ہم جنس پرستی کو آئینی درجہ دلانے میں ہمارے سماج کا کردار

عادل فراز

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب ہم جنس پرستی ہندوستان میں جرم نہیں ہے۔ یہ غیر فطری عمل جسے فطری تقاضہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کو قانونی حیثیت دیدی گئی ہے۔ جبکہ ۲۰۱۳ ؁ء میں عدالت عظمیٰ نے بدفعلی کو غیر فطری اور غیر قانونی عمل قراردیا تھا مگر اب عالمی میڈیا اور سماجی و سیاسی دبائو میں اس عمل کو قانونی درجہ دیدیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد ہندوستان میں ہم جنس پرست مرضی کے مطابق سیکس کے لئے آزاد ہیں۔ ہندوستان میں جس قانون کو انگریزی سرکارنے بھی غیر فطری عمل تسلیم کرتے ہوئے غیر قانونی قراردیا تھا اب اس دفعہ ۳۷۷ میں ترمیم کرکے عدالت عظمیٰ نے تاریخی فیصلہ دیاہے۔ تاریخی اس لئے کہ پانچ ججوں کی بینچ نے انگریزی سرکار کےفیصلے کو غیر جمہوری قراردیتے ہوئے ہر انسان کو اسکی مرضی کےمطابق زندگی گزارنے کاحق دیاہے۔ اس فیصلے کے بعد وہ طویل مدت قانونی جنگ بھی ختم ہوگئ ہے جو ہم جنس پرست اپنے سماجی و ذاتی حقوق کے حصول کے لئے لڑ رہے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ ہندوستانی آئین کو ایل جی بی ٹی برادری سے معذرت کرنی چاہیے۔ عدالت نے کہاکہ کوئی بھی برادری خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو مگر اسے کسی بھی مقامی خوف و دہشت کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے۔ لہذا اب ہم جنس پرستی قانونی دائرے میں ہے اور ایل جی بی ٹی برادری بغیر خوف اور دہشت کے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارسکتی ہے۔

جسٹس اندو ملہوترا نے تو یہاں تک کہدیا ہے کہ ’’ہم جنس پرستی پوری طرح فطری عمل ہےجو انسان کے اندر موجود جنسی رجحانات کا حصہ ہے۔ لیکن سماج کی جہالت کی بنیادپر انہیں مصیبتیں جھلینی پڑیں‘‘۔ قابل غور یہ ہے کہ جب عدالت عظمیٰ یہ تسلیم کرچکی تھی کہ ہم جنس پرستی فطری عمل ہےتو پھر اس فیصلےپر کسی کو حیرت زدہ نہیں ہوناچاہئے۔ اگر عدالت عظمیٰ یہ مانتی ہے کہ یہ ایک فطری رجحان ہے تو پھر اس فیصلے کو آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟یا پھر عدالتی فیصلہ کسی سیاسی جبر کی بنیاد پر سنایا گیا فیصلہ ہے؟۔ عدالت عظمیٰ نے کہاکہ ’’ہم جنس پرستی کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے اسکے لئے سرکارکو عوام میں بیداری لانے کے لئے تحریک چھیڑنی ہوگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس پر انسان کااختیار نہیں ہوتا، اس بنیاد پر یہ دفعہ غیر آئینی ہے‘‘۔ دفعہ ۳۷۷ پر تمام ججوں کے ردعمل متحیر کن ہیں۔ ان کے بیانات کے مطالعہ کے بعد اس فیصلے کی حقیقت راز نہیں رہتی۔ ان بیانات کے ساتھ ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا کہ آخر عدالت عظمیٰ نے دفعہ ۳۷۷ کوختم کرکے ہم جنس پرستی کو آئینی حیثیت کیوں دیدی؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دانستہ یا نادانستہ طورپر ہم بھی اس فطری جرم کو آئینی حیثیت دلانے میں اپنا تعاون دے رہے تھے۔

ہندوستان میں دفعہ ۳۷۷ کو ختم کرنے کا مطالبہ نیا نہیں ہے۔ ۲۰۰۹ ؁ء میں جب دہلی ہائی کورٹ نے اس دفعہ کو خارج کردیا تھا اور ہم جنس پرستی کو غیر فطری عمل تسلیم کیا تھا، اس وقت ایل جی بی ٹی برادری سڑکوں پر اترآئی تھی۔ صرف ایل جی بی ٹی برادری ہی نہیں بلکہ پورا لبرل اور سیکولر سماج انکی حمایت میں نکل آیا تھا۔ اسی وقت یہ محسوس ہوگیا تھاکہ اب ہندوستان میں دفعہ ۳۷۷ کی عمر بہت لمبی نہیں ہوگی۔ لبرل اور سیکولر طبقہ کی حمایت نے ہی آج ہم جنس پرستی کے قانون کو ہندوستان میں آئینی درجہ عطا کیاہے۔ لہذا ہم جنس پرستوں کو سڑکوں پر خوشیاں منانے سے پہلے اس طبقہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے جنکی حمایت کی بنیاد پرعدالت عظمیٰ نے انکے حق میں فیصلہ دیاہے۔ اگر یہ طبقہ انکے حقوق اور ذاتی زندگی کو مرضی کے مطابق گزارنے کے لئے جدوجہد نہ کرتا توممکن نہیں تھاکہ ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو آئینی درجہ مل پاتا۔ عدالتی فیصلے کے بعدیہ لبرل و سیکولر سماج اب مزید طاقتور ہوکر ابھرے گا اور نہ جانے ایسے ہی کتنے قانون ہیںجن میں ترمیم و تنسیخ کی آوازیں اٹھیں گی۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ہم جنس پرستی کو ہندوستان میں آئینی درجہ کیوں دیا گیا ؟وہ کون لوگ ہیں جو دفعہ ۳۷۷ کے خلاف ایل جی بی ٹی براداری کی حمایت کررہے تھے۔ ؟کیونکہ جب تک ہم ان افراد کو نہیں پہچانیں گے اسوقت تک ہندوستان میں اس قانون کی اہمیت اور ضرورت کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ لوگ سماج میں بہت محدود نہیں ہیں۔ انکی سماجی زندگی اس قدر پردۂ خفا میں کیوں ہےیہ بھی اب راز نہیں ہے۔ انکے بارے میں تقریباََ پورا ملک جانتاہے کہ جس وقت ملک میں ہم جنس پرستی غیر قانونی تھی اس وقت بھی وہ لوگ چھپ چھپاکر یہ عمل انجام دیتے تھے۔ اور آج جبکہ دفعہ ۳۷۷ کو غیر آئینی قراردیدیاگیاہے اب بھی وہ افراد اس عمل کو انجام دینے کے لئے منظر عام پر نہیں آئیں گے۔ یعنی ہر صورت میں وہ اپنی ذاتی زندگی اور غیر فطری عمل کو عوامی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ذرا غورکریے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہیں فطری تقاضوں کے تحت شادیاں کرنے سے سخت بیر رہاہے۔ اگر عدالت یہ تسلیم کرتی ہے کہ’ہم جنس پرستی فطری عمل ہے جس پر لوگوں کا اختیار نہیں ہے اس لئے اسے قانونی حیثیت دی گئی ہے‘،توپھر ’’جنس پرستی‘‘یعنی ’سیکس ‘بھی ایک فطری عمل ہے جس پر لوگوں کا اختیار نہیں ہوتا۔ اسکے باوجود ایک پورا طبقہ اس فطری عمل کے خلاف منظم تحریک چلاتا آیاہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس منظم تحریک کو الگ رنگ و روپ میں پیش کیاگیاجس پر ’’جنس پرستی ‘‘ یا ’’ ہم جنس پرستی ‘‘ کاالزام نہیں ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے دلائل کے بعد یہ سوال ضرور اٹھتاہے کہ آخر یہ مخصوص طبقہ آج تک کس طرح اپنےفطری تقاضوں کو دباتا آیاہے۔ کیا ہمارا قانون اس طبقہ کے ’’منظم جنسی کھیل‘‘ کا پردہ فاش کرسکتاہے۔ کیا عدالت عظمیٰ کو یہ علم تھا کہ یہی لوگ اپنے جرائم کو قانونی جواز دینے کے لئے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لئے جنگ لڑرہے تھے۔ ہم جنس پرستوں سے زیادہ ان لوگوں کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں جنکا ’’جنسی کھیل‘‘ابھی تک مذہب اورسیاست کے پردوں میںڈھکا ہواہے۔ چونکہ ہندوستان میں یہی طبقہ دہشت اور انارکیت کو فروغ دے رہاہے لہذا ہمیں امید نہیں ہے کہ ان لوگوں کے جنسی جرائم کبھی منظر عام پر آسکیں گے۔

ہم تسلیم کرتےہیںکہ سیکس ایک فطری عمل ہے جس کے تقاضے ہر انسان کے اندر پائے جاتےہیں۔ ان فطری تقاضوں کو وقتی طورپر دبایا ضرور جاسکتاہے مگر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد بھی لوگ اس فطری تقاضہ کا گلا نہیں گھونٹ سکے اور بڑے بڑے سادھو سنت آج قیدخانوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر اس تقاضہ کو مکمل طورپر ختم کیا جاسکتا تو سماج میں اس قدرانارکی اور درندگی کا فروغ نہ ہوتا۔ سماج میں دن بہ دن بڑھتا ہوا جنسی جرائم کا گراف یہ بتاتا ہے کہ اس فطری تقاضہ کی تکمیل کے لئے انسان کس حدتک جاسکتاہے۔ یعنی وہ جبر و زیادتی اور قانون شکنی سے بھی باز نہیں آتا۔ وہ بخوبی جانتاہے کہ اس غیر قانونی عمل کی انجام دہی کےبعد اس کا انجام کیا ہوگا مگر چونکہ اس وقت انسان جنسی تقاضہ کے تحت اندھا ہوچکا ہوتاہے لہذا وہ اپنے دنیوی اور اخروی انجام سے بے پرواہ اس عمل کو انجام دیتا ہے۔ انسان انہی تقاضوں کی ادھوری تکمیل کی بنیادپر ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوتاہے۔ کیونکہ آج شادی کے لئے سماج میں اتنی حد بندیاں اور شرطیں عالم وجود میں آگئی ہیں جو انسان کےفطری تقاضے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں،لہذا وہ غیر فطری راستے اختیار کرکے اپنے جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرتاہے۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کو آئینی درجہ دلانے میں ہمارے سماج کی ان بے تُکی اور غیر ضروری حدبندیوں اور شرائط کا بھی بڑا دخل ہے۔ اس طرح جتنالبرل اور سیکولر طبقہ فطرت کا مجرم ہے اتنا ہی ہمارا سماج بھی مجرم ہے جو انسان کو غیرفطری راستے اختیار کرنے پر مجبور کردیتاہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم جنس پرستی کو آئینی حیثیت دیے جانے کے خلاف تحریک چھیڑنے سے پہلے اپنے سماج کو بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کے طریقوں پر غورو فکر کریں۔ ان عوامل کو تلاش کرکے ختم کرنا ہوگا جو انسان کو غیر فطری راستے اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارا سماج ہی ایسے جرائم کو فروغ دینے میں معاونت کرتاہے کیونکہ فطری تقاضوں کی تکمیل کے جوراستے قدرت نے فراہم کئے ہیں ان پر چلنا انسان کے لئے مشکل کردیاجاتاہے، اسکے بعد ہی انسان جرم کی دنیا کا رخ کرتاہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سماج کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوںکہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور ہمارا پوراسماج اس بیماری کا شکار ہوکررہ جائے، جیساکہ ہوچکاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔