودساختہ آقا  نےاس حرکت میں  بغاوت وسرتابی کے جراثیم دیکھ لیے اور   اپنی توہین تضحیک کا انتقام لینے کے لیے برسرِ عام دھونس دھمکی پر اتر آیا۔ انڈین ایکسپریس کے نمائندوں نے اس معاملے سے متعلق سارے لوگوں سے رابطہ کرکے ان سے وضاحت طلب کی اور جو دلچسپ انکشافات ہوئے ان کی مدد سے جمہوری نظام کا طریقۂ کار سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

سیول سرجن ڈاکٹر ناواڑے نے بتایا کہ ’’ میں نے چند ذاتی وجوہات کی بناء پر۲۳ دسمبر سے چھٹی پر ہوں اور ۲۶ دسمبر کو ڈیوٹی پر حاضر ہوجاوں گا۔  مجھے اس پروگرام کی اطلاع(۲۴ دسمبر) اتوار کی شام  کو ملی۔  میں اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا‘‘۔ اس نظام جمہوریت میں جہاں اظہار رائے کی آزادی کے بلند بانگ دعویٰ کیے جاتے ہیں ایک سیول سرجن کی یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ کہہ سکے میں اس وزیر کا زرخرید غلام نہیں ہوں۔  میں اپنا کام کرتا ہوں اور اس کی تنخواہ  لیتا ہوں۔  اس دوٹکے کے وزیر کو جو وارڈ بوائے سے بھی کم پڑھا لکھا ہے  مجھے دھمکی دینے کا حق کس نے دیا۔ اس کے خلاف میں عدالت سے رجوع کرکے ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔  اقبال نے ڈاکٹر ناواڑے کی حالت کو کیا خوب بیان کیا ہے ؎

عصرِحاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے 

 قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش

ڈاکٹر ناواڑے نے اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انہوں نے اپنی تعطیل کی درخواست ناگپور ڈویژن میں محکمۂ صحت کے ڈپٹی ڈائرکٹر سنجئے جیسوال کو روانہ کردی تھی۔  بیچارے نواڑے نہیں جانتے تھے کہ جس پر وہ تکیہ کررہے ہیں  وہ چاپلوس پتہ ّ ان کو اس طرح ہوا دے گا۔  جیسوال نے کہا میرے پاس ناواڑے کی تعطیل سے متعلق کوئی  اطلاع نہیں ہے۔  میں اس کی تحقیق کرکے مناسب اقدام کروں گا۔  ان وزیر کے پروگرام میں موجود رہنا چاہیے تھا۔   اسے کہتے ہیں چاپلوسی  اور تلوے چاٹنا۔  جیسوال جیسے لوگوں کی قدمبوسی سے ہی ان حکمرانوں کا دماغ آسمان میں ہے۔ اس معاملے کے دوسرے اہم فریق اسپتال اور کالج کے ڈین  ایس ایس مورے ہیں۔  انہوں نے بتایا کہ ’’وہ ۲۳ دسمبر سے ۳۱ دسمبر تک چھٹی پر ہیں۔  ان کے نائب ڈاکٹر ایم جے خان تقریب میں موجود تھے‘‘۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ پروگرام کب طے ہوا تو جواب تھا ۱۵ روز قبل۔

انڈین ایکسپریس کے  یہ پوچھے جانے پر کہ متعلقہ لوگوں کو دعوتنامے کیوں نہیں بھیجے گئے؟  ڈاکٹر مورے نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا اس کا جواب کارگذار ڈین سے پوچھیں۔   ڈاکٹر مورے کے جواب میں مصلحت اور خوف کے عناصر صاف نظر آتے ہیں۔   ڈاکٹر خان نے صاف طور پر اپنا پلہّ جھاڑتے ہوئے کہا  اس تقریب کا اہتمام وزارت صحت کی جانب سے امرت دین دیال مہم کے تحت ملک بھر میں کیا جارہا ہے۔ اس مطلب صاف ہے کہ اس کا دعوتنامہ دینے کی ذمہ داری ان کی نہیں بلکہ  وزارت صحت کی تھی۔  اس تقریب میں غیر حاضر رہنے والی ایک اہم شخصیت کلکٹر اشتوش سلیل کی بھی تھی۔  انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ انہیں رسمی دعوتنامہ نہیں موصول ہوا۔ مجھے ایک واٹس ایپ پیغام آج (پروگرام کے دن ) موصول ہوا۔ عام طور پر جب وزیر کا پروگرام ہو تو کلکٹر کو باقائدہ دعوتنامہ دیا جانا چاہیے۔ اس جواب کے اندر عزتِ نفس اور وقار کی جھلک نظر آتی ہے۔

اس پس منظر میں دیکھیے کہ وزیر موصوف ہنس راج اہیر نے کیا کہا؟ وہ بولے’’ انہیں (ڈاکٹر نلاوڑے اور مورےکو) نکسلوادیوں کے ساتھ جاملنا چاہیےتاکہ ہم ان گولیوں سے اڑا سکیں ‘‘۔  اس طرح کا لب و لہجہ تو کسی ظالم و جابر بادشاہ نے اپنے بے قصور اطباء کے خلاف  استعمال نہیں کیا ہوگا ؟ اسی لیے علامہ نے اقبال نے جمہوری نیلم پری کو دیو استبداد سے تشبیہ دی ہے۔  یہ وزیر موصوف کے زبان کی پھسلن نہیں ہے بلکہ وہ  اپنے بیان کی وضاحت  اس طرح کرتے ہیں  ’’نکسل کیا چاہتے ہیں ؟ وہ جمہوریت نہیں چاہتے۔  میں چونکہ وزارت داخلہ دیکھتا ہوں اس لیے  یہ جانتا ہوں۔   یہ لوگ (یعنی غیر حاضر ڈاکٹرس ) بھی جمہوریت نہیں چاہتے۔  اس لیے نکسلیوں کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ آپ لوگ یہاں کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں ؟ وہاں جاو اور ہم تمہیں گولیوں سے بھون دیں گے۔ تم یہاں گولیاں کیوں دیتے ہو؟  جب میں اسپتال میں آرہا ہوں تو تمہارا غیر حاضر رہنا کیونکر جائز ہے؟‘‘۔

ایک مثالی رکن پارلیمان اور اہم وزیر نے صاف بتا دیا کہ جمہوریت کی شریعت میں کسی ڈاکٹر کا وزیر کی آمد پر موجود نہ ہونا قابل گردن زدنی جرم ہے۔ ان   کا مریضوں کا علاج کرنا اور انہیں دوائی دینا اہم نہیں ہے بلکہ وزیر کی آمد پر غیر حاضر رہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ اپنی غیر حاضری سے ان لوگوں نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ہے اس لیے ان کو جمہوریت کے خاتمہ کی خاطر لڑنے والے نکسلوادیوں میں شامل ہوجانا چاہیے  تاکہ جمہوریت نوازوں کو ان کے خون سے ہولی کھیلنے کا موقع مل سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا وزیر کے اس تضحیک آمیز بیان کے خلاف ملک بھر طبیب احتجاج کے لیے میدان میں اتر جاتے اور وزیر کو اس بدزبانی کے سبب نکال باہر کیا جاتا یا کم ازکم معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑتا لیکن جمہوری نظام کے سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔  سارے جمہوریت نوازو ں کو سانپ سونگھ گیا۔ الٹا انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن نے بدزبان وزیر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ  اہیر کا بیان  ڈاکٹر برادری کے خلاف نہیں بلکہ فردِ واحد کی مخالفت میں ہے اور سیول  سرجن  قصوروار ہے۔  پیشہ وارانہ وفاداری پر نظریاتی فوقیت اسے کہتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک  کے ڈاکٹروں نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا۔  جس وقت ہنس راک اہیر چندر پور میں یہ  تقریر فرما رہے تھے اس وقت بی جے پی کی ایک ریاست راجستھان میں ڈاکٹر ہڑتال پر تھے۔ وہ لوگ اپنی تنخواہوں میں اضافہ، ترقی اور دیگر سہولیات کے لیے صوبائی حکومت سے  برسرِ جنگ تھے۔  اس ہڑتال کے دوران ۳۰۰ مریضوں  کی طبی امداد کے نہ ملنے کی وجہ موت ہوگئی لیکن نہ ڈاکٹروں کے کان پر جوں رینگی اور نہ وزراء  نے عوام سے کسی ہمدردی کا ظہار کیا۔  ان رہنماوں کے نزدیک عوامی جان کا نقصان سے زیادہ اہمیت ان کے پروگرام میں ڈاکٹر کی موجودگی ہے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے یہ گولی چلانے کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

  وزیر موصوف  نے جس صوبے میں یہ بیان دیا اور جو اتفاق سے ان کی آبائی ریاست بھی ہے۔  مہاراشٹر کی حکومت نے   غریب عوام کو نئے سال کا یہ تحفہ دیا کہ سرکاری اسپتالوں میں مختلف اقسام کی فیس بڑھا دی۔  داخلہ کے لیے جو  فارم بھرا جاتا ہے اس کی فیصد میں ۱۰۰ فیصد کا اضافہ کیا گیا اور دیگر سہولیات جیسے  ایکس رے، ای سی جی  اور سی ٹی اسکین وغیرہ کے نرخ بھی بڑھائے گئے۔ اس سے متاثرہ عوام کو شکایت ہے اکثرو بیشتر یہ مشینیں بگڑی ہوئی ہوتی ہیں۔  ان  کی مرمت میں تاخیر کے سبب غریبوں کو نجی اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اس پر اب فیس میں اضافہ بھی ہوگیا۔  اس  کے علاوہ یہ شکوہ  بھی ہےکہ قصبات میں یہ اسپتال شہر سے دور پھینک دیئے جاتے ہیں۔  وہاں نہ تو ادویات موجود ہوتی ہیں اورنہ میڈیکل اسٹور اس لیے مریضوں کے رشتے داروں کو شہر آنے جانے کا کرایہ ادا کرنا پڑتا اوراضافی  زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔اہیر جیسے وزراء کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کے پیچھے پڑنے کے بجائے مریضوں کی مشکلات پر توجہ دیں اس لیے  کہ عوام انہیں انا  کی جنگ کے لیے نہیں بلکہ  اپنی فلاح و بہبود کی خاطر منتخب کرتے ہیں۔

عصر حاضر میں سیاستداں انتخاب سے قبل تو بڑی انکساری کے ساتھ عوام کے سامنے ہاتھ جوڑ کر آتے ہیں۔  مختلف قسمیں اور وعدے کرکے  چلےجاتے ہیں لیکن کامیابی کے بعد انہیں یکسر بھلا دیا جاتاہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں  جس عوام کو قادر مطلق سمجھا جاتا ہے  وہ ان مطلق العنان  وزراء کے آگے مجبور محض ہوتے ہیں۔  اس نظام  باطل میں کائنات ہستی کے حقیقی خالق و مالک کے سامنے جوابدہی کا سرے سے ادراک و احساس ہی نہیں ہے  ورنہ  ہنس راج اہیر اس  ڈھٹائی سے  انڈین ایکسپریس کے سامنے  اپنی مدافعت نہ کرتے کہ ’’ انتظار کرو میں جلد ہی ٹویٹ کرنے والا ہوں ‘‘۔  اہیر نے بڑی  لاپرواہی سے  بعد میں ایک رسمی  بیان جاری کردیا کہ میری بات کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ ہنس راج اہیر دراصل  جمہوریت کی نقاب کشائی  کے لیے مبارکباد کے مستحق  ہیں۔  ان کی جگہ اگر مہابھارت کا دھرت راشٹر ہوتا تو اس کا بھی وہی رویہ ہوتا جو وزیر موصوف نے اختیار کیا ہے۔ دھرت راشٹر تو بیچارہ نابینا تھا مگر مسئلہ  ان لوگوں کا ہے کہ جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان  کوآئے دن پیش آنے والے ایسے چشم کشا واقعات کے باوجود جمہوریت  کا چنگیز سے تاریک  ترچہرہ روشن نظر آتا ہے۔  ہنس راج اہیر کا بیان علامہ اقبال کے شعرکا حقیقی ترجمان ہے؎

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب  کا جمہوری نظام؟

چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔