عالمی یوم اردو صحافت اور اردو کے پہلے اخبار کا تحقیقی جائزہ

مہتاب عالم

 مغربی بنگال کی راجدھانی شہرکلکتہ صحافت کی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے، جہاں سب سے پہلے انگلش، بنگلہ، اردو، فارسی اور ہندی کے اخبارات منظر عام پر آئے۔ سب سے پہلے انگریزی زبان کا 29جنوری 1780میں ”دی بنگال گزٹ“کلکتہ سے شائع ہوا۔ اس کے بعد بنگلہ زبان کا پہلا اخبار ”سماچار درپن “23مئی 1818کو سری را م پور سے منظر عام پر آیا۔ وہیں پوری دنیا میں اردو کاپہلا ہفت روزہ اخبار ” جام جہاں نما“بھی 27مارچ 1822کوہری ہر دت ابنتارا چند دت نے منشی سدا لال کی ادارت میں کلکتہ سے شائع کیا۔ اسی سال 12اپریل 1822کو راجہ رام موہن رائے نے بھی فارسی زبان کا پہلااخبار ”مراة الاخبار“منعسہ شہود پر لایا۔ وہیں جوگل کشور شکلا نے بھی ہندی زبان کا پہلا اخبار ”اودنت مارٹینڈ ‘ کو 30مئی 1826کو شائع کر کے کلکتہ کے زریں باب میں اضافہ کیا۔ یہ تمام اخبارات ہفتہ وار تھے۔ اسلئے شہر کلکتہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پانچ زبانوں کے اخبارات کا پہلا مقام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے صحافت کی دنیا کا امام کہا جا سکتا ہے۔

اردواخبار کے متعلق کچھ غلط فہمیاں ہیں کہ سب سے پہلا اردو اخبار کا درجہ کسے دیا جائے۔ کیونکہ سات اردو کے اخبار ایسے ہیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پہلا اردو اخبار ہے۔ اس میں 1794کو ٹیپو سلطان کے ذریعہ شائع کردہ ”فوجی اخبار“ ہے۔ وہیں 1810کو فورٹ ولیم کے اکرام علی نے ”اردو اخبار“ جاری کیا۔ جبکہ چار اخبار کے متعلق صحیح سن کاپتہ نہیں چلتا مگر دعوے کئے جاتے ہیں۔ ان میں سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کا ”سید الاخبار“ ہے۔ وہیں محمد حسین آزاد کے والد اور پہلے شہید صحافی مولوی باقر کے ذریعہ جاری کردہ ”دہلی اردو اخبار “1857کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس فہرست میں خواجہ یوسف علی کا ”آگرہ اخبار ‘ ‘بھی شامل ہے۔ تو وہیں بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت کے ذریعہ شائع کردہ اخبار ”پیام آزادی“ بھی ہے۔ اب ان سات اخبارات کے متعلق محققین کی رائے کیا ہے۔ اسکے متعلق محمد الیاس ندوی رام پوری نے اردو کا پہلا اخبار کے نام سے ایک مضمون شائع کیا۔ جس میں مختلف ریسرچ اسکالرس کی آرا بھی شامل کیا ہے۔

1794میں ٹیپو سلطان کا فوجی اخبار :سب سے پہلے اس نظریے کو کہ اردو کا پہلا اخبارٹیپو سلطان کا’ فوجی اخبار‘تھا سعید عبد الخالق نے پیش کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’ میسور میں اردو‘ میں اس کی وضاحت کی، جبکہ باقی دیگر تمام لوگ تقریباً انہیں کے نقش قدم پر چلتے چلے گئے۔ دوسری جانب مولانا الیاس ندوی بھٹکلی سیرت ٹیپو سلطان شہید میں اردو کا پہلا اخبار کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1794 میں اپنی شہادت سے پانچ سال قبل جب اس کی سلطنت کا نصف حصہ انگریزوں کے قبضہ میں جا چکا تھا تو وہ اپنی مملکت کی از سر نو تنظیم میں مصروف تھا اس نے اسی دوران ایک دن ایک سرکاری حکم جاری کیا کہ ایک ایسا مطبع قائم کیا جائے جو عربی رسم الخط میں چھپائی کا کام انجام دے سکے۔ جب پریس قائم ہوگیا تو اسی سال وہاں سے اردو میں ’فوجی اخبار‘ کے نام سے سلطان کی ذاتی نگرانی وسرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا گیا۔ بڑی تقطیع میں شائع ہونے والے اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح یہ اخبار عام طور پر سپاہیوں کے لیے ہی تھا۔ اس میں جہاد کے متعلق مضامین اور وطن کے دفاع سے متعلق مختلف لوگوں کی تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ ( ہماری زبان علی گڑھ یکم جولائی1956ءبحوالہ بصائر کراچی )۔

 بعد میں گربچن چندن نے سعید عبد الخالق کی کتاب کا مطالعہ کیا اوراس پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:”80 صفحات کی یہ چھوٹی سی کتاب جس کے مصنف اس کی تصنیف کے وقت حیدرآباد (دکن) میں ایک طالب علم تھے، حقیقتاً کمیاب ہے۔ خاصی تلاش کے بعد مجھے اس کا نسخہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مصنف کا مآخذ بنگلور کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کی اپنے مرحوم دادا کی روایت ہے جس کی تائید میں انہوں نے کوئی مستند شہادت یا دستاویزی حوالہ پیش نہیں کیا بلکہ خود یہ تاثر دیا ہے کہ آج اس اخبار کا کائی شمارہ دستیا ب نہیں ہے، کیونکہ بقول مصنف ”انگریزوں نے 1799ءمیں فتح میسور کے بعد اس کا تمام ریکارڈ تلف کردیا تھا۔ “ (بحوالہ:معصوم مرادابادی، اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857ئ، صفحہ نمبر92، مطبوعہ خبردار پبلی کیشنز، دریا گنج نئی دہلی، )گربچن چند ن نے ’جام جہاں نما‘ صفحہ 28 پر لکھا ہے کہ:” جب تک کسی مصدقہ یا مستند ذرائع سے ٹیپو سلطان کے مبینہ’ فوجی اخبار‘ کی تصدیق نہ ہو، اسے تسلیم کرلینا صداقت کے حق میں نہیں “۔ گربچن چندن نے جب اس آرزو مندانہ خیال کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا تو معلوم ہوا کہ محمد سعید خالق کا نظریہ اپنے دادا جان مرحوم کی سنی سنائی روایت پر قائم ہے(بحوالہ جام جہاں نما، اردو صحافت کی ابتدا، مطبوعہ 1992ئ)

گربچن چندن اور دیگر محققین جیسے عبدالسلام خورشید اور عتیق احمد صدیقی وغیرہ کی تحقیقات کے پیش نظر ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ حتمی رائے قائم کی ہے:”یہ بحث (یعنی کہ اردو کا پہلا اخبار ”دہلی اردو اخبار“ ہے یا ”سید الاخبار“) عبرت ناک مرحلے میں اس وقت داخل ہوگئی جب حیدرآباد دکن کے ایک طالب علم محمد سعید خالق اپنی کتاب ”میسور میں اردو“ (مطبوعہ 1942ئ)میں یہ دور کی کوڑی لائے کہ اردو کا پہلا اخبار دراصل ٹیپو سلطان نے 1747ئ(نوٹ: یہ غالباً کتابت کی غلطی سے 1794ءکے بجائے 1747ءہوگیا ہے، مقالہ نگار؛میم الف نون) میں جاری کیا تھا۔ اس کا نام فوجی اخبار تھا۔ غالباً ٹیپو سلطان سے جذباتی اور تاریخی وابستگی کے سبب یہ نظریہ محققوں میں خاصا مقبول ہوا اور ٹیپو سلطان کو اردو صحافت کا بانی قراردے دیا گیا(ملاحظہ ہوہماری زبان علی گڑھ، یکم جولائی ۷۵۹۱ءشیخ اسماعیل پانی پتی کا مضمون”اردو کا سب سے پہلا اخبار اور ٹیپو سلطان‘ ‘ رسالہ بصائرجنوری، اپریل وجولائی 1964 اور ڈاکٹر محمد صادق کی ”ہسٹری آف اردو لٹریچر“ مطبوعہ 1964)۔

 پچاس کی دہائی میں مرزا صادق اور خواجہ حسین نامی دو بزرگوں نے خواجہ یوسف علی کے ”آگرہ اخبار“ کو اردو کا سب سے قدیم اخبار ثابت کرنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا(دیکھےے معارف، جنوری 1951ءاور مئی 1951ءکے شمارے) فاضل مضمون نگار، خواجہ یوسف علی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ چند سال بعد اردو صحافت کے ایک اورمحقق نادم سیتاپوری نے فورٹ ولیم کالج کے مولوی اکرام علی کے متعلق یہ انوکھا انکشاف کیا کہ موصوف نے1810ءمیں ”اردو اخبار“ جاری کیا تھااور ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کوئی اور اردو اخبار نہیں نکلا تھا(”فورٹ ولیم کالج اوراکرام علی“ مطبوعہ 1959ئ) احرار الحسن نقوی نے بھی اس دعوے کی تائید کی (فروغ اردو، جولائی 1959ئ)نادم سیتاپوری نے اپنے متعدد مضامین میں اپنے بے بنیاد خیال کی تشہیر شروع کردی (مثلا رسالہ العلم، اکتوبر تا دسمبر1971ء) گربچن چندن نے اس کی تحقیق کی تو عقدہ کھلا کہ نادم سیتاپوری نے یہ نظریہ اپنے بزرگوں کی حوصلہ افزائی کےلئے گھڑا تھا کیوں کہ اکرام علی کا وطن سیتاپورتھا(حوالہ متذکرہ ص 22) شکر خدا کا کہ1963ءمیں یہ قضیہ آخر کا ر طے پاگیا“(ڈاکٹر طاہر مسعود، ارد وصحافت انیسویں صدی میں، ص 108، مطبوعہ2009ءایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی6)۔

تاہم معصوم مرادابادی کی رائے یہ ہے کہ : ”گربچن چندن نے ٹیپو سلطان کے ’فوجی اخبار‘ کی اصلیت جاننے کے لیے کافی تگ ودو کی لیکن اس تک ان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ تاہم اس بات کی ضرورت باقی ہے کہ ٹیپو سلطان کو اردو صحافت کا موجد قرار دینے کی جو کوشش کی گئی ہے اس پر مزید تحقیق کی جائے کیوں کہ جہاں تک ’فوجی اخبار‘ کے شماروں کی عدم دستیابی کا سوال ہے تو اس سلسلے میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو چیلنج کرنے والی تمام دستاویزوں اور اخباروں کو تلف کردیا تھا۔ یہی دعویٰ ’فوجی اخبار‘ کے بارے میں بھی کیا گیا ہے اس ’فوجی اخبار‘ کے کسی شمارے کا دستیاب نہ ہونا اس کے عدم اجراءکا ثبوت نہیں ہے۔ شمیم طارق کا کہنا ہے کہ انہوں نے شری رنگا پٹنم میں ایک صاحب کے پاس اس کے شمارے دیکھے تھے۔ شمیم طارق کے مطابق اس پر تو بحث ہوسکتی ہے کہ ’فوجی اخبار‘ مکمل تھا یا نہیں کیوں کہ اس میں فوجیوں کے لےے ہدایات ہوتی تھیں مگر اسکا وجود تو تھا۔ ہم یہاں خصوصی طور پر مرزا بیدار بخت کے اخبار ’پیام آزادی‘ کا ذکر کرنا چاہیں گے جس کی تفصیلا ت اس کتاب میں آگے چل کر آئیں گی کیوں کہ آج دنیا میں اس کا کوئی ایک شمارہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ “ (معصوم مرادابادی، اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857، ص 93مطبوعہ2008، خبردار پبلیکیشن، موتی محل اسٹریٹ، دریا گنج، نئی دہلی2)۔ معصوم مراد آبادی کا یہ استدلال کہ ”فوجی اخبار“ کے کسی شمارے کا دستیاب نہ ہونا اس کے عدم اجراءکی دلیل نہیں بڑی حد تک درست معلوم ہوتاہے کیونکہ یہ دلیل تو دوسرے اخبارات کے بارے میں بھی دی جاسکتی ہے اور ان کے وجود کا انکار بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ”پیام آزادی“ اور” سید الاخبار“ کہ ان دونوں اخباروں کی بھی کوئی فائل کہیں دستیاب نہیں تاہم ان کا وجود ثابت کیا جاتاہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے” سید الاخبار“ کے بارے میں لکھاہے :”یہ شمالی ہند کادوسرا اردو اخبار ہے۔ اسے سرسید احمدخاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں نے جاری کیا تھا۔ اس اخبار کے شمارے بدقسمتی سے دست برد زمانہ سے تلف ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس کے بارے میں تفصیلی معلومات کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ سال اجراءکے بارے میں بھی کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے ‘ ‘(ڈاکٹر طاہر مسعود، اردو صحافت انیسویں صدی میں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاﺅس، دہلی، 2009ص 202)۔

تحقیق کے میدان میں مشکل ہی سے کسی تحقیق کو حرف آخر مانا جاتاہے۔ یہ تو ایک ناپیدا کنار سمندر ہے جس کی تہہ سے ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ نیا نکلتا ہی رہتاہے۔ بہر حال جب تک ’فوجی اخبار‘سے متعلق ٹھوس شواہد نہیں مل جاتے، اس کا کوئی شمارہ دستیاب نہیں ہوجاتا یا اس وقت کے معاصر انگریزی اخبارات میں سے کسی میں ”فوجی اخبار“ سے متعلق اس طرح کی کوئی شہادت نہیں ملتی جس طرح کی شہادتیں سرسید کے بڑے بھائی سید محمد خاں کے اخبار”سید الاخبار“ اوربہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت کے اخبار ”پیام آزادی“سے متعلق ملتی ہیں تب تک جام جہاں نما ہی کو اولیت کا مقام حاصل رہے گا۔ تقریبا ایک صدی کی طویل بحث وتمحیص اور تلاش وجستجو کے بعد یہ ثابت ہوا کہ 27مارچ 1822ءکو ”جام جہاں نماں “منظر عام پر آیا اور اس وقت تک پورے ملک میں کوئی بھی اردو اخبار موجود نہیں تھا۔ ”جام جہاں “ نما نے خاصی لمبی عمر پائی۔ یہ 1876ءتک کم وبیش پچپن سال جاری رہا۔ اس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ لعل تھے جو مرزا پور کے رہنے والے تھے او ناشر کلکتہ کی ایک انگریز ی تجارتی کوٹھی وسیم پیٹرس ہاپ کنس اینڈ کمپنی تھی۔ یہ اردو کا پہلا باقاعدہ اخبار تھا، اس کے اجراءسے اردو کے نثری اور شعری ادب کے فروغ کے دروازے کھل گےے اور جرات مندانہ دیسی صحافت کی داغ بیل پڑی“۔

ہندوستانی صحافت کے قائدانہ رول اور رہنمایانہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر گیان چندن جین لکھتے ہیں :”جامِ جہاں نماہماری دیسی صحافت کی وہ اولین دستاویز ہے جس میں آج کے اخبار کی شکل اور تقطیع، اور صحافت کی نثر، خبروں کی تحریر، کالموں کی ترتیب، سرورق کے مشمولات اور رائے زنی کے انداز کی پوپھٹی۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جاری ہونے والے اردو کے بیشتر اخبابر اسی کے نقوش پر چلے “۔ (گربچن چندن، اردو صحافت کا سفر، ص76، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاﺅس، دہلی 6 )۔

ذہن نشیں رہے کہ ”بنگال اردو جرنلسٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن “گزشتہ آٹھ برسوں سے 27مارچ کو ہر سال عالمی یوم اردو صحافت کی تقریب مناتا آرہاہے جہاں صحافتی خدمات انجام دینے والے افراد کو گرانقدر اردو خدمات کا عتراف کرتے ہوئے انکی حوصلہ افزائی کےلئے جام جہاں نما، ہری ہر دت، سدا سکھ لال، صحافیوں کے تنظیم کے پہلے بانی شانتی رنجن بھٹاچاریہ ایوارڈ سے نواز اجاتا ہے۔ امسال بھی واجد علی شاہ کی نگری مٹیا برج کے مولانا محمد علی جوہر گرلس ہائی اسکول میں شام کو پروگرا م ترتیب دیاہے۔ جہاں اہل اردو سے شرکت کی اپیل کی گئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔