علم وتحقیق کا کوہِ گراں: مولانا سید مناظر احسن گیلانی

شاہ اجمل فاروق ندوی

مولانا سید مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲۔ ۱۹۵۶) بیسویں صدی کی اُن نابغۂ روزگار ہستیوں میں تھے، جنھیں اللہ تعالیٰ قوموں کی ذہنی ساخت تبدیل کرنے کے لیے پیدا فرماتا ہے۔ وہ عجیب وغریب ذہن لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ایسا ذہن جو قدیمِ صالح اور جدیدِ نافع کا حسین سنگم ہو۔ جس میں قدیم علوم کی عظمت ورفعت بھی راسخ ہو اور جدید علوم کی ضرورت وافادیت بھی۔ جو قدیم مآخذ کی روشنی میں نئے مسائل کو حل کرنا بھی جانتا ہو اور نئے مسائل کے حل کے لیے اجتھاد کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جو شخصیات اِس ذہنِ رسا کی حامل ہوئیں ، اُن میں ایک ممتاز نام مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا بھی ہے۔

سوانحی خاکہ

مولانا مناظر احسن گیلانی یکم اکتوبر 1892، بہ مطابق 9؍ ربیع الاول 1310ھ کو پٹنہ سے تقریباً 100؍ کیلو میٹر دور ضلع نالندہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں گیلانی میں پیدا ہوئے تھے۔ گھر پر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مدرسہ خلیلیہ ٹونک، راجستھان میں داخل ہوئے، جہاں انھوں نے 1906 اور 1913 کے درمیان منطق، فقہ، ادب، فلکیات اور ریاضی کا علم حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ وہاں انھیں نے اپنے زمانے کے بہترین علماء سے استفادے کا موقع ملا، جن میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، امام العصر علامہ سید محمدانور شاہ کشمیری اورشیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے 1914بہ مطابق 1332ھ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وہیں مقیم رہے۔ شیخ الہند کی خصوصی ہدایت پر دارالعلوم سے نکلنے والے رسالے القاسم کے لیے لکھنا شروع کیا۔ القاسم اور الرشید کی ادارت میں شریک رہے۔ اس دوران ان کی دو کتابوں سوانح ابوذر غفاری اور کائنات روحانی نے علمی دنیا میں ان کا خوب صورت نقشِ اول قائم کر دیا تھا۔

علمی مقام

مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی ابتدائی کتاب سوانح ابوذرغفاری دیکھنے کے بعد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جیسی محتاط شخصیت نے فرمایا تھا:

’’مقالہ نگار سے ذاتی طور پر میں واقف نہیں ہوں، لیکن اس مضمون کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ محقق نہیں ہو چکے ہیں، تو محققیتِ متوقعہ کی دلیل اُن کا مضمون ضرور ہے۔ ‘‘

ہوا بھی ایسا ہی۔ آگے چل کر مولانا گیلانی کے قلم سے ایسے متعدد مقالات، رسائل اور تصانیف سامنے آئے، جنھوں نے برّصغیر کی پوری علمی دنیا کو فیض یاب بھی کیا اور متأثر بھی۔ چناں چہ بیسویں صدی کے نصف آخر کی سب سے بڑی اسلامی شخصیت مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی لکھتے ہیں :

’’بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ وسعت نظر، وسعت مطالعہ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں ان کی نظیر اس وقت کے ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل ہے۔ تصنیف اور تالیف کے لحاظ سے وہ عصر حاضر کے عظیم مصنّفین میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کیا ہے، وہ بیسیوں آدمیوں کو مصنف اور محقق بنا سکتا ہے۔ اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیا ہے ، جو یورپ میں پورے پورے ادارے اور منظم جماعتیں کرتی ہیں۔ ان جیسا آدمی برسوں میں پیدا ہواتھا اور شاید برسوں میں بھی پیدا نہ ہو۔ ‘‘

عمر کے لحاظ سے مولانا گیلانی کے ایک بڑے اور ایک چھوٹے کی یہ دو گواہیاں اُن کے علمی وتحقیقی مقام اور اُن کے کام کی اثرانگیزی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بیرونی گواہیوں سے کہیں بڑی گواہی خود مولانا کی وہ تحقیقات اور علمی نوادر ہیں ، جنھیں وہ پوری زندگی دنیائے علم کی نذر کرتے رہے۔

تحقیقی شان

مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے علوم قرآن، علوم حدیث، سیرت، سوانح، تعلیم، تاریخ، معاشیات اور بعض دیگر موضوعات کو اپنا موضوع بنایا۔ ان میں سے بھی اسلامی علوم اُن کی تحقیقات کا خصوصی مرکز رہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر لکھا، بے تکان لکھا اور اتنا لکھا کہ اُن کی تحریروں سے خصوصی مناسبت رکھنے والوں کے مطابق اُن کی بہت سے طویل قیمتی مقالات ابھی تک پردہ خفا میں ہیں۔ کیوں کہ جب وہ اپنے ذہنی تقاضے یا کسی بیرونی مطالبے پر کچھ لکھنے بیٹھتے تھے تو روا روی میں نہیں لکھتے تھے۔ پورے شرح وبسط کے ساتھ اور موضوع کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے تھے۔ وہ کتاب چھاپنے اور مضامین چھپوانے کی لت سے کوسوں دور تھے۔ وہ فطری مصنف ومحقق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کثرت کے ساتھ لکھنے کے باوجود اُن کی تحریروں میں ہلکاپن یا سطحیت نظر نہیں آتی۔ حالاں کہ زیادہ لکھنے والوں کے ہاں عام طور پر یہ نقص پایا جاتا ہے۔ لیکن مولانا گیلانی عام طور پر اپنے علمی مقام اور تحقیقی شان سے نیچے اترتے نظر نہیں آتے۔ اسی لیے اُن کی تحریروں میں ہمیں ایسے پچاسوں علمی نوادر مل جاتے ہیں ، جن کے اوپر پوری پوری تصانیف کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم پر غور وفکر کے سلسلے میں اُن کا یہ جملہ اپنے اندر بے پناہ وسعت لیے ہوئے ہے:
’’بیرونی شہادتوں سے اگر قطع نظر بھی کر لیا جائے تو قرآن کی اندرونی شہادتوں ہی سے اُن سارے سوالوں کے جواب ہم حاصل کر سکتے ہیں ، جو قرآن جیسی کسی کتاب کے متعلق دلوں میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

غزوات نبوی کی نہایت خوب صورت اور جامع تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’عہد نبوت کے جنگی معرکے تجربۂ توحید کی سلبی وایجابی مشق گاہیں تھیں۔ ‘‘

حدیث نبوی کے مقام کے متعلق مولانا کا یہ قول قرآن وحدیث کا حقیقی آئینہ دار بھی ہے اور انتہائی فطری اور سائنٹفک بھی:
’’ابتدائے اسلام سے اِس وقت تک حدیث کا ایک خاص مقام مسلمانوں کی دینی زندگی میں رہا ہے۔ یہی اس کا طبعی مقام ہے۔ خصوصاً حدیثوں کا وہ ذخیرہ جس کی اصطلاحی تعبیر ’’خبر واحد‘‘ سے محدثین کرام فرماتے ہیں۔ ‘‘

اس طرح کے نہ جانے کتنے علمی جواہر پارے مولانا گیلانی کے علمی سرمائے میں بکھرے پڑے ہیں اور طالبانِ علم وتحقیق کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں۔

امتیازات

مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی علمی فتوحات کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُن کے حصّے میں ایسے بہت سے علمی امتیازات آئے، جو یا تو ان کے معاصرین میں کسی کو حاصل نہیں تھے یا بس دوچار لوگوں کو ہی حاصل تھے۔ ایک طرف انھوں نے ’’النبی الخاتم‘‘ کے ذریعے اردو سیرت نگاری کے میدان میں ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی، تو دوسری طرف ’’تاریخ تدوین حدیث‘‘ کے ذریعے اردو کے جدید اسلوب میں تدوین حدیث کے تمام مراحل کی تاریخ ترتیب دی اور فتنۂ انکار حدیث کی علمی بنیادوں پر تردید فرمائی۔ ایک طرف مختلف خشک موضوعات کو اپنی دل کش زبان کے ذریعے ہر خاص وعام کے لیے آسان کیا، تو دوسری طرف تاریخ وسوانح پر متعدد کتابوں کے ذریعے مسلمانوں کو ان کا شان دار ماضی بھی یاد دلایا اور روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے اٹھنے کا حوصلہ دیا۔ ایک طرف معاشیات، تعلیم اور سیاسیات پر بیش بہا علمی نوادر دنیا کی نذر کیے، تو دوسری طرف متعدد سماجی ودینی موضوعات پر پہلی مرتبہ قلم اٹھایا اور ایسی تحقیقات پیش فرمائیں ، جو آج بھی حرفِ آخر تصور کی جاتی ہیں۔ غرض یہ کہ انھوں نے امت کے سامنے اپنی مثالی شخصیت اور علمی کارناموں کے ذریعے قدیم صالح اور جدید نافع کا جامع ترین نمونہ پیش کیا۔

ایک اہم ضرورت

مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے سوانح قاسمی کے آغاز میں لکھا تھا کہ ’’شخصیتوں کی زندگی کا دنیا کے سامنے پیش کیا جانا محض اس لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ زندہ رہیں ، بلکہ اس لیے کہ ان کے زندگی بخش نصب العین سے قومیں زندہ رہیں۔‘‘

آج مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انھیں اس دنیا سے رخصت ہوئے چھ دہائیاں بیت چکی ہیں۔ لیکن ان کی تحریروں کی افادیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جس طرح یہ ضروری ہے کہ مولانا کی تصانیف ومقالات کی عمدہ طباعت کا نظم کیا جائے اور انھیں اگلی نسلوں کے لیے مختلف زبانوں میں منتقل کیا جائے، اُسی طرح اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مولانا کی تحریروں میں اٹھائے گئے مباحث کو آگے بڑھایا جائے اور ان کے ذریعے پیش کیے گئے علمی وتحقیقی اشارات کی بنیادوں پر تحقیقی منصوبے شروع کیے جائیں۔ تاکہ اُن کے حیات آفریں کارناموں سے ہماری نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں۔ انھی اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسٹی آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی کے زیر اہتمام پٹنہ میں یکم اور دو دسمبر ۲۰۱۸ کو دوروزہ قومی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ امید ہے یہ کانفرنس علمی دُنیا کے لیے ایک مہمیز کاکام دے گی۔ انسٹی ٹیوٹ نے اپنا کام کر دیا، اب علمی دُنیا کو اپنا کام کرنا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔