گجرات فسادات: بندوق والا کے مضمون پرآنند جاوید کا تبصرہ

گجرات فسادات 2002 کا مسئلہ کا حل امن اورانصاف سے جڑاہواہے
 محض معافی تلافی مسئلہ کاحل نہیں!

27؍مئی کے انڈین ایکسپریس میں پروفیسر جے ایس بندوق والا کاگجرات کے فسادات 2002 اورآج کے حالات پرتبصرہ شائع ہوا تھا۔ موصوف نے گجرات کے ماحول کودہشت کاماحول بتاتے ہوئے کہاتھاکہ بہترہے کہ فسادیوں اورقاتلوں کے جرم اورگناہ کومعاف کردیاجائے۔ انہوں نے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ’’ میری ایک بیٹی نے میری اجازت سے ایک گجراتی ہندولڑکے سے شادی کی۔ اب دونوں خوش وخرم زندگی گزارتے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے بہت خوش ہیں۔‘‘ پھرانھوں نے کہاکیاآرایس ایس والے بھی  ایساکرنا پسند کریں گے ؟
راقم کاتبصرہ بندوق والا کے مضمون پراخباروں میں شائع ہواہے ۔ آج (مورخہ 31؍مئی )کے انڈین ایکسپریس میں درج ذیل سرخی کے ساتھ آنندجاویدکامضمون شائع ہواہے ۔
Fear or Forgiveness (خوف یامعافی)
Bandukwala dithers but for many 2002 survivors, the issue is: No justice no peace
بندوق والامتذبذب ہے مگربیشتر 2002کے پسماندگان کے لیے مسئلہ  یہ ہے: انصاف نہیں توامن نہیں
انندجاویداپنے مضمون میں رقمطرازہیں :
جے ایس بندوق والا کے مضمون (مئی 28) میں دل کی پکارہے ۔ مسلمان اورآر ایس ایس والے ایک دوسرے سے نفرت کرکے زندہ نہیں رہ سکتے ،انہوں نے وکالت کی ہے ۔ یہ جذبات انتہائی قابل قدرہیں،لیکن ہمدردی اورمحبت سے لبریزدل کااظہارسے فریقین کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں۔ خاص طورپرمیرے اچھے دوست جب وقتاًفوقتاًاپنے موقف میں تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔ انہیں نہ مسلمانوں سے کوئی ملاجوان کے موقف کی تائیدوحمایت کے لئے اُٹھ کھڑاہوااورنہ ہی آرایس ایس کے اندرکے کسی شخص نے ان کے اس پیش کش کوقبول کیاہوجووہ وقتاًفوقتاًتغیروتبدیلیوں کے ساتھ موصوف پیش کرتے رہتے ہیں۔
ستمبر2004ء میں موصوف نے ایک مشہورقومی روزنامہ اخبارکوانٹرویودیتے ہوئے کہاتھاکہ گجرات کے ہندوصرف افسوس کااظہارکردیں توہم لوگ انہیں معاف کرنے کے لئے تیارہیں، اس سے پھردلوں کاملاپ شروع ہوجائے گا۔
پروفیسرصاحب نے 2007ء میں کہاکہ معافی یامعذرت کی بات بیکارہے ۔ مسلمانوں کو2002ء کے فسادیوں اوربلوائیوں کومعاف کردیناچاہئے ۔‘‘ ان کے اس تبصرہ کے ردعمل میں بعض نے کہاکہ بندوق والے نے اعتراف شکست کااظہارکیاہے ۔ بعض نے سخت تنقیدکی ہے کہ اس سے ان پسماندگان کی دل شکنی اورحوصلہ شکنی ہوگی جومصائب اورمشکلات کے باوجوداپنے مقتول بھائیوں اوربہنوں کے واسطے انصاف کے لئے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
2011ء میں بندوق والا نے ایک نئی حکمت عملی شروع کی ، مولانادستانوی سے ملاقات کی ۔ ان کواپنے موقف کی تائیدکے لئے راضی کرلیا۔ کچھ دنوں کے بعدوہ دارالعلوم کے مہتمم ہوگئے ۔ انھوں نے جوش اورجذبہ میں آکربیان دے دیاکہ مسلمانوں کوفسادیوں اورقاتلوں کومعاف کردیناچاہئے ، ان کے جرم اورگناہوں سے درگزرکرناہی بہترہے جب ہی ایک خوش گواراوربھائی چارہ کاماحول پیداہوگا۔‘‘ اس بیان کابہت چرچاہواکیونکہ ایک بڑے مدرسہ کے ریکٹرکابیان تھامگران کے خلاف خود ان کے اندرکے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے اورانہیں مستعفی کرنے پرمجبورکردیا۔دستانوی صاحب کے بیان سے انہیں نہ خداہی ملانہ وصال صنم ، نہ ادھرکے رہے نہ اُدھرکے۔آرایس ایس والوں نے ان کی پیٹھ ضرورتھپتھپائی مگراس واواہی کے سواانہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ بندوق والا اپنی بندوق چھوڑنے سے بازنہیںآئے ، انھوں نے بیان دیاکہ ’’مسلمان پریشان حال ہیں ہم لوگوں کوچاہئے کہ 2002ء کے فسادات کے باب کوبندکردیں اورمودی کاخیرمقدم کریں۔‘‘ معاملہ یہ ہے کہ جوہزاروں غریب عورتوں اورمردوں کے ساتھ معاملہ پیش آیا ٗ کیاعدل وانصاف کے بغیرمعافی کے ایک معمولی لفظ کے اظہارسے کیایہ ممکن ہوسکتاہے کہ آئندہ ظالم اپنی حرکتوں سے بازآجائیں گے ۔‘‘ اب 2016ء میں مودی کے دوسال پورے ہونے پربندوق ولے نے پھرپینترابدلااورفرمارہے ہیں کہ ’’بی جے پی ملک میں مرکزی حیثیت اختیارکرچکی ہے اورمسلمان دہشت اورخوف کے عالم میں زندگی گزاررہے ہیں اس لئے یہ اچھاوقت ہے کہ معافی تلافی کی بات کی جائے اورمعافی کے لئے کوئی شرط نہ پیش کی جائے۔‘‘
مسٹرانندجاویدلکھتے ہیں کہ ’’اب موصوف معافی اورمعذرت کے الفاظ کے اظہارسے بھی پیچھے ہٹ گئے لیکن انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ 2002ء کے پسماندگان کاایشوخوف ودہشت اورمعافی اورمعذرت نہیں ہے بلکہ معاملہ امن اورانصاف کاہے ، کیاانصاف کے بغیربھی امن قائم ہوسکتاہے ؟مثال کے طورپرگلبرگہ کلونی کی ذکیہ جعفری اورروپن مودی دونوں 2002ء کے فسادات کے پسماندگان ہیں اوران کی طرح ہزاروں لوگ ہیں جن کے عزیزرشتہ دارجان بحق ہوئے اوراربوں کی جائیدادیں تباہ وبربادہوئیں۔ ان لوگوں کاشکرگزارہوناچاہئے جولوگ پسماندگان کے حق میں بغیرکسی خوف وخطرکے دہشت گردوں اورقاتلوں سے نبردآزماہیں، قانون کی جنگ لڑرہے ہیں، روپئے پیسے خرچ کررہے ہیں، خاص طورسے سٹیزن فارجسٹس اینڈیپس جس میں مضمون نگار(انندجاوید اوران کی طرح سیکڑوں لوگ شامل ہیں) اوردیگرسماجی ادارے جواس کام میں پیش پیش ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے 126افراد عمرقیدکی سزابھگت رہے ہیں ، اسی قانونی لڑائی کے نتیجہ میں ۔2؍جون کومتوقع ہے کہ گلبرگہ کے مقدمہ کافیصلہ بھی آجائے ۔
محترمہ ذکیہ جعفری نے اپنے ہائی کورٹ کے رٹ پٹیشن میں اپنے شوہراوردیگرلوگوں کے قاتلوں اورماردھاڑکرنے والوں میں بڑے بڑے سیاست دانوں کاہاتھ بتایاجس میں وزیراعظم صاحب بھی شامل ہیں۔
آخرمیں انندجاویدنے بہت ہی قیمتی اوردل لگتی بات لکھی ہے کہ ’’ہندوستان میں جمہوریت کی تحفظ اوربقامسلمانوں یاآرایس ایس کے باہمی محبت اورنفرت پرمنحصرنہیں ہے ۔ یہ اچھی طرح سے سمجھ لیناچاہئے کہ مسلمان توسنگھ پریوارکے لئے نرم چارہ ہیں ان کی اصل دشمنی ملک کے جمہوری سیکولراوردستوری نظام سے ہے جسے وہ ختم کرنے کے درپے ہیں۔ان کے گرواوربزرگان نے ہٹلراورمسولینی کے دل ودماغ سے کام کیاہے اوراپنے شاگردوں کوہٹلراورمسولینی کے کلمہ کوپڑھایالکھایاہے ، ان کالٹریچرزہرآلودہے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک وقوم کے لئے بھی ،وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی سطح پرایک مضبوط قسم کے ڈکٹیٹرکوبیٹھادیں جوملک اپنی مرضی اورمنشاسے چلائے جس میں قانون اوردستورکی بات نہ ہوبلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون نافذہواورپھروہ جوچاہیں کریں۔‘‘ایک حدتہ وہ کامیاب ہیں۔انندجاویدنے اپنے تبصرہ میں حقیقت بیانی سے کام لیاہے ۔
اللہ کی کتاب میں اس حقیقت کااعلان اوربیان ہے کہ ’’ایک کاقال سب کاقاتل ایک محافظ سب کامحافظ‘‘ (سورہ المائدہ 32)
مزیدتبصرہ :
تلمودجسے یہودی اپناآسمانی کتاب تسلیم کرتے ہیں اس میں بھی یہ بیان اب بھی ملتاہے ’’جس نے اسرائیل کی ایک جان کوہلاک کیاکتاب اللہ کی نگاہ میں اس نے ساری دنیاکوہلاک کی اورجس نے اسرائیل کی ایک جان کومحفوظ رکھاکتاب اللہ کے نزدیک اس نے گویاساری دنیاکی حفاظت کی ۔‘‘ اس طرح تلمودمیں یہ بھی بیان ہے کہ قتل کے مقدمات میں ہی اسرائیل کے قاضی گواہوں کوخطاب کرتے ہوئے کہاکرتے تھے ’’جوشخص ایک انسان کی جان ہلاک کرتاہے وہ ایسی باز پرس کامستحق ہے کہ گویااس نے دنیابھرکے انسانوں کوقتل کیاہے۔‘‘
حقیقت تویہ ہے کہ دنیامیں نوع انسانی کی زندگی کی بقاپرمنحصرہے اس پریہ کہ ہرانسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کااحترام موجودہواورہرایک دوسرے کی زندگی کے بقااورتحفظ میں مددگاربننے کاجذبہ رکھتاہوجوشخص ناحق کسی کی جان لیتاہے وہ صرف ایک ہی فردپرظلم نہیں کرتابلکہ یہ ثابت کرتاہے کہ اس کادل حیات انسانی کے احترام سے اورہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے لہٰذاوہ پوری انسانیت کادشمن ہے کیونکہ اس کے اندروہ صفت پائی جاتی ہے جواگرتمام افرادانسانی میں پائی جائے توپوری نوع انسانی کاخاتمہ ہوجائے ۔ اس کے برعکس جوشخص انسان کی زندگی کے قیام میں مددکرتاہے وہ درحقیقت انسانیت کاحامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پرانسانیت کے بقاکاانحصارہے ۔
عام طورپریہ دیکھاجاتاہے کہ جب کسی کابیٹاناحق قتل کردیاجاتاہے یاکسی کی بیٹی ناحق موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہے تواس کے ورثاء یالواحقین کی سب سے بڑی تمناہوتی ہے کہ انہیں انصاف ملے اس کے لئے اس کے متعلقین سب کچھ برداشت کرنے کے لئے تیارہوجاتے ہیں، یہی حال گجرات کے فسادات میں جوہلاک ہوئے ہیںیاجلادیئے گئے ہیں ان کے لواحقین کی بھی ایسی تمنااورخواہش ہوگی ۔ بندوق والا کااگرکوئی ماراگیاہے یاقتل کیاگیاہے توان کوحق ہے کہ وہ اپنے عزیزیارشتہ دارکے قاتل کومعاف کردیں مگران کویہ حق نہیں ہے کہ مسلمانوں یامقتول کے تمام ورثاء سے بلاوجہ جب چاہیں معاف کرنے یادرگزرکرنے کی بات کریں، میرے خیال سے ان کی بدلتی روشوں سے ثابت ہوتاہے کہ وہ سستی شہرت کے طلبگارہیں انصاف کے علمبردارنہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔