کیا تھیٹر کے سیاسی اداکاروں سے ملک کا بھلا ہوگا؟

عبدالعزیز
ہندستان میں سیاسی بحث و مباحثہ میں تیزی کے ساتھ گراوٹ پیدا ہورہی ہے جس سے دلائل اور ثبوتوں کی جگہ تھیٹر (تماشہ گاہ) کا وہ رنگ پیدا ہورہا ہے جہاں طعنہ زنی، تمسخر اور نقالی کو پسند کیا جاتا ہے، ذہن سازی کے بجائے ذہن کو بگاڑنے کا کام ہوتا ہے۔ سیاست میں کثافت اور گندگی پہلے بھی تھی مگر بحث و مباحثہ میں کچھ نہ کچھ سنجیدگی اور متانت پائی جاتی تھی جس سے اس قدرذہنی آلودگی نہیں ہوتی تھی جس قدر اس وقت دیکھنے میں آرہی ہے۔
پارلیمنٹ کا سیشن جاری تھا۔ مسٹر نریندر مودی حسب معمول نوٹ بندی پر چپی سادھے ہوئے تھے۔ ساری کی ساری اپوزیشن پارٹیاں چاہتی تھیں کہ مودی جی نوٹ بندی کی مشکلات پر منہ کھولیں مگر کوئی تحریک کوئی کوشش ان کے منہ پر سے تالا ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی جبکہ وہ پارلیمنٹ سے باہر دھواں دھار تقریریں کر رہے تھے اور سیاسی کرتب دکھا رہے تھے۔
نوٹ بندی کے معاملات گرم ہی تھے کہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے ایک اور محاذ کھول دیا۔ پہلے تو انھوں نے کہاکہ اگر انھیں پارلیمنٹ میں بولنے دیا گیا تو سیاسی زلزلہ آجائے گا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں مسٹر گاندھی اس لئے بولنا چاہتے تھے کہ ان کی باتوں کی ریکارڈنگ ہوجائے گی اور مودی جی اس لئے نہیں بولنا چاہتے تھے کہ وہ ریکارڈنگ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ عوامی جلسہ میں غیر محتاط انداز سے بولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اب تو پارلیمنٹ میں بھی تھیٹر اور جلسہ گاہ کا رنگ حاوی ہوتا جارہا ہے پھر بھی مودی جی پارلیمنٹ میں بولنے سے کتراتے رہے۔
راہل گاندھی کو پارلیمنٹ میں جب بولنے نہیں دیا گیا تو ان پر سیاسی پارٹیوں کا دباؤ ہوا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر بولیں۔ اگر نہیں بولیں گے تو اپوزیشن پارٹیوں کی سبکی ہوگی۔ آخر کار راہل گاندھی نے مودی جی کا انتخابی حلقہ (گجرات) میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ مودی جی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو سہارا گروپ اور برلا گروپ سے کروڑوں روپئے رشوت لی تھی۔ دونوں گروپوں کے کھاتے اور ڈائری میں رشوت خوری کی رقمیں درج ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی سے پہلے بی جے پی کے ترجمان نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ مودی جی گنگا کی طرح مقدس ہیں۔ ان پر تہمت لگانا اپنے آپ کو نیچے گرانا ہے۔ انھوں نے راہل گاندھی کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی۔ ان سے بھی کوئی جواب بن نہ پڑا۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی بنارس یونیورسٹی کے کیمپس کے جلسہ میں جواب دینے کھڑے ہوئے تو ان کا انداز بالکل ایک فلمی اداکار جیسا تھا۔ انھوں نے بھی جواب دینے کے بجائے ہاتھ پاؤں ہلاہلاکر انگلیوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں راہل گاندھی کے الزامات کے جواب دینے کی کوشش کی۔ موصوف نے کہاکہ زلزلہ آیا مگر کوئی نقصان نہیں ہوا یعنی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مودی جی کو تو صاف صاف کہنا چاہئے تھا کہ انھوں نے رشوت لی ہے یا نہیں۔ جیسے وہ اپنی پارٹی کے بچاؤ میں اکثر و بیشتر بولتے رہتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے آج تک ایک روپیہ بھی کسی سے رشوت نہیں لی ہے۔ جب سشما سوراج، وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان کا معاملہ سامنے آیا تھا تو سارے ثبوت کے باوجود مودی جی نے لال قلعہ کی فصیل سے عوا م کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ان کی پارٹی کے کسی فرد یا ان کی کابینہ کے کسی وزیر نے ایک روپیہ بھی بطور رشوت نہیں لیا۔ اس وقت مودی جی کا انداز تھیٹر کے ایک اداکار جیسا نہ تھا لیکن جب وہ اپنی صفائی دے رہے تھے تو انھوں نے سامعین کو اپنے سیاسی کرتب سے لطف اندوز کر رہے تھے۔
مسٹر گاندھی کا انداز بھی کوئی اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اہم سے اہم بات کو جس لب و لہجہ میں کہتے ہیں اس کا وزن بھی گھٹ جاتا ہے۔ اگر چہ مودی جیسا ان کا انداز نہیں ہوتا۔ روزنامہ ٹیلیگراف اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ
"Mr. Modi and Mr. Gandhi are actors in the same play, except that the former is the more seasoned actor and probaly has a better script.” (24.12.2016)
کہا جاتا ہے کہ شروع شروع میں مودی جی فلمی دنیا کے اسکرپٹ رائٹر محمد سلیم سے اپنی تقریریں لکھوایا کرتے تھے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے کہا نہیں جاسکتا مگر مودی جی کا ڈائیلاگ فلمی دنیا کے اداروں جیسا پہلے بھی ہوتا تھا، آج بھی اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
تماشہ گری یا خطابت (Histrionics and oratory) اگر چہ سیاست دانوں کا ہتھیار ہوتا ہے مگر سیاست کو تھیٹر کا رنگ دینا انتہائی گھٹیا کام ہے۔سیاست کا کام تو یہ ہے کہ اچھی اور بہتر حکومت کے ذریعہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا جائے۔ صرف اپنے سیاسی کرتب اور فن سے ووٹ حاصل کرنا یا ووٹوں کی سیاست کرنا سیاست نہیں ہے۔ طعنہ زنی، مضحکہ خیزی سے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے الزام تراشی بھی گھٹیا درجہ کا کام ہے۔ کسی اچھے سیاست داں کا کام نہیں ہوسکتا۔
دیکھا جائے تو نریندر مودی یا راہل گاندھی دونوں کسی صحت مند بحث و مباحثہ سے دلچسپی نہیں رکھتے جو عوام کی زندگی پر اچھا اثر ڈالے۔ دونوں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ اس وقت جو مودی اور گاندھی کی لڑائی ہے حقیقت میں مفسدانہ اغراض کی جنگ ہے جس میں اخلاق، انسانیت اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ آج کے سیاست داں خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، جھوٹا دعویٰ لے کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بہت سے بے وقوف انسان جو ان کے قبضہ قدرت میں ہیں ان کی لڑائی کو حق و انصاف کی لڑائی سمجھ کر ان کی ناپاک خواہشات کے حصول میں مدد گار بن جائیں اور وہ بہت سے خوشامدی لوگ جو اپنے ذلیل اغراض کیلئے ان کا ساتھ دینے پر آماد وہ ہیں، اپنے آپ کو ایک مقصد حق کا حمایتی بناکر پیش کریں اور سرخرو بن جائیں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔