مسلم خواتین بل کی حقیقت اور مسلم خواتین کا ردعمل

عمیر کوٹی ندوی

مسلم خواتین (شادی کےحقوق کا تحفظ) بل 2017 "The Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Bill, 2017″۔ اسے بہت ہی دھوم دھام، کر وفر اور بلند بانگ دعوں  کے ساتھ  تیار کیا گیا تھا، لوک سبھا میں گرما گرم بحث کے بعد پاس کیا گیا تھا، راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا یہاں پر بھی اسے پاس کرنے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں سے لوک سبھا کی طرح تعاون دینے کی اپیل کی گئی تھی لیکن اب تک اس سلسلے میں کامیابی نہ ملنے کی وجہ  سے اسے ابھی  وہاں سے منظوری ملنا باقی ہے۔ اس بل کو تیار کرنے والوں اور پارلیمنٹ میں اسے پیش کرنے والوں نے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے اور اب بھی کررہے ہیں ان میں مسلم خواتین کی مسیحائی سب سے نمایاں ہے۔ کہا گیا اور اب بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم معاشرےمیں خواتین حاشیہ پر ہیں، مظلوم ہیں، دبی ہوئی ہیں اور ظلم کا شکار ہیں۔ مسلم مرد حضرات ایک بار میں تین طلاق دے کر ایک جھٹکے میں ان کی زندگی کو تباہ کردیتے ہیں اور انہیں دنیا میں بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا حکومت اور حکمراں طبقہ تماشہ دیکھے اور مسلم خواتین کی مسیحائی کے لئے آگے نہ آئے؟۔ ‘ تین طلاق’ ایک فقہی مسئلہ ہے اور فقہ میں اختلاف رائے اور ایک دوسرے سے استفادہ کی  بہت گنجائش رہتی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ  اجتہاد کے دروازے  بھی یہاں کبھی بند نہیں ہوتے۔

پہلے اس فقہی اختلاف  کو مسالک و مکاتب فکر کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا  اوراس سے بھی آگے بڑھ کر ان کو آپس میں لڑانے پر پورا زور صرف کردیا گیا۔ اس بات سے انکار نہیں کہ اس کے زیر اثر مسلم معاشرہ بالخصوص اہل علم کے درمیان تین ایک کی بحث چلی لیکن اس حد تک نہیں کہ اغیار کی چالوں میں آکر  اس کے درمیان تفریق پیدا ہوجاتی یا یہ باہم دست وگریباں ہوجاتا بلکہ اس بحث نے افہام وتفہیم کی شکل اختیار کرلی اور اس کے ذریعہ سے پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے لئے دلوں میں وسعت پیدا ہوگئی۔ اسی طرح حکمراں طبقہ کی طرف سے ‘ تین طلاق’ کے تعلق سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ   یہ مسلم خواتین پر بدترین ظلم ہے۔

مسلم معاشرہ میں ہر طرف سے طلاق طلاق کی آوازیں آرہی ہیں گویا اس وقت مسلم مردوں کے پاس طلاق دینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔ایک طرح سے مسلم معاشرہ میں خواتین طلاق کے ڈھیر پر کھڑی ہیں یا طلاق کی آگ میں جل رہی ہیں۔ ‘ تین طلاق’ کے ذریعہ سے حکمراں طبقہ کی طرف سے مسلم معاشرے کو مرد اور عورت کے درمیان تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اپنے بیان وعمل، حرکات وسکنات  سے  یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی اور اس عمل میں میڈیا کا بھی بھر پور استعمال کیا گیا کہ انہوں نے مسلم خواتین کو برسوں کے ظلم سے نجات دلانے کی سمت قدم اٹھایا ہے۔

یہی نہیں بلکہ انہوں نے ‘مسلم بہنوں ‘ پر احسان عظیم کیا ہے۔اس احسان عظیم کا ہی نتیجہ ہے کہ تمام مسلم بہنیں ان کے ‘ساتھ’ ہیں اور ان کی ‘شکر گزار’ ہیں۔ اب جہاں تک بات ‘مسلم بہنوں ‘ کے ان کے’ساتھ’ اور ان کی ‘شکرگزار’ ہونے کی ہے تو اس میں سچائی کہاں تک ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ جن مسلم خواتین  ذکیہ سومن اور حسینہ خان نے سپریم کورٹ میں تین طلاق کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا انہوں نے اس بل  اور اس کے مقصد پر سوالات ہی قائم نہیں کئے ہیں بلکہ اسے مسترد کردیا ہے۔ اسی طرح دیگر فریق سینئر وکیل اور سابق ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل آف انڈیا اندرا جئےسنگھ نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں اس وقت مسلم خواتین نے ملک گیر سطح پر جس کی ایک کڑی 4؍اپریل2018کو دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں ہونے والا بڑا احتجاجی پروگرام بھی ہے کے ذریعہ اس بل کے خلاف علم احتجاج بلند کر کے ‘مسلم بہنوں ‘ کے’ساتھ’ ہونے اور ‘شکرگزار’ ہونے کےحکمراں طبقہ کے  دعووں کو خارج کردیا ہے۔ انہوں نے یہ بتا دیا ہے کہ ان کے تعلق سےانتہائی  غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہے۔ وہ تمام دعووں کو مسترد کرتی ہیں۔   یہی نہیں وہ اس بات کو سمجھتی ہیں کہ ‘تین طلاق’ کے نام پر اسلام، اسلام کے خاندانی نظام، اسلامی تہذیب پر نشانہ سادھا گیا ہے اور مسلم معاشرےکو درہم برہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ بل جس کو ‘شادی کےحقوق کا تحفظ’ کرنے والا بتایا گیا اور اسے نمایاں طور پر پیش کیا گیاہے، اس  کے مشمولات کا مطالعہ بھی بتاتا ہے کہ اس کی زد مسلم معاشرے پر پڑ رہی ہے۔ اسی طرح یہ ملک کے دستور اور قوانین کے خلاف ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ‘تین طلاق’ پر اس کے فیصلہ کو غلط انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلہ کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اقلیتی فیصلہ کو اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے مسلمانوں کےعائلی قوانین کو تسلیم کیا ہے اور اس میں مداخلت سے انکار کیا ہے لیکن اس بل میں دیدہ ودانستہ اس میں مداخلت کی گئی ہے۔ اس بل میں طلاق کے مسئلہ کو  عائلی اور سول لاء کی جگہ کریمنل لاء میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ تین طلاق کے تعلق سے مسلم ممالک کے اقدامات وقوانین کے  حوالے سےدروغ گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس بل کی انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ  اس میں تین طلاق کے معاملہ کو "Cognizable” کے زمرے میں رکھا گیا ہے  جس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ اور اس کے گھر والے ہی نہیں عوام میں سے کوئی بھی  شخص جس کا اس معاملےسے دور دور تک کا بھی تعلق نہ ہو وہ صرف اس بنیاد پر شکایت کر سکتا ہے کہ یہ معاملہ اس کے علم آیا ہے کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے۔ پولس بغیر وارنٹ کے ملزم کو گرفتار کرے گی۔ خود لوگوں کو  بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بھی اس الزام کے تحت ملزم کو از خود پکڑ کر پولس کے حوالے کرسکتے ہیں۔  ملزم کی گرفتاری غیر ضمانتی ہوگی اور عدالت سے ہی اس کی ضمانت ہوگی۔ اس کے برخلاف ہندو میرج ایکٹ میں تعدد ازدواج کا معاملہ "Non-Cognizable” ہے یعنی صرف بیوی اور اس کے والد کوہی شکایت کا حق ہے اور یہ قابل ضمانتی جرم ہے۔

مسلم خواتین نے صاف کردیا ہے کہ گرچہ  وہ چہار دیواری کے اندر رہنا پسند کرتی ہیں اوران کا دائرہ عمل مسلم خاندان اور مسلم معاشرہ کی تربیت وتعمیر، تعلیم وتہذیب ہے لیکن اسلام پر آنچ آنے پر وہ سڑکوں پر نکلنا، ظلم کے خلاف علم احتجاج بلند کرنا، ظلم کو ظلم کہنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا بھی جانتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ سڑکوں پر نکلنے کے باوجود ان کے یہاں شریعت کی پاسداری بھی ہوتی ہے اور ملک کے دستور پر عمل بھی ہوتا ہے۔ زباں پر گالی گلوج، چیخ وپکار، نعرے بازی اور اشتعال انگیزی نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے کی حمد وثنا ہوتی ہے۔ امن وامان کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے اور اس بات کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کے احتجاج سے دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ  وہ حکمراں طبقہ کی ہنگامہ آرائی اور دروغ گوئی سے متاثر ہوکر اسلام اور مسلم معاشرہ سے باغی نہیں ہوئی ہیں بلکہ  اس عمل نے ان کے عزم واستقلال میں مزیداضافہ کیا ہے اور مسلم معاشرہ  بھی پہلے سے زیادہ باہم شیر وشکر ہوا ہے۔ اللہ کی رحمت سایہ فگن ہے اوراس کی حکمت وتدبیرسب پر غالب ہے۔

تبصرے بند ہیں۔