طلاق کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں ؟اسباب وحل!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

اسلام نے رشتوں کو جوڑنے کی تعلیم دی ہے ،ترک ِ تعلق اور دوریاں اسلام میں ناپسندیدہ ہے ،نکاح کا رشتہ ایسا پاکیزہ رشتہ ہے جس کے ذریعہ دوافراد میں اور دو خاندانوں میں ایک تعلق پیدا ہوتا ہے ،اس کے ذریعہ گھرآباد ہوتے ہیں ،محبت کے تعلقات قائم ہوتے ہیں ،اور یہ خدا وندعالم کا ایک حکیمانہ نظام ہے ۔قرآن کریم میں رشتۂ ازواج اور نکاح کے مقصد کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:ومن اٰیتٰہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ،ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون۔( الروم :21)’’اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میںسے بیویاں پیدا کیں،تاکہ تم ان کے پاس جاکرسکون حاصل کرو،اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دئیے ،یقینا اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔‘‘نکاح کرنا جہاں دین کو مکمل کرنے کاذریعہ ہے اور ایک عظیم سنت پر عمل پیرا ہونا ہے وہیں نکاح کے ذریعہ جسمانی تسکین رکھی ہے اور انسان کو راحت وسکون حاصل ہوتا ہے ،وہ تھکا ہار اگھرپہنچے تو اس کے لئے سامان ِ راحت کا انتظام کرنے والی اور اس کے الجھنوں دورکرنے والی بیوی موجود ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے لئے بڑی راحت محسوس کرتا ہے ۔رشتہ نکاح اس وقت مضبوط اور تقویت پاتا ہے جب دونوں اپنے حقوق کواداکرنے والے ہوں اور شوہر بیوی کسی بھی طرح ادائیگی حقوق میں لاپرواہی نہ کرنے والے ہوں ،جہاں حقو ق کے اداکرنے کے سلسلہ میں کوتا ہی شروع ہوتی ہے وہاں تعلقات اور رشتوں میں نااتفاقی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔اس لئے اسلام نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے سلسلہ میں مستقل اور باضابطہ تعلیمات اور ہدایات دی ہیں۔چناں چہ ارشاد ہے:وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا۔( النساء :19)’’اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو،اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تویہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘اسی طرح حکم حدیث میں بھی دیا گیا کہ اگر شوہر کو بیوی کی کوئی عادت پسند نہ ہو تو ہو اس کی دوسری اچھی عادتوں کو یاد رکھے کسی ایک کی بنیاد پر اس کے ساتھ غلط سلوک اور ناروا برتاؤ نہ کرے ،چناں ارشاد ہے:لایفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا اٰخر۔( مسلم : حدیث نمبر؛2680) ’’کوئی بھی مومن مرد کسی مومن عورت سے علاحدگی اختیار نہ کرے ،اگر وہ اس کی کوئی ایک عادت ناپسند کرتا ہے تو اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی کرتا ہے۔‘‘اسلا م نے نکاح کے رشتہ کو اس عظمت سے دیکھا ہے اور جہاں تک ہوسکے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گوار ش زندگی گزارنے کی بھر پورتعلیمات دی ہے ،ان دونوں کی خوش گوار زندگی پر پورے خاندان کی خوش گواری منحصر ہے ،اگران دونوں میں دراڑ اور تعلقات میں عدم ِ اتفاق آجائے تو پھر گھرپورا اجڑ جاتا ہے ،اس لئے نکاح کا رشتہ بڑا حساس اور نزاکت والا ہے ،جہاں قدم قدم ایک دوسری کی رعایت کرنا ضروری ہے ،ورنہ معمولی کوتاہی اور غفلت کے نتیجہ میں قیامت برپا ہوجاتی ہے اور گلشن ِ حیات جہنم کدہ بن جاتا ہے۔
اگر شوہر بیوی میں نبھاؤ ممکن نہ ہو تو طلاق کا اختیار اسلام نے د یا ہے لیکن اس طلاق کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کے نقصانات کا ادراک کرنا ضروری ہے ،طلاق کس صورت میں دینے کی شریعت نے اجازت دی ہے اور طلاق تک پہنچانے والے اسباب کے سدِ باب کے لئے کیا کیا تعلیمات دی ہے ان کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے ،کیوں کہ آج اس معاملہ میں لاپرواہی اور ناواقفیت کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں پر طلاق دینا رواج بن چکا ہے ،اور بہانے بناکر خلع کا مطالبہ کرنے کی عادت ہوگئی ،مرد اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے لگا اور عورت آزاد خیالی میں مبتلا ہوکر باتوں باتوں پر علاحدگی پر آمادہ ہونے تیا ر ہے ،اس صورت حال میں جہاں ہمیں اس نظام ِ شریعت کو سمجھنا چاہیے وہیں اس کی تعلیم و تربیت کا منظم انتظام بھی کرنا چاہیے،تاکہ بے دینی کا خاتمہ ہو اور گھر اجرنے سے بچے ،رشتہ ٹوٹنے سے محفوظ رہے۔
طلاق کی حقیقت:
طلاق کی حقیقت اسلام میں یہ ہے کہ بدرجہ ٔ مجبوری ناگزیر صورت حال میں استعمال کرنے کی اجازت ہے ،مگر اس کے لئے کچھ ضابطہ اور دستور ہے جن کی رعایت کے ساتھ عمل کرنے میں ہی بھلا ئی اور خیر ہے ۔باقی اللہ تعالی کو حلا ل چیزوں میں سب سے زیادہ طلاق ناپسند ہے۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:ابغض الحلال الی اللہ تعالی الطلاق۔( ابوداؤد:1866)’’اللہ تعالی نے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ طلاق ہے۔‘‘ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی مناسب وجہ کے طلاق مانگتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوجاتی ہے۔( ابوداؤد:1902)ایک حدیث میں فرمایا: بلاشبہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی کسی عورت سے شادی کرے ،پھر جب اس سے اپنی حاجت پور ی کرلے تو اسے طلاق دے دے ،اور اس کا مہر ہڑپ کرجائے۔(بیہقی:13330)طلاق کے معاملہ میں اس درجہ نزاکت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ثلث جدھن جدو ھزلھن جدالنکاح والطلاق والرجعۃ۔(ترمذی:1100)’’کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر سنجیدگی سے کہاجائے تو بھی واقع ہوجاتی ہیں اور مذاق میں کہا جائے تو بھی ،نکاح ،طلاق اور رجعت۔‘‘اسلام کی نظر میں طلاق کی یہ حقیقت ہے ،دراصل اس کی قباحت کو بیان کرکے اس کے غیر ضروری ارتکاب سے امت کو روکا گیا تاکہ کو ئی اس معاملہ میں غیر محتاط نہ رہے اور نہایت پھونک پھونک کر قدم اٹھائے ،ورنہ اس کی وجہ سے پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
مصالحت کی کوشش کی جائے:
انسانی زندگی میں مختلف نشیب وفراز آتے ہیں ،ازدواجی زندگی میں کبھی تلخیاں تو کبھی نااتفاقیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ، لیکن معمولی چیزوں کو بہانہ بناکر طلاق تک پہنچ جانا مناسب نہیں ہے ،بلکہ اس کے لئے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ پہلے مرد وعورت خود اپنی مصالحت کی کوشش کریں اوردوریوں و نااتفاقیوں کو ختم کرنے کی فکر کریں ،ہمدردی کے ساتھ ایک دوسری کی غلطیوں کو معاف کریں ،لیکن اگر دونوں سے بھی صلح ممکن ہوتی نظر نہیں آرہی ہو تو قرآن کریم میں حکم دیا گیاکہ:وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ وحکمامن اھلہا ان یر یدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما۔( النساء :35)’’ا ور اگرتمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو( ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو ،اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔‘‘یہ قرآن کریم کا کتنا حکیمانہ اسلوب ہے جس میں مصالحت کی تلقین فرمائی گئی او ر اس پر اللہ تعالی کی مدد کا بھی اعلان کیا گیا۔
طلاق کی نوبت اور طریقہ:
صلح کی تمام تر کوششوں کے باوجود اگر کوئی تصفیہ نہ ہوسکے اور میاں بیوی ضد و ہٹ دھرمی پر اتر آئیں تو اس صورت میں طلاق کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،اور طلا ق دونوں ثالثوں کی سفارش سے ہوتو زیادہ بہتر ہے ،مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کو یہ یقین ہو جائے کہ میاں بیوی کو جدا کردینا ( طلاق دینا)ہی ان کے حق میں مناسب ہوگا ،گویا کہ اب وہ دونوں مل جل کر زندگی گزارنے پر کسی طرح بھی راضی نہیں ہوسکتے۔مگر اس صورت میں بیک وقت تین طلاق دینا جائز نہیں ہے ،بلکہ عورت کو صرف ایک طلاق دینی چاہیے ،کیوں کہ اس کے بعد مرد کو عورت کی عدت کے اندر ایسی طلاق واپس لینے کا اختیار باقی رہتا ہے ،مگر تین طلا ق دینے کی صورت میں یہ اختیار ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ( اسلام کا قانونِ طلاق:29)
طلاق کے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں؟
اوپر نکاح کی اہمیت اور طلاق کی قباحت سے متعلق چند باتیں پیش کی گئی ہیں جس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اسلام میں نکاح کا مقصود کیا ہے اور طلاق کی خطرناکی کس درجہ ہے،لیکن ہمارے معاشرہ میں جو آئے دن طلاق کے واقعات سننے کو ملتے ہیں،طلاق اس وقت ہمارے معاشرہ کا ناسور بنتے جارہا ہے ،چھوٹی موٹی باتوں پر تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا ،معمولی بات پر علحدگی کا فیصلہ بغیر سوچے اور سمجھے کیاجارہاہے ،شوہر باہر کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے اور سنی سنائی باتوں پر بعض اوقات جلد بازی میں طلاق کہہ دیتا ہے ،غصہ میں تھا کسی کام کے نہ ہونے پر اور وہ غصہ بے چاری بیوی پر طلاق کی صورت مین نکال دیا ،اس طرح آئے دن طلاق کے واقعات رونماں ہورہے ہیں اور نئے نئے شادی شدہ جوڑے بمشکل چند ماہ بھی نہیں گزرے کہ طلا ق یا خلع پر تیار ہوجارہے ہیں ،ہمیں اس کے اسباب پر غور کرنا چاہیے تاکہ ان کا سدِ باب کیا جاسکے،شریعت ِ اسلامی کو مذاق بننے اور ازدواجی زندگی کو منتشر ہونے سے بچانے کے ان وجوہات کو دیکھنا چاہیے جس کی وجہ سے یہ نوبت آرہی ہے۔چناں چہ اس کے اسباب میںسے بنیادی سبب یہ بھی ہے ہمارا معاشرہ اس سلسلہ میں دینی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہے ،نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اس رشتہ کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہے ،اور رشتہ ٔ ازدواج کو کھیل سمجھ لیا گیا ہے ،کتنی فکروں اور کوششوں کے بعد ایک خاندان کو بسایا جاتا ہے اور کس قدر محنت و جستجو کے بعد گھر آباد کیا جاتا ہے اس کا یکسر خیال ہی نہیں ہے ،بس تھوڑی سی بات پر دھڑلے سے طلاق کو استعمال کرنا جواں مردی سمجھی جارہی ہے ،اور بعض مرد تو عورتوں کو ڈرا دھمکا کر رکھنے کے لئے گاہے گاہے طلاق کے نام سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔کبھی غلطی شوہر کی زیادہ ہوتی ہے اور وہ بے قابو ہوکر طلاق دیتا ہے ،کبھی غلطی سسرال والوں کی ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی بہو کے خلاف بیٹے کو ورغلاکر بدظن کراتے ہیں اور نتیجہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے ،کبھی غلطی لڑکی کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں لاپرواہی کرتی ہے ،اور شوہر سے غیر ضروری مطالبات اور تقاضے کرتی ہیں اور حقوق وفرائض کے سلسلہ میں غفلت کرتی ہے ،کبھی غلطی میکہ والوں کی ہوتی ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم اور تربیت دینے کے بجائے شوہر اور سسرال کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ سسرال میں دل جیتنے اور محبت کا برتاؤ کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے جس سے لڑائی جھگڑے ہوتے ہوتے اور آخر کار طلاق کا فیصلہ کیا جاتا ہے ،کبھی طلاق مرد کی وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ وہ عورت کو مسلسل ظلم کی چکی میں پیستے رہتا ہے اور خود حقوق ادانہیں کرتا اور بیوی سے پرزور حقوق کا تقاضا کرتا ہے ۔کچھ باہر کے بھی بدخواہ ہوتے ہیں جو معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور نفرتوں کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ ہم نے خلاصہ کے طور پرا ن اسباب کو اجمالا ذکر کردیا ہے ۔
اس کا حل کیا ہے؟
اس سلسلہ میں پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ نوجوانوں میں اس تعلق سے شعور بیدا ر کیا جائے ،نکاح کی عظمت ،رشتہ کی اہمیت ،ازدواجی زندگی کی قدر ومنزلت سے آگاہ کیا جائے ،حقوق کے سلسلہ میں باخبر کیا جائے ،طلاق کی سنگینی اور خطرناکی بتائی جائے اور اس معاملہ میں شریعت کا کیا اصول اور نظام ہے اس سے واقف کرویا جائے۔تاکہ زندگی کو کھلونا سمجھ کر ضائع نہ کیا جاسکے ،اور ہر دوفریق اپنے حقوق جانتے ہوئے اس کو ادا کرنے والے بنیں۔اسلامی تعلیمات سے دونوں کو آراستہ کیا جائے ،آج ہمارے پاس جوڑے گھوڑے ،اور لین دین کی فکر بڑھ گئی لیکن اچھے اخلاق ،بہترین اوصاف کے حامل لڑکے اور لڑکی کو تلاش کرنے کی فکر ختم ہوگئے ،مال مقصود بن گیا کہ جہاں زیادہ ملنے کا امکان ہو وہاں چلیں جائیں چاہے دینی لحاظ سے اور اخلاقی اعتبارسے کتنی ہی کمیاں کیوں نہ رہیں؟ان تمام کے باوجود اگر طلا ق ناگزیر ہوجائے کسی جائز وجہ سے توبصور تِ مجبوری اسلامی طریقہ ٔ طلاق کو اختیار کیا جائے ،تین طلاق کے استعمال سے مکمل اجتناب کیا جائے تاکہ آئندہ غلطی کے احساس اور قصوروں کے اعتراف پر رجوع کا موقع باقی رہے۔اگر مسلمان اپنی شریعت کو زندگی کے ہر گوشے میں نافذ کریں گے اور ہر موقع پر عمل پیرا ہوں گے تو ان شاء اللہ جن چیزوں کو بہانہ بناکر شریعت ِ اسلامی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسی کوششیں ناکام ہوجائیں گی اور خود مسلمان ایک پرسکون ،راحت بخش اورخوش گوار زندگی گزارپائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔