مسلمانوں نے کبھی بھی غاصبانہ قبضہ کی زمین پر مسجد نہیں بنائی

عبدالعزیز
جوکتبات بابری مسجد کی دیواروں پر لکھے گئے تھے یا آخری وقت تک موجود تھے ان کتبات کی سند کو کسی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد رام چندر جنم بھومی کو مسمارکرکے بنائی گئی، اگر یہ اس طرح بنائی گئی ہوتی تو ا س زمانہ میں بابر یا اس کے حاکم اپنے فاتحانہ غرور اور پندار میں یہ ضرور لکھ دیتے کہ شرک و کفر کی ایک جگہ کو منہدم کرکے یہ مسجد تعمیر کی گئی، اور اس وقت یہ لکھنے سے کون ان کو روک سکتا تھا، بابر کی طرف فقہ بابری منسوب ہے، اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کسی غاصبانہ قبضہ کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاسکتی ہے، اور اگر ایسی کوئی مسجد بنی تو علماء اور مفتیان وقت اس میں نماز پڑھنے کا کبھی فتویٰ نہیں دے سکتے، اور اسلام کی گذشتہ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں، اگر کسی عبادت گاہ کے کسی حصہ کو بھی زبردستی حاصل کرکے مسجد میں شامل کیا گیا تو بعد میں وہ توڑ دیا گیا، بنوا میہ کے زمانہ میں ولید بن عبد الملک نے دمشق میں ایک شاندار مسجد بنانے کا ارادہ ظاہر کیا، اس کیلئے زمین کی کمی پڑی، اس نے پڑوس کے ایک گرجے کی زمین عیسائیوں سے مانگی، انہوں نے یہ کہہ کر زمین دینے سے انکار کیا کہ خوشی سے تو نہیں دے سکتے، زبردستی سے اگر لی گئی تو لینے والے کو کوڑھ ہوجائے گا، ولید کو غصہ آگیا اور یہ کہہ کر زمین لے لی کہ دیکھیں کیسے کوڑھ ہوتا ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا زمانہ آیا تو عیسائیوں نے ان سے شکایت کی، حضرت عمر بن عبد العزیزؓ خلفائے راشدینؓ کے اسوۂ حسنہ پر چلتے تھے، انہوں نے حکم دیا کہ مسجد کا وہ حصہ جو گرجے کی زمین پر تعمیر ہوا ہے وہ فوراً منہدم کرادیا جائے، اور سرکاری خرچ سے گرجے کی تعمیر از سر نو ہو۔ (خطبات شبلی ص75۔74)
غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی رواداری
ہمارے رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں جب کوئی ملک یا علاقہ فتح ہوا، اور وہاں کے لوگوں نے آپ کی حکومت تسلیم کرلی تو ان کو آپ برابر یہ حقوق دیتے رہے کہ ان کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں ، ان کے اموال، ان کے حاضر وغائب، ان کے قافلے، ان کے سفر، اللہ کی امانت اور اس کے رسول کی ضمانت میں ہیں، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہ کیا جائے، اور نہ ان کے کسی حق میں دست اندازی کی جائے، اور نہ ان کی مورتیں بگاڑی جائیں، کوئی اسقف اپنی اسقفیت، کوئی راہب اپنی رہبانیت، کلیسا کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے نہ ہٹایا جائے، جو بھی کم یا زیادہ ان کے پاس ہے، اسی طرح رہے گا، اس کے زمانہ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا، ان سے فوجی خدمت نہیں لی جائے گی اور نہ ا ن پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوجیں ان کی پامالی کریں گی، ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ (فتوح البلدان بلاذری، ص:۷۶، مطبوعہ مصر اور دین رحمت مطبوعہ دارالمصنفین ص:338۔337)
اسی پر صحابۂ کرام کا عمل رہا، اور اگر تعصب کی عینک اتار کر ہندستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو
معلوم ہوگا کہ یہی روایت سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد سے بہادر شاہ ظفر تک قائم رہی، اور اگر مسلمان حکمرانوں کا یہ مذہبی فریضہ
ہوتا کہ وہ مندروں کو مسمار کریں، بتوں اور مورتوں کو توڑ کر ہندستان کی سرزمین کو ان چیزوں سے پاک کردیں، تو
شاید یہاں اتنے لاکھوں اور کروڑوں مندر دکھائی نہ دیتے، جو قدیم زمانہ سے اب تک موجود ہیں،
اگر اسلام کی مذکورۂ بالا تعلیمات کی کہیں اور کسی زمانہ میں کسی سے خلاف ورزی
ہوئی تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس سے جرم کا ارتکاب ہوا۔
مسلمان اپنی مسجدیں بنانے میں تو بہت زیادہ محتاط اور پرہیز گار رہے، پہلے ذکر آیا ہے کہ کسی غاصبانہ قبضہ والی زمین پر تو مسجد بنانا بالکل ہی جائز نہیں، اور گر بنالی جائے تووہ توڑ دی جائے، مسجد بنانے میں علماء و فقہاء نے بڑے شرائط مقرر کئے ہیں، فقہا کی یہ رائے تسلیم کرلی گئی ہے کہ جو مسجد ریا کاری یا نام و نمود یا کسی اور غرض فاسد کیلئے بنائی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خیال نہ ہو یا جو مسجد ناپاک مال سے بنائی جائے تو وہ مسجد ضرار کی سی ہے۔ (تفسیرات احمدی،ص:283، ندارک علی الخازن ،ج:2، ص:265) یعنی وہ مسلمانوں کی نہیں ، منافقوں کی مسجد ہے۔
فقہاء کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ مسجد بنائے جس میں دوسرے کا حق ہو اور اس کی رضا مندی حاصل نہیں کی گئی ہو تو اس حق والے کو اختیار ہے کہ ایسی مسجد کو باطل قرار دے اور اپنا حق لے لے، اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک زمین پر کسی کو جوار یا رشتہ کی وجہ سے حق شفعہ حاصل ہے تو اس پر مسجد نہیں بنائی جاسکتی ہے، (فتح القدیر ض:2، ص:875) اسی طرح ایک شخص بیمار ہے یا اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا گھر بار مسجد میں تبدیل کردے ، یا اس نے مرتے وقت اس کی وصیت بھی کردی ،مگر اس کے جائز ورثاء وصیت کو تسلیم نہ کریں تو اس کی وصیت جائز نہیں سمجھی جائے گی (فتاویٰ عالمگیر ج:2، ص:454) اسی طرح بیع فاسد سے خریدی ہوئی زمین پر مسجد بنانے کی اجازت نہیں (فتح القدیر، ج:2، ص:875) ناجائز طریقہ سے حاصل کی ہوئی زمین پر بھی مسجد بنانا درست نہیں ہے، ناجائز حصول کی جو بھی شکل ہو، مثلاً کسی کا گھر زبردستی کچھ لوگ حاصل کرکے وہاں مسجد یا جامع مسجد بنالیں تو ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا، (فتاویٰ عالمگیری،ج:6،ص:214)اسی طرح کوئی راستہ ایسا ہو کہ ایک مسجد کے بننے سے چلنے والوں کو نقصان یا تکلیف ہو تو بلاشبہ ایسی مسجد بنانا درست نہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری،ج:3، ص:229)مسجد کی تعمیر کیلئے زمین کو حلال طریقہ سے حاصل کیا جانا اس کی صحت کی شرط ہے، اور اس حامال طریقہ کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس زمین پر کسی بھی شخص کا کوئی حق نہ ہو، ہدایہ میں ہے کہ اگر ایک شخص نے کوئی ایسی مسجد بنائی جس کے نیچے کوئی تہ خانہ ہو، اس کے بالائی حصہ پر کوئی مکان ہو، بیچ میں مسجد ہو اور اس کا دروزہ کسی راستہ پر کھلتا ہو، اور گواس مسجد کے حصہ کو اسی شخص نے اپنی ملکیت سے نکال کر مسجد بنادیا ہو، تو یہ درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ جب اس نے اس کو باضابطہ فروخت نہیں کیا ہے تو اس کو یا اس کے انتقال کے بعد اس کے وارثوں کو اس حصہ کو فروخت کرنے کاحق باقی رہے گا، صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ کی عقلی دلیل یہ دی ہے کہ یہ مسجد اللہ کیلئے خالص نہیں تھی، کیونکہ اس سے بندہ کا حق متعلق ہے، قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ مسجد وہ ہے جس میں کسی کو بھی حق منع حاصل نہ ہو، یعنی اس مسجد پرکسی کاکسی طرح کا کوئی بھی حق نہ ہو۔(ہدایہ،ج:2، ص:625۔624)
فقہاء کا اس مسلک پر ہمیشہ عمل رہا، موجودہ دور کے فتاویٰ میں بھی اسی قسم کی مثالیں ملتی ہیں، مثلاً فتاویٰ رضویہ میں ایک استفتاء، کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ مسجدیں اللہ کیلئے ہیں،ان کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی شش جہت میں جمیع حقوق عباد سے منزہ ہوں، اگر کسی حصہ میں ملک عبد باقی ہے تو مسجد نہ ہوگی، (فتاویٰ رضویہ،ج:۶،ص:453)۔ اسی طرح ایک استفتاء میں یہ پوچھا گیا کہ مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندو زمین دار سے زمین خرید کر مسجد بنائیں، کیونکہ مسلمانوں کے پاس موروثی زمین سے الگ کوئی ایسی زمین نہیں ہے جس پر مسجد یا جامع مسجد بنائی جاسکے، لیکن وہ ہندو زمین دار زمین نہیں بیچنا چاہتا، تو ایسی صورت میں کیاکیا جائے؟ اس کے جواب میں یہ فتویٰ دیا گیا کہ اگر وہ ہندو زمین نہیں بیچتا تو پھر مسلمان گھروں ہی میں نماز پڑھیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج:6،ص:461) ، اسی طرح اگر زمین مشترک ہے تو شرکاء کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز نہیں، اور اگر ایسی زمین پر مسجد بنا بھی دی جائے تو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب نہیں ہے بلکہ اس میں نماز ہی نہ پڑھی جائے۔ (مجموعۂ فتاویٰ مولانا عبد الحئی ، بحوالۂ آداب المسجد مفتی محمدشفیع،ص:25) اسی طرح نابالغ کی زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں، (تتمہ امداد الفتاویٰ بحوالہ آداب المساجد مفتی محمد شفیع ص:25) فاحشہ عورت نے اگر اپنی حرام آمدنی سے مسجد بنادی تو وہ مسجد ہی نہیں تسلیم کی جائے گی اور نہ اس کو اس کاثواب ملے گا۔(مجموعۂ فتاویٰ مولانا عبد الحئی،ص:268)
زمین حلال طریقہ سے حاصل کرنا لازمی ہے
جب کسی جگہ مسجد بنانے میں اتنے شرائط ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان یا ان کے فاتح اور حکمراں مندروں کو توڑ کر مسجدیں بناتے رہے ہوں، اوپر کہا گیا ہے کہ مسجد بنانے کیلئے زمین حلال طریقہ پر حاصل کرنا لازمی ہے، اس کے حاصل کرنے میں کسی بندہ کا حق زائل نہ ہوتا ہو، اور زبردستی نہ کی گئی ہو، تو پھر کسی مندر کو توڑ کر وہاں پر مسجد بنانا کیونکر درست، جائز اور صحیح قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ تو مان لیا جاسکتا ہے کہ مسلمان فاتحوں اور حکمرانوں نے جنگ کے زمانہ کے غیظ و غضب میں کسی مندر کو مسمار کردیا ہو، یا کسی مندر کو سازش، بغاوت یا فحاشی کا اڈہ سمجھ کر اس کومنہدم کردیا ہو، مگر مندر کو توڑ کر اس کی جگہ پرمسجد بنانا ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور اگر کسی محرور المزاج اور مغلوب الغضب فاتح نے ایسی مسجد بنادی تو راسخ العقیدہ فقہاء اور علماء کے نزدیک یہ مسجد قرار نہیں دی جاسکتی ہے، یہ بھی قرین قیاس ہے کہ کسی خاص سبب سے توڑے ہوئے مندر کے پاس یا اس سے تھوڑے فاصلہ پر کوئی مسجد بنا دی گئی ہو، مگر مندر کی جگہ ہر گز کہیں مسجد نہیں بنائی گئی ، یہ اوربات ہے کہ کسی سیاسی مصلحت یا چرب زبانی سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ مندر توڑ کرمسجد بنائی گئی، انگریزوں نے ہندستان میں اپنی حکومت کے زمانہ میں ایسی باتوں کی ضرور ترویج کی، مگر ان کو تو واقعہ کے سچ اور جھوٹ ہونے سے غرض نہ تھی، ان کے پیش نظر تو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا تھا، وہ پیدا ہوکر رہی، اسی پس منظر کیساتھ اجودھیا میں مسجد اور مندر کا جھگڑا کھڑا کردیا گیا، ایک مورخ یہ سوال کرسکتاہے کہ یہ جھگڑا مغل بادشاہوں کے دور میں کیوں نہیں شروع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہندو اس دور میں دبے سہمے رہے، اس لئے وہ خاموش تھے، حالانکہ اکبر سے لے کر اس کے جانشینوں کے دور عروج تک بڑے بڑے راجپورت سرداران کے لشکر اور دربار میں رہ کر اپنے کارناموں کی وجہ سے خطابات اور امتیازات پاتے رہے، انہوں نے اپنے آقاؤں کی توجہ اجودھیا جیسے پوتر مقام کے مندروں کی بے حرمتی کی طرف کبھی نہیں دلائی اور شاید وہ اس کو ایک پوتر مقام سمجھ کر یہاں کی تیرتھ کیلئے کبھی آئے بھی نہیں، اس جگہ کی اہمیت برطانوی حکومت کے زمانہ میں زیادہ ہوئی، پھر مسمار شدہ مندروں کا مسئلہ اٹھاکر ہندوؤں کے جذبات کو ابھارا گیا، جس کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لازمی طور پر باہمی نفرت پیداہوئی۔
اس قضیہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں انگریز، ہندو اور مسلمان تینوں فریق بن گئے تھے، انگریز اس لئے کہ انہوں نے ہی ہندوؤں کو یقین دلایا کہ ان کے مندروں کو منہدم کرکے مسجدیں بنائی گئیں، اور پھر اس جھگڑے کو چکانے کیلئے ان ہی کی فوج سرگرم عمل رہی، جیسا کہ آگے ذکر آئے گا، ہندو اس لئے فریق ہوگئے کہ ان کا مطالبہ ہوا کہ جن مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنائی گئی ہیں ان کی تعمیر از سر نو ہو، اور مسجدیں مسمار کردی جائیں، مسلمان یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے، ان کی دلیل تھی کہ یہ صحیح نہیں کہ یہ مسجدیں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں، یہ باتیں محض زبانی روایتوں سے مشہور کی گئی ہیں، جن کا ثبوت مستند معاصر تاریخوں میں نہیں، بہت بعد کی کسی کتاب میں ان کا ذکر ہے تو وہ قابل قبول نہیں، ان کا اصرار یہ رہا کہ جن مسجدوں میں برابر نمازیں ہوتی رہی ہیں ان میں اسی طرح نمازیں پڑھی جانی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔