عورتوں کواِسلام سے زیادہ حقوق کس نے دیے؟

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

آج دنیا میں ہر طرف عورتوں کے حقوق کی بات ہورہی ہے،اوراُس کے پردے میں سیاسی،سماجی اور تجارتی مفادپرستی کابازاربھی گرم ہے،لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات توسب کررہے ہیں مگر اگر بات کی جائے اُن کے حقوق کی ادائیگی کی،تو ہر طرف سناٹاہی سناٹانظرآتا ہے،جب کہ ایمان داری سے تاریخ انسانی کاتجزیہ کیاجائے تو اسلام تنہاایسا مذہب ہے جس نےعورتوں کےحقوق کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ ماں کی گود سے لے کر قبرکی کال کوٹھری تک اپنے ماننے والوں کواُن کے حقوق کاذمہ داربنایاہے۔

باعزت زندہ رہنے کاحق
ایک زمانہ تھاکہ لڑکیوں کی پیدائش بُراشگون اور بےعزتی کا باعث سمجھاجاتاتھا،اس لیےپیداہوتے ہی لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے،اور آج بھی صورت حال کچھ الگ نہیں ہے،کیوں کہ بڑے پیمانے پراِس زمانے میں بھی لوگ ماں کے پیٹ میں یا پھر پیدائش کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے بچیوں کا قتل کررہے ہیں،لیکن اسلام وہ تنہامذہب ہےجو اپنے پہلے دن سے ہی نہ صرف اس ذلیل وغیراخلاقی حرکت کو ناقابل معافی قراردیتاہے،بلکہ اس پرسخت بندش بھی لگاتا آرہا ہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ’’زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اُسے کس جرم میں قتل کیا گیا۔’’(تکویر:9)اورمعلوم ہونے پر مجرم شخص کوسخت سے سخت سزادی جائےگی۔
ایک دوسرے مقام پرقرآن پاک میں ہے کہ’’تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم اُنھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔’’(بنی اسرائیل:31)
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور اُن کے معاملات میں اللہ رب العزت سے ڈرتارہے تو اُس کے لیےجنت ہے۔‘‘(ترمذی،حدیث:1916)
ایک دوسری حدیث پاک میں ہےکہ ’’جس کسی کے پاس تین بچیاں ہوں،وہ اُن بچیوں کواچھی تعلیم وتربیت دے، اُن کے ساتھ اچھابرتاؤ کرے،پھر اُن کی شادی کردے تو وہ جنت میں جائےگا۔ ایک صحابی نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! اگر کسی کے پاس دو ہی لڑکی ہو، اور ایساکرے؟ آپ نے فرمایاکہ وہ بھی جنت میں جائےگا۔ پھر ایک صحابی نے عرض کیاکہ یارسول اللہ!اگر کسی کے پاس ایک ہی لڑکی ہو،اور وہ ایسا کرے؟اس پر بھی آپ نے فرمایاکہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘(مستدرک ،حدیث:7424)
اس طرح اسلام میں لڑکیوں کی حفاظت کی گئی ہے، اُن کی عظمت کااحساس دلایاگیاہے اوراُنھیں جنت کی ضمانت بتاکر دین ومعاشرے میں اُن کی حیثیت واضح کی گئی ہے ۔
پاکدامنی کاحق
یوں ہی اسلام کی آمدکے وقت دنیامیں زناکاری اورجسم فروشی بڑے پیمانے پر رائج تھی،بلکہ بہت سے لوگ ماتحت عورتوں (نوکرانیوں) کواِس غیرانسانی فعل کے لیےمجبور بھی کیا کرتے تھے۔ مگر اسلام نے اس بُرے فعل کا سخت نوٹس لیا اوراسےقانونی جرم قراردیا۔قرآن کریم میں ہےکہ’’تم دنیوی زندگی کاسامان مہیاکرنے کے لیے اپنی باندیوں(نوکرانیوں) کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، (خصوصاً)جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں۔’’(نور:33)
یہ آیت بالعموم پوری انسانیت کے لیے اور بالخصوص اُن لوگوں کے لیے بطورخاص تازیانہ ہے،جوعورتوں کی دلالی بھی کرتے ہیں اوراُن کی آزادی کا مطالبہ بھی۔درحقیقت یہ عورتوں کو بدکاری اور جسم فروشی کی طرف راغب کرنے کی ایک منظم سازش ہے۔
عصمت و عفت کا حق
اسلام نےمردوں کو پابند کیا کہ وہ عورتوں کی عصمت و عزت کی حفاظت کریں اوراُن پر بُری نگاہ نہ ڈالیں ۔قرآن کریم میںہےکہ’’اے محبوب! مومنوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔’’(نور:30)
اسی طرح عورتوں کوبھی یہ حکم دیاگیاکہ وہ خودبھی اپنی عصمت وعزت کی حفاظت کریں۔قرآن کریم میں ہےکہ’’اے محبوب! مومنہ عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصے کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔’’(نور:31)
یہاں تک کہ نوکرانیوں کی عصمت وعزت کی حفاظت پربھی مکمل طورسےزوردیاگیاہے،اس تعلق سے دوواقعات قابل ذکر ہیں:
1۔ایک واقعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کاہے کہ ایک مہمان نے ایک شخص کی ہمشیرہ کی جبراً آبروریزی کی،تو آپ نے اُسے زنا کی سزابھی دی اوربعدمیں اُسی شخص سے اس عورت کی شادی بھی کردی۔(کنزالعمال،ج:5،ص:411)
2۔یہ واقعہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے کہ ایک شخص نے ایک نوکرانی کی عزت لوٹنی چاہی،اس کشمکش میں نوکرانی نے ایک پتھراٹھایا اور اس شخص کے پیٹ پر دے مارا،جس کی وجہ سے وہ مرگیا۔معاملہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تک پہنچا،آپ نے تحقیق کی تو قصوروار مقتول شخص ہی نکلا۔ لہٰذا حضرت عمر نے اُس نوکرانی کوباعزت بَری کردیا۔ (سنن کبریٰ ،ج:8،ص:337)
لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہوتاہے،اگرکوئی عورت جبراً آبروریزی کے لیےکشمکش کرتے ہوئے کسی شخص کو مار ڈالے تو اُلٹا مقدمہ عورت پر چلایا جاتا ہے،اور اگر ملزم زندہ بچ گیا تو متأثرہ عورت کوتفتیش کے پردے میں اِس قدر ذلیل کیاجاتاہے کہ اُس کی رہی سہی عزت بھی نیلام ہوجاتی ہے۔
پھر یہ عورتوں کی عزت وعفت اورعصمت کی پاسداری کا ہی لحاظ ہے کہ کسی بھی گھرمیں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا لازمی قرارپایا،پھراگرکوئی سامان چاہیےتوپردے کے پیچھے رہ کر مانگنے کا حکم دیاگیا۔قرآن کریم میں ہےکہ’’جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو اُن سے پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمہارے دلوں کے لیے اور اُن کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔’’(احزاب:53)
یہ حکم صرف عام عورتوں کے لیے نہیں بلکہ خاص عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ پردہ کریں،اپنی نمائش نہ کریں ۔ قرآن کریم میں ہےکہ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں،یہ اس بات سے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں، پھر اُنھیں آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے ایذا نہ دی جائے۔’’(احزاب:59)(تاکہ پردہ کرنےکی وجہ سےلوگ اُنھیں بازارو عورتیں نہ سمجھیں اوراُنھیں قدرکی نگاہ سے دیکھیں۔)مختصریہ کہ یہ تمام باتیں موجودہ عہد کے عیاش ذہنیت کےمالک مردوں اور عورتوں کے لیے درس عبرت ہے جو یہ کہتےرہتے ہیں کہ عورتوں کو اسلامی معاشرے میں خاطر خواہ حیثیت حاصل نہیں۔
ماں کا حق
اس سے بڑی بات اورکیا ہوسکتی ہے کہ ماں کی ناراضی جہنم اورخوشنودی کو جنت کہاگیا ہے۔نیزباپ سے بھی زیادہ اچھے سلوک کی حقدارماں کوقراردیاگیا ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ ایک صحابی بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ یارسول اللہ!میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔عرض کیا کہ پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ عرض کیا کہ پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ عرض کیا کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا باپ۔’’(بخاری:5971)
بیٹی کا حق
ایک زمانہ تھا کہ انسانی معاشرے میں بیٹی کی پیدائش شرم کی بات مانی جاتی تھی،بلکہ آج بھی حقوق نسواں کا راگ الاپنےوالوں کو بیٹیاںایک آنکھ نہیں بھاتی۔جب کہ اسلام نےبیٹی کی حیثیت سےبھی عورتوں کوایک منفردمقام عطا کیاہے۔ ساتھ ہی وراثت سے بھی ایک معقول حصہ دلایاہے۔قرآن پاک میں ہےکہ‘‘ اللہ تمھیں تمہاری اولاد کی وراثت کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کاحصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو اُن کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اُس کے لیے آدھا ہے۔’’(نسا:11)
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیداہوسکتاہے کہ لڑکوں کا حصہ دولڑکیوں کے برابر کیوں ہے؟جب کہ بحیثیت اولاد لڑکے اورلڑکی دونوں کا حصہ برابرہونا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تھوڑا غورکریں تو یہ حقیقت ہر شخص پر کھل جائےگی کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کے برابر حصے کی حقدار ہیں ،مثلاً ایک حصہ اپنے والد کے مال وجائداد میں پاتی ہیں اور دوسرا حصہ اپنے شوہر کے مال وجائداد میں۔اس طرح دونوں حصوں کو یکجا کریں تو لڑکے اورلڑکیوں دونوں کے حصے برابر ہوجاتے ہیں۔ پھر مردوں کےاوپربہت ساری ذمہ داریاں بھی عائد ہیں،مثلاً اولاد کی پرورش وپرداخت،والد ین کی نگہداشت و کفالت،بیوی کانان ونفقہ وغیرہ،جب کہ اِن میںسے کسی کی ذمہ داری عورتوں کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ حصہ کچھ بھی نہیں۔
بہن کا حق
عورتوں کےدیگرحقوق کے ساتھ بطور بہن بھی اُن کے حقوق متعین کیے گئےہیں،اوربیٹی کی طرح بہن کو بھی وراثت کا حق دیا گیا ہے۔قرآن پاک میں ہےکہ‘‘ اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو،جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو ( اخیافی بھائی یا بہن) تو اُن دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔یہ تقسیم بھی اس وصیت کے بعد ہوگی جو وارثوں کو نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد۔’’(نسا:12)
پھر‘‘ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجائے جو بے اولاد ہو ،مگر اُس کی بہن ہو تو اُس کے لیے اس مال کا آدھاحصہ ہے جو اُس نے چھوڑاہے… پھر اگر (بےاولادبھائی کی موت پر دو بہنیں وارث) ہوں تو اُن کے لیے اس مال کا دو تہائی حصہ ہے جو اُس نے چھوڑا ہے اور اگر(بےاولاد مرحوم کے) چند بھائی بہن بھی وارث ہوں تو پھرہر ایک مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔’’(نسا:176)
بیوی کا حق
اسلام نےبیوی کو شوہرکارازداراورشریک سفرہونے کے ساتھ نسل انسانی کے فروغ میں اہم معاون ومددگاربتایا ہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں سے تمہارے لیے بیٹے، پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمھیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ حق کو چھوڑ کر باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں۔’’(نحل: 72)
بیوی کے لیے بھی حق وراثت کی وکالت کی گئی ہے،مثلاً فرمایاگیاہےکہ‘‘ تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے مال میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اُن کے لیے تمہارے ترکےمیں سے آٹھواں حصہ ہے، تمہاری وصیت اس مال سے پوری کرنے یا تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد۔’’(نسا:12)
یہاں تک کہ بیوی کی مفارقت اوراُس کی دینی معاونت کی خاطرجہادجیسا عظیم عمل بھی ترک کیاجاسکتاہے۔
حدیث پاک میں ہےکہ‘‘ ایک شخص نے دریافت کیاکہ یا رسول اﷲ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج پرجا رہی ہے۔ یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ‘‘ واپس جاؤ ، اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔’’( بخاری،حدیث:3061)
تعلیم و تربیت کا حق
اسلام میں یہ ناپسندہے کہ لڑکے کو تعلیم وتربیت کاحق دارسمجھاجائے اورلڑکیوں کی تعلیم وتربیت کونظرانداز کر دیا جائے۔ حدیث پاک میں ہےکہ‘‘ اگر کسی شخص کے پاس کوئی باندی (بیٹی/نوکرانی) ہو، وہ اُس کو اچھی تعلیم دے،اس کواچھے آداب سکھائے،پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اُس شخص کے لیے دوہرا ثواب ہے۔’’(ایک آزادکرنے کا،اوردوسرا نکاح کرنے کا)
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام نےصرف بڑے گھرانے کی عورتوں کی تعلیم وتربیت کاخاص خیال نہیں رکھاہے،بلکہ چھوٹے گھرانے کی عورتوں کوبھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے پر زوردیاہے۔پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے یہ فرماکر کہ‘‘ علم کاحاصل کرنا ہر مسلمان (مردہو،عورت یاپھر نوکرانی ہو) پر فرض ہے۔’’عورتوں کوتعلیمی اعتبارسےبھی معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام دیاہے۔
برابری کا حق
تخلیق کے اعتبارسے مردوعورت دونوں برابرہیں،اسی طرح بحیثیت انسان دونوں برابرہیں۔قرآن کریم میں ہے کہ‘‘ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمھیں ایک جان (آدم)سے پیدا فرمایا، پھر اسی سے اس کا جوڑ اپیدا فرمایا، پھر اُن دونوںسے بکثرت مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔’’(نسا:1)
اجروثواب پانے میںبھی دونوں برابرہیں۔قرآن کریم میں ہے کہ‘‘ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔’’( آل عمران:195)
مالکانہ حق
عورتوں کوبھی مال کسب کرنےاور وراثت سے اپنا حصہ پانے کا حق ہے۔قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو اُنھوں نے کمایا،اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو اُنھوں نے کمایا۔’’(نسا:32)
یہاں تک کہ بیوی کی اجازت کے بغیراُس کی ملکیت میں دخل دینے کا حق شوہرکوبھی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ‘‘ اے مومنو!تمہارے لیےیہ حلال نہیں کہ عورتوں کے مال یا جان کےجبراً مالک بن جاؤ اور اِس نیت سےانھیں روکے نہ رکھو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔’’(نسا:19)
یعنی اگر عورتوں کے مال وجائداد میں سے کچھ خرچ کرو تو اُنھیں واپس لوٹادیاکرو،پھرنہ بیوی کواپنی ملکیت سمجھو اور نہ ہی اُس کے مال وجائداد کو اپنی ملکیت سمجھو۔
شادی کا حق
پُرانے زمانے میں عورتیں مردوں کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں،اُنھیں شادی بیاہ کاکوئی حق حاصل نہ تھا۔لیکن اسلام نے شادی بیاہ کا ایک خوب صورت ضابطہ مقررکیاجس کی رو سےکوئی بھی عورت خواہ یتیم ہونوکرانی ہو یا مطلقہ ہی کیوں نہ ہو، شادی بیاہ کے حق سے محروم نہیں۔قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کانکاح کردیا کروجو بغیر شادی کےرہ رہے ہوں، اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا نکاح (آپس میں)کردیا کرو۔’’(نور:32)
اختیارنکاح کا حق
جس طرح عاقل وبالغ عورت کی شادی اُس کی مرضی کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے،اسی طرح اگر کسی سرپرست نے کسی نابالغ لڑکی کی شادی کردی،تو بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی شادی کے تعلق سےمختارہے،چاہے توولی کی شادی برقرار رکھےیاچاہے تو فسخ کردے۔
چنانچہ ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک لڑکی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئی اور دریافت کیاکہ میرے والد نےمیری شادی میرےبچپنے میں ہی کردی تھی،اس تعلق سے مجھے کچھ اختیار ہے؟آپ نے فرمایاکہ ہاں! چاہو تواِس شادی کو باقی رکھو ، یاچاہوتو اِس کو ختم کردو۔اُس لڑکی نے جواب دیا کہ مجھے اس پرکوئی اعتراض نہیں ،بلکہ میں تو صرف یہ جانناچاہتی تھی کہ شادی کے معاملےمیں عورتوں کوکیا اختیار حاصل ہے۔ اسی طرح خذام نے اپنی بیٹی خنساکی شادی اُس کے پسندیدگی کے خلاف کردی،اُس بیٹی نےاِس کی شکایت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو مردود قراردیا۔(مسنداحمد،حدیث:26786)
مہر کا حق
مہراورجہیزدونوں عورتوں کی ذاتی ملکیت ہیں،اور شوہروں پر لازم ہے کہ اُنھیں خوشی خوشی اداکریں۔قرآن پاک میں ہےکہ‘‘ عورتوں کو اُن کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس مہر میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تم اسے اپنے لیےحلال اوربہتر سمجھ کر کھاؤ۔’’(نسا:4)
اگر بشکل مہر اورجہیزبےشماردولتیں بھی عورتوں کی ملکیت میں ہوں توشوہروں کو یہ اختیارحاصل نہیں کہ اُن سےواپس لیں۔قرآن کریم میں ہے کہ‘‘ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو، اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو، پھر بھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔’’(نسا: 20)
زوجیت کاحق
یہ حق ایساہے جوبہرحال اداکرنامرد کی دینی اوراخلاقی ذمہ داری ہے۔شرعی عذرکے بغیربیوی سے تعلق توڑنا،یااُس سے دوری اختیارکرنے کے لیے کسی طریقے کااستعمال کسی بھی نہج سےدرست نہیں ۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو اُن کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے،پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ اپنی رحمت سے بخشنے والا ہے۔’’(بقره:226)
یہ حق زوجیت کا ہی معاملہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال( مسلسل روزہ) رکھنے سے منع فرمایا،بلکہ اسی وجہ سے عبادت میں بھی اعتدال کا حکم دیاگیا ہے۔
ایک روایت ہے کہ کثرت عبادت کےباعث حضرت ابودردارضی اللہ عنہ سے حق زوجیت کی ادئیگی میں کوتاہی ہونے لگی تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اُنھیں ٹوکا اورکہاکہ‘‘ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے،نفس کا بھی حق ہے اور گھروالوں کا بھی حق ہے،لہٰذاتم ہر ایک حقدارکاحق ادا کرو۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نےاس بات کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ‘‘ سلمان نے سچ کہا۔’’(بخاری،حدیث:1968)
خلع کا حق
خلع کی صورت میں بھی اسلام نے عورتوں کو ایک ایسا دفاعی ہتھیاردے رکھاہے کہ وہ مردکے ہرظلم اورتشددکوروک سکتی ہیں۔عورتیں یہ حق اس وقت استعمال میں لاسکتی ہیں جب وہ اپنے شوہر کی بداخلاقی، مکاری یا اُس کی کسی بشری کمزوری سے پریشان ہوں،اور اُنھیں خوف ہو کہ وہ اللہ کے احکام کی پاسداری نہ کر سکیں گی۔قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ اگر تمھیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تواُس صورت میں ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خوداپنی طرف سے)کچھ فدیہ دے کر (اِس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے۔’’(بقره:229)
گویاشوہراگرطلاق کے پردے میں عورتوں کوپریشان کرنے کی کوشش کرے،یااس سےبُرابرتاؤ کرےاور شوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہوجائے، تو خلع کی صورت میں ایسے نامعقول شوہروںسے نجات حاصل کرنے کا بہتر طریقہ موجود ہے۔ لیکن یہ یادرہے کہ شوہراگر تمام حقوق اداکررہاہو تواُس صورت میں خلع لیناکسی بھی طرح دُرست نہیں ہے۔
حدیث پاک میں ہےکہ‘‘ جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔’’(ترمذی،حدیث:1187 )
اعتماد کا حق
مرد وں پرلازم ہے کہ وہ عورتوں پر اعتماد کریں،اور گھر کے معاملات میں اس سے مشورہ بھی کرتے رہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نےاپنی بیویوں کے مشوروں پر عمل فرمایا ہے اور اُن کے مشوروں کو اہمیت بھی دی ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی کرنے میں تاخیر کی اور پس وپیش سے کا م لیا،تو اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہی یہ مشورہ دیا تھاکہ حضور!آپ بڑھیں اور قربانی کریں ۔چناں چہ جیسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی فرمائی، صحابہ کرام بھی اپنی اپنی قربانی کرنے لگے اور اس طرح ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔(بخاری،حدیث:2731)
میاں بیوی کا رشتہ بڑانازک معاملہ ہے،اعتمادمیں ہلکی سی کمی بھی میاں بیوی کےآپسی رشتے کو ہلاکررکھ دیتی ہے، اس لیے اعتمادکی بحالی بہرحال لازم ہے۔ قرآن کریم میں اس نازک رشتے کو لباس سے تعبیرکیاگیا ہےکہ‘‘ عورتیں تمہارے لیے لباس کی مانندہیں اور تم ان کے لیے لباس کے مانند ہو۔’’(بقرہ:178)اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو اپنے لباس کو پھاڑناچاہےگا۔
حسنِ سلوک کاحق
میاں بیوی کی زندگی میں حسن سلوک کا بھی ایک اہم کردارہے،اس لیے اسلام نے اس پربھی خاصازوردیاہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ عورتوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا معاملہ کرو۔’’(نسا:19)
حدیث پاک میں ہے کہ‘‘ سب سے اچھاوہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے معاملے میں اچھا ہے۔’’(ترمذی،حدیث:3895)
بالخصوص اسلام نے اس بات کااحساس کرایاہےکہ عام انسانوں کی طرح عورتیں بھی ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حق دار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نکاح کو ایک معاہدہ قراردیاہے،جس کے تحت بیوی کی شکل میں اللہ کی امانت سپردکی جاتی ہے۔حدیث پاک میں ہےکہ‘‘ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیوں کہ تم نے اُنھیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے نکاح میں لیا ہےاور اللہ کا نام لےکر اُن کواپنے لیے حلال کیاہے۔’’(مسلم،حدیث:1218)
جب یہ معلوم ہوگیاکہ نکاح ایک معاہدہ ہے تویہ بات بھی ذہن میں اَزبرکرلینی چاہیے کہ معاہدے میں دونوں فریقوں پر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں،اب اگردونوں میں سےکوئی بھی فرداپنی ذمےداری ادانہیں کرتاہے گویاوہ امانت میں خیانت کرتاہے اورخیانت کرنے والوں کاٹھکانہ بہت بُرا ہے۔ اس لیے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیے بغیر نکاح جیسی امانت کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ۔
تشدد سے تحفظ کا حق
آج کل کسی نہ کسی بہانےعورتوں پرتشدد کےپہاڑ توڑے جارہے ہیں،بسااوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ کچھ لوگ عورتوں کو پریشان کرنے کے لیے طلاق بھی دے ڈالتے ہیں،پھرکچھ دنوں بعدرجوع کرلیتےہیں،اوریہ سلسلہ چلتارہتاہے،اسلام نے اس عمل کوبڑی سختی کے ساتھ روکاہےکہ ایسا کرنااللہ کے احکام کا مذاق اڑاناہے۔قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ عورتوں کو تکلیف پہنچانے اوراُن پرظلم وتشدد کرنے کے لیے نہ روکے رکھو۔ جس نے ایساکیاگویا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔’’(بقرہ:231) غرض کہ عورتوں پر کسی بھی طرح کاظلم وتشددجائز نہیں۔ خواہ وہ جسمانی ہویاذہنی ۔
نگہداشت اور کفالت کا حق
عورتوں کی نگہداشت،اُن کی دیکھ ریکھ اوراُن کی ضروریات زندگی کاذمہ دار مردوں کوبنایا گیاہے، مثلاً کھانے پینے،رہنےسہنےاور لباس و سامان زینت کی تمام تر ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہےکہ‘‘ مرد عورتوں کےمحافظ و منتظم ہیں،اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ مرداُن پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔’’(نسا:34)
یہاں تک کہ اولادکی پرورش اور تعلیم وتربیت کی ساری ذمے داری بھی باپ پرعائد ہوتی ہے ماں پر نہیں۔پھر یہ فرماکر مطلقہ عورتوں کی دیکھ بھال کا شوق دلایاگیاہے کہ یہ نیکوں کا عمل ہےاور انعام الٰہی کا باعث بھی ہے۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہےکہ‘‘ مطلقہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے۔’’(بقرہ:241)
اگر بدقسمتی سے طلاق کا معاملہ ہوجائے تو ایسی صورت میں بھی مطلقہ عورتوں کو عدت پوری ہونےتک گھر سے نکالنے کی اجازت نہیں ۔پھراِس دوران اُن کے نان ونفقہ کا انتظام کرنابھی شرعاً شوہروں کی ذمہ داری ہے۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہےکہ‘‘ تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو، اور انھیں تکلیف نہ دو کہ اُن پر تنگی کرو، اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر بچے کو دودھ پلائیں تو انھیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں ایک دوسرے سے نیک بات کا مشورہ حسبِ دستور کر لیا کرو،پھر اگر باہم دشواری محسوس کرو تو اُسے اب کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی۔ صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت کے لحاظ سے خرچ کرناچاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی روزی میں سے بطورِ نفقہ خرچ کرے جو اللہ نے اُسےعطا فرمایاہے،کیوں کہ اللہ کسی شخص کواُسی قدر مکلف ٹھہراتاہے جتنا کہ اُس نے اُسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ تعالیٰ عنقریب تنگی کے بعد آسانی پیدا فرما دے گا۔’’(طلاق:6-7)
بلکہ عدت گزرنےکے بعد بھی اگر اُن کے پاس کوئی معاشی ذریعہ نہ ہو،نہ اُن کاکوئی ٹھکانہ ہو،اوراُن کےبھٹک جانے کا غالب اندیشہ ہوتو بحیثیت مسلمان بہتریہ ہے کہ اُس وقت تک مطلقہ عورتوں کی نگہداشت کی جائےاوراُن کے نان و نفقے کے ساتھ اُن کے رہنے سہنے کابھی الگ سےکوئی انتظام کردیاجائے، جب تک کہ اُس کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں ہوجاتا۔ (اگرچہ یہ شرعاً لازم نہیں ،لیکن عام مسلمان مردوعورت کی مدد کرنا احسان ہے۔)
اس کےدوفائدے ہوں گے:ایک یہ کہ مطلقہ عورتوں کی نصرت وحمایت ہوگی،وہ ہر طرح کی بُرائی سے بچ جائیں گی، دوسرا یہ کہ طلاق کی صورت میں جوغلطی ایک انسان سے ہوچکی ہے،ممکن ہےاللہ اِس نیک عمل کی بناپر اُسےمعاف کردے۔حدیث پاک میں ہےکہ‘‘ عورتوں کاحق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم اُنھیں شرعی قانون کےمطابق نان ونفقہ(خوراک و لباس) فراہم کرو۔’’(مسلم،حدیث:1218)
ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ‘‘ عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شوہرخود کھائے تو اُسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اُسے بھی پہنائے، اُس کے منھ پر نہ مارے، اُسے بُرا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔’’(ابن ماجہ،حدیث:1850)
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ سے اس بات پر زور دیتاآرہاہے کہ عورتوں کی نگہداشت وحفاظت بہرحال کی جانی چاہیے۔اب وہ چاہےماں کی شکل میں ہو،بیٹی کی شکل میں ہو، بہن کی شکل میں ہو،یا پھر بیوی کی شکل میں۔کیوں کہ یہ تمام رشتے نہ صرف محترم ہیں بلکہ ہماری زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے میں حددرجہ ہمارےمعاون ومددگار بھی ہیں۔
مثال کے طورپر جب ایک بیٹازندگی کی دھوپ کاشکار ہوتا ہے تو ماں کا آنچل رحمت بن کر اُس کے لیے سائبان کا کام کرتا ہے،جب ایک باپ پریشان حال ہوتا ہے تو بیٹی اپنی خدمت سےاُس کو سکون بخشتی ہے،جب ایک بھائی دکھوں کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے تو بہن کا دلاسہ اُس کے لیے مضبوط سہارے کا کام دیتا ہے،اور ایک شوہر زندگی کے تھپیڑوں سے ہارنے لگتاہے تو بیوی چٹان بن کر اُس تھپیڑے سے لڑنے میں قدم قدم پراُس کا ساتھ دیتی ہے۔ اس طرح ایک انسان زندگی کے ہراُتارچڑھاؤ سے مقابلہ کرتاہواآگے بڑھتاہے اور ایک دن اپنی منزل مقصودبھی پالیتاہے۔
قانونی حق
قانونی حق ہر انسان چاہےوہ مردہوںیا عورت اُن کا پیدائشی حق ہے۔چناں چہ اسلام میں یہ حق مردوں کی طرح ہرعورت کوبھی حاصل ہے،تاکہ وہ بھی ایک پُرسکون اورباوقار زندگی بسر کرسکے۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ نہ کسی مومن مرد کو یہ حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ فرمادیں تو ان کے لیے اپنے اس کام میں کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا۔’’(احزاب:36)
یعنی قانون الٰہی پرعمل کرنے میں مرداورعورت دونوں برابر ہیں ،اوردونوں میں سے کسی کوکوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی ہر دوسطحوں پر قانونی اہمیت دی گئی ہے۔
گواہی کا حق
شریعت میں مرداورعورت دونوں کی گواہی مقبول ہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ تم دوآدمیوں کوگواہ بنا لو،اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کوگواہ بنالو،جن کو تم گواہ بنانا پسند کرو۔’’(بقرہ:282)بلکہ بعض معاملات ایسے ہیں جن میں صرف عورتوں ہی کی گواہی معتبرہے،مثلاًرضاعت کا معاملہ،ولادت کا معاملہ، حیض ونفاس کا معاملہ وغیرہ۔
سیاسی حقوق
خاندان و معاشرےسے لے کرملکی وملی سطحوںپربھی عورتوں کوہرحق حاصل ہےکہ وہ اپنی اہلیت وصلاحیت کی بنیاد پرمردوں کا تعاون کرسکتی ہے۔ قرآن کریم میں ہےکہ‘‘ مومن مرد اورمومنہ عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں، نماز قائم رکھتے ہیں،زکاۃ ادا کرتے ہیں،اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کرتے ہیں۔‘‘(توبہ:17)
اورمعروف کاحکم دینااورمنکرسےروکنا،نمازاورنظام زکاۃ قائم کرناوغیرہ مردوعورت دونوں پر لازم ہے۔
اس کے علاوہ عورتوں کوقانونی طورپرحق رائے دہی بھی حاصل ہے کہ وہ ملکی یاقومی سربراہ کے انتخاب،قانون سازی، رائے شماری، اور دوسرے سیاسی معاملات میں مردوں کی طرح اپنےحق رائے دہی کا استعمال کرسکتی ہیں،اوراس کا واضح ثبوت خودنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیعت والا عمل ہےکہ جس امر کے لیےآپ مردوں سے بیعت لیتے تھے اسی امرکے لیے عورتوں سے بھی بیعت لیاکرتے تھے۔
خلفائےراشدین کے زمانے میں بھی یہی عمل رہاکہ رائے دہی کے معاملات میں عورتوں کوشامل رکھاگیا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس شوریٰ میں عورتوں کو اچھی خاصی نمائندگی دی تھی،آپ نےام المومنین حضرت اُم حفصہ رضی اللہ عنہاہی کے مشورے پرمجاہدین کے لیے یہ طےکیاتھاکہ وہ چارماہ سے زیادہ اپنےگھروں سے باہر نہیں رہ سکتے۔ (تاریخ الخلفاء ازسیوطی)
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نےایک بار مہر کی مقدارمتعین کرنے پر رائے لینی چاہی تو ایک خاتون نے یہ کہہ کرحضرت عمررضی اللہ عنہ کو اِس بات سے روک دیاکہ‘‘ اس کا حق اور اختیارآپ کو نہیں۔’’لہٰذاحضرت عمرنے اپنی تجویز واپس لے لی۔(مصنف عبدالرزاق،حدیث:10420)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی بھرپور حصہ لیاتھا،اور یہ تاریخ انسانی میں پہلی مثال قائم ہوئی۔(طبری،تاریخ الامم والملوک)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت اُم کلثوم بنت علی رضی اﷲ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں بحیثیت سفیر بھیجاتھا،جہاں بادشاہ ہرقل کی بیوی نےحضرت اُم کلثوم کا خیرمقدم کیا۔(حوالہ سابق)
اس کے باوجوداگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کی حق تلفی کی گئی ہے تو اِسےاسلامی اصول اور اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہی قراردیاجاسکتاہے۔
اس لیےاسلامی نظام زندگی پر نشانہ سادھنےوالے مردوں اورعورتوں سےیہ گزارش ہے کہ ایک لمحے کے لیے غورکریں کہ جب دین اسلام نےہر ایک انسان (مردہویا عورت)کوجینے کے حقوق، تحفظ کے حقوق، تعلیم کےحقوق، تربیت کے حقوق،خاندان کے حقوق،ازدواجی حقوق، (طلاق کے بالمقابل)خلع کےحقوق،وراثت کے حقوق، مالکانہ حقوق،قانونی حقوق،اورسیاسی حقوق دے رکھےہیں، تواَب اُنھیں کیسےحقوق چاہیے؟کیا اُن کے نزدیک اِن حقوق کی کچھ اہمیت و حیثیت نہیں؟
پھر اگرسماجی سطح پرعورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی ہے، اوراُنھیں اُن کےمقررہ حقوق نہیں مل رہے ہیں تو اِس کا قصوروار سماج ہے یا دین اسلام ؟چناں چہ انصاف یہ کہتاہے کہ اُس سماج کےمزاج کوبدلا جائے جو عورتوں کے حقوق کی پامالی کرتاہے،نہ کہ دین ومذہب کو ملزم سمجھا جائے۔(ایڈیٹرماہنامہ خضرراہ،الہ آباد)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔