پروفیسر مشیر الحسن: حیات و خدمات کے درخشاں پہلو

ڈاکٹر قاضی عبدالرشید

پروفیسر مشیرالحسن کی وفات برصغیر ہندوپاک کے عہد قدیم عہد وسطی اور عہد جدید کی تاریخ دانی کے باب میں ایک بڑا خسارہ اور ایک بھاری نقصان ہے جس کا پر ہونا شاید حقیقی معنوں میں مشکل لگتا ہے۔ کیونکہ اکثر یہ ایک ڈپلومیٹک جملہ یے جو ہم سب عام طور پر کسی بڑی شخصیت کے چلے جانے پہ استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم مسلم تاریخ دانوں کی بات کریں تو پروفیسر مشیر الحسن صاحب اس باب میں ایک استثناء اور ایک خاص امتیاز ہیں، جنہوں نے ہمارے برصغیر ہندوپاک کی تاریخ بڑی گہرائی وگیرائی کے ساتھ اور بہت متعدد ومتنوع مصادر ومراجع کے ذریعے پڑھی تھی۔ انھوں نے بلا کسی استثناء کے سارے بڑے ہندو مسلم اور انگریز مورخین کی کتابوں اور اسی طرح سے ان مصادر ومراجع تک بھی پہونچنے کی کوشش کی جہاں سے ان قدیم مؤرخین اور تاریخ دانوں نے استفادہ کیا تھا، جسکی دلیل بذات خود ان کی تحقیقی کتابیں اور تحریریں ہیں اور پھر اس  تاریخ کے مختلف ادوار کے  گہرے اور وسیع مطالعے اور اس کے نتیجے میں دقیق گہرے اور عملی نتائج تک وہ پہونچے، وہ اپنی ذات میں خود ایک قابل اقتدا نمونہ ہے۔

میرے خیال میں ایک تاریخ دان کی سب سے بڑی پرابلم  یا مثبت بات یہ ہیکہ وہ سیکولر کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہیکہ تاریخ کے متعدد مراحل میں انسانی نفسیات کی مشابہت ایک ہی طرح کی خواہشیں ایک ہی طرح کی ضروریات اور انسانی فطرت کے اندر پائے جانے والے ہر طرح کےتماثل وتشابہ کے نتیجے میں جو کہ دین ومذهب اور افکار و نظریات وخیالات کی حدود سے ماوراء ہوتا ہے۔ اسکے نتیجے میں اس کے اندر سے  ایک ایسا انسان نکل کر آتا ہے جسکی نظر نظریاتی تقسیم کی حدود سے آگے ہوتی ہے وہ یہ سمجھتا ہیکہ مختلف مراحل میں آنے والے نظام بادشاہتیں حکومتیں نظریات افکار کے اختلافات اور دین ومذهب کی تقسیمات اور کشمکش  کو صرف اپنے اقتدار کرسی اور ذاتی وشخصي مصلحتوں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ قوموں کا افیون ہے اور اس افیون کو یہ طبقہ ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے خوب استعمال کرتا ہے کررہا ہے اور کرتا رہیگا۔ دنیا کے متعدد ملکوں کی حکومتیں ان کے اعلانیہ وغیر اعلانیہ ایجنڈے اور اقتدار وکرسی کی خاطر انکی آئے روز کی قلابازیاں اسکی بہترین ہیں چہ جائیکہ ہم تاریخ کے اوراق اور صفحات میں تلاش کرنے جائیں۔ ہمیشہ عوام اور سماج کے بکھرے اور منقسم مظلوم ومقہور اور غریب وپسماندە طبقات کی مجبوریاں اور کمزوریاں ان لوگوں کے لئے طاقت وقوت کے راز ہوتے ہیں وہ عربی کا مقولہ ہیکہ "مصائب قوم عند قوم فوائد  يا منافع” اور اسی طريقے سے "فرق تسد” جیسے مقولات کا بڑی چالاکی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور غریبوں کو مزید چیر پھاڑ کر فسادات کروا کریا جو بھی ہتهکنڈہ ان کے بس میں ہوتا ہے اور انھیں مناسب لگتا ہے یہ اسے استعمال کرلیتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ پھر ان کے ہمدرد بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ شکار ہر حالت میں وہ مظلوم ومقہور اور مجبور آدمی ہوتا ہے، جس کا دماغ غربت پسماندگی اور روٹی کپڑا، مکان اور دوا دارو کی مجبوریوں نے فیل کر رکھا ہوتا ہے۔ یقینا ان سارے مظاہر کو مشیر صاحب مرحوم نے تاریخ کے اوراق اور موجودہ عوامی صورتحال کی روشنی میں بڑی دقت اور گہرائی وگیرائی کے ساتھ پڑھا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ اس اعتبار سے تاریخ دان انسانی نفسیات کا بھی بہت ماہر ہوجاتا ہے۔

عام لوگوں اور مسلمانوں کی طرح مجھے بھی مشیر صاحب مرحوم کے اس موقف سے بہت سخت اور واضح اختلاف ہوا تھا جو انھوں نے سلمان رشدی کی "شیطانی آیات” کے تعلق سے اپنایا تھا اور پھر انھیں  اسکی کچھ نہ کچھ قیمت بھی ادا کرنی پڑی اس بات کو لیکر ان پر حملہ بھی ہوا تھا اور یقینا وہ اختلاف باقی اور برقرار ہے کیونکہ تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں ہم اسے اپنے تشخص کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور وہ ہماری مذہبی بنیادوں سے خطرناک حد تک چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ اس لئے اس موقف میں عام مسلمان کی طرح ہمارے لئے بھی ان سے کوئی افہام و تفہیم ممکن نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ علمی بحث وتحقيق اور تاریخ دانی کے باب میں ان کی بھاری بھرکم شخصیت کا اعتراف نہ کریں، ان کے تئیں عام مسلمان کی طرح سے میرے دل میں بھی ایک کراہیت تھی لیکن ایک واقعے نے اس صورت حال کو تھوڑا سا تبدیل کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مشیر صاحب جامعہ ملیہ کے پروڈکٹ تھے اور ساری زندگی اس سے متعلق بھی رہے۔ میں نے بھی ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں جامعہ ہی سے حاصل کیں۔  تقریبا دس بارہ سال قبل کی بات ہے جب کہ میں  جامعہ کے ایڈمنسٹریشن بلاک میں تھا اور ادھر ادھر گھومنے پھرنے اور جامعہ سے متعلق اپنی یادوں کوتازہ کرنے کی غرض سے موجود تھا تو سامنے دیکھا کہ عہد قدیم وغیرہ کی تاریخ کے کسی پر لیکچر کا بورڈ لگا نظر آیا۔ برائے وقت گزاری اندر داخل ہوا تو دیکھا مشیر صاحب مرحوم کا لیکچر چل رہا تھا۔ صرف پانچ منٹ مشیر صاحب کو سنا تو میں ان کی علمی وسعت گہرائی وگیرائی اور تاریخ پر انکی وسیع اور دقیق نظر اور مطالعے پر میں حیران وششدر رہ گیا۔ اس بات کا اعتراف ہوا کہ اپنے فن میں شاذ و نادر ہی اس آدمی کا ثانی ملے گا۔ اپنے اس لیکچر میں مشیر صاحب نے مطالعے اور بحث و تحقیق کی روز افزوں بگڑتی صورتحال پر بڑے دکھی لہجے میں افسوس کا اظہار کیا تھا اور انکی یونیورسٹیوں میں باحثین اور ریسرچ اسکالرس کی نقل اور  انتہائی بے ڈھنگی کٹ پیسٹ کی صورتحال کا ذکر کیا اور کہا کہ جب ہم اور بحث و تحقیق کرنیوالے نوجوان اس حد تک پہونچ رہے ہیں۔ ہماری پسماندگی کیسے ختم ہوگی اور ہماری ترقی کا خواب کیسے پورا ہوگا مجھے لگتا ہیکہ مشیر صاحب مرحوم کتابوں میں کھوئے رہنے والے آدمی تھے مطالعہ اور بحث و تحقیق انکی خاص دلچسپی کے موضوعات تھے جن میں وہ اپنے آپ کو گم رکھتے تھے اور گم رکھنا چاہتے تھے اسی لئے  ہم انھیں جامعہ کے کیمپس میں بہت کم دیکھتے تھے۔

 جب مشیر صاحب مرحوم وائس چانسلر بن کر آئے تو یہ افواہیں بڑی سننے آتی رہیں انکے معاصرین میں کچھ لوگ بڑے چیں بجیں تھے کیونکہ وہ اپنی ذات سے آگے مشیر صاحب کی ذات میں کوئی ایسی خصوصیت یا خصوصیات نہیں دیکھتے تھے کہ ان کو چھوڑ کر مشیر صاحب کو یہ اعلی پوسٹ دی جائے معاصرانہ چشمک ایک فطری بات ہے لیکن حقیقت میں علمی اور تحقیقی میدانوں میں وہ لوگ انکی ترقیوں وکامیابیوں اور انکے إنجازات کی گرد تک بھی نہیں پہونچ پاتے تھے۔

 یہ بات بھی اپنی جگہ ایک معنی رکھتی ہیکہ بعض اوقات عبقری انٹلیکچول اور ذہین انسان ذہانت میں اس بلندی تک چلے جاتا ہے جہاں سے بغاوت شروع ہوجاتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر مواقف اپنانے میں اور بعض اس طرح کے بیانات دینے میں بہتری سمجھتاہے۔ اس کو لگتا ہیکہ اس سے اسکی شخصیت اور ذات کو مزید تقویت اور کچھ عہدے ومناصب حاصل ہوسکتے ہیں۔ سلمان رشدی والے معاملے میں ممکن ہیکہ میرا یہ تجزیہ حقیقت سے قریب ہو یہ بھی بہت ممکن ہیکہ تاریخ کے وسیع مطالعے اور اس میں انسانی نفسیات کے مطالعے نے بھی ان کو ان نقاط اور مواقف کی طرف نشاندہی کی ہو لیکن میرا خیال ہیکہ مشیر صاحب کو جامعہ سے اور جامعہ کو مشیر صاحب سے فائدہ پہونچا اور دونوں نے ایک دوسرے کے وقار کو بڑھایا۔

جہاں وہ چلے گئے ہیں وہاں انکے مواقف کا فیصلہ کرنے والا کرے گا اور وہی ہمارا بھی فیصلہ کریگا ہمارے پاس کوئی امکان اور طاقت نہیں ہیکہ ہم ان کے بارے میں کوئی فتوی دیں اور نہ ہم ان کے اندرون اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں، لیکن اپنے موضوع اور اپنے میدان میں وہ ایک ایسی شخصیت تھی جس کا اعتراف تو کیا ہی جاتا ہے اور اسکو بهلانا بہت مشکل ہوگا۔ بلکہ برصغیر ہندوپاک کے عہد قدیم عہد وسطی کی تاریخ دانی اور اس کو لکھنے کے باب میں ان کا نام بڑے واضح لفظوں میں لکھا جاتا رہیگا۔

أذكروا محاسن موتاكم کے مدنظر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور انکی مغفرت فرما کر جنت میں جگہ عطا فرمائے اور شخصیت کا نعم البدل عطا فرمائے۔

مشیر صاحب شخصیت ایسی نہیں تھی کہ اس پر میرے جیسا متوسط درجے کا آدمی خامہ فرسائی کرے بلکہ ان کی متعدد الأوصاف والميزات شخصیت پر بہت کچھ لکھا جائیگا مقالات لکھے جائیں گے ہندوپاک کے علمی ثقافتی اور تاریخ داں حلقے انکی ذات انکی صفات اور امتیازات پر نمبر نکالیں گے انگریزی صحافت بھی اور میڈیا کی ساری اقسام ان بہت کچھ لکھیں اور بولیں گی، جس انکی بہت سارے گوشے اور مختلف پہلو تاریخ دانی کے باب میں ان کی بے بہا کامیابیوں اورترقیوں متعدد ومتنوع دریچے وا ہوں گے اور قارئین ولوگوں انکی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔