ہندوستان میں اجتماعی زکوٰۃ کا نظم: ایک لائحہ عمل

ایچ عبدالرقیب

مترجم :محمد سیفی عمری

زکوٰۃ سے دولت کا ایک بڑا حصہ غریبوں کو منتقل ہوتا ہے۔ (دی گارجین)

  ہر صاحب ِنصاب مسلمان کو اپنی دولت (جمع پونجی،زیورات،سرمایہ کاری) میں سے 2.5% حصہ بطورِزکوٰۃ ادا کرنافرض ہے۔ زکوٰۃ، اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ لیکن عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس کی جزئیات اور تفصیلات سے نا واقف ہے۔اسلام کے دوسرے ارکان جیسے نمازوحج وغیرہ کے مسائل کی باریکیوں سے لوگ واقف ہیں، لیکن زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے یا تو لوگ صحیح طور پر اس کو ادا نہیں کرتے، یا پھر کچھ زکوٰۃ نکالتے ہی نہیں ہیں۔ زکوٰۃ کو معمولی صدقہ وخیرات سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ایک ایسانظم ہے، جس سے نہ صرف ایمان بلکہ اہلِ ایمان میں بھی ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔

  قرآن نے واضح طور پر زکوٰۃ کی آٹھ(۸) مدات بتائی ہیں۔ بہت سارے لوگ اس کو چھوڑ، چند کلو اناج یا چند کپڑے اور تھوڑے بہت روپیے تقسیم کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ ا س فرض سے سبک دوش ہوگئے، حالاں کہ اس سے غریبوں اور لاچاروں کی حالت میں کچھ بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور اس طرح بے ترتیب زکوٰۃ کی ادائیگی سے اس کے مقصد کے حصول کی تکمیل نہیں ہوتی۔

  ہندوستانی مسلمانو ں کی صورتِ حال پر سچر کمیٹی رپورٹ، نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی SNAP رپورٹ اور ماضی قریب میں ڈاکٹرکریسٹوفر جیفر لاٹ (Chirstopher Jafferlot) کی پیش کردہ رپورٹس، ان کی بدحالی اور معاشی ابتری کی تصویر کو واضح کرتی ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق ہندوستان کے ہر چوتھے بھکاری کا مذہب اسلام ہے اور ان میں بھی زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ آبادی کے تناسب سے قیدخانوں میں بند مسلمانوں کی تعداد دگنی ہے،۱۸ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں میں سے ہر تیسر ا جاہل اور ناخواندہ ہے۔

 غریبوں کی خبرگیری اور انھیں بنیادی ضروریات فراہم کرنا، ہر مسلم سماج پر فرض ِکفایہ ہے۔ غربت کے دو پہلو ہوتے ہیں : (۱)معاشی اور (۲) سماجی۔ روز مرہ کی بنیادی ضروریات، جیسے غذا، کپڑا، مکان اور صاف پانی کی دستیابی معاشی پہلو میں آتے ہیں۔ جب کہ سماجی پہلو میں معلومات تک رسائی، تعلیم اور صحت قابل ِذکر ہیں۔

ہندوستان میں زکوٰۃ کے تصور کو واضح کرنے اور اس کی عملی تنفیذ کے لیے اس مضمون میں دس نکات پیش کیے جارہے ہیں، جس پر آپ غور فرمائیں اور ایک بڑے طبقے تک اس کے پیغام کو عام کریں۔

(۱) عوامی بیداری

  سب سے پہلا قدم عوام میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کے تئیں بیداری پیدا کرنا ہے۔ ساتھ ہی عہد ِنبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں زکوٰۃ کا جو نظم رہا ہے، اس کو واضح کرنا ہے۔اس بات کی وضاحت لازم ہے کہ زکوٰۃ کا حکم عہد ِنبوی میں دیا گیا اور آپ کے جانثار صحابہ کو وصول ِزکوۃ اور تقسیم پر مامور کیا گیا تھا۔

 زکوۃ کا یہ نظام اتنا مؤثر اور بہترین تھا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں لوگ زکوٰۃ لے کر نکلتے، مگر انھیں اس کے حقدار نہیں ملتے۔ ان سنہرے ادوار میں ہمیں غمخوار اور خیرخواہ معاشرے کی بہترین مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔

(۲) زکوۃ کی تحریک سے ایمان دار،متقی اور پیشہ ور افراد کو جوڑنا

 عوامی بیداری کے ساتھ، باصلاحیت مرد وخواتین کو اس تحریک ونظام کے انتظامیہ کا حصہ بنایا جائے۔دین دار افراد کے ساتھ پیشہ ور  افراد اور دانشوران، جنھیں دنیاوی امور کے علاوہ اکاؤنٹس اور آڈٹنگ وغیرہ کی معلومات ہوں، جیسے چارٹرڈاکائونٹنٹ وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے، جس سے نہ صرف ایماندار بلکہ مؤثر نظام تشکیل پائے گا۔

 محلہ میں علاقائی سطح پر مساجد کو مرکز بناتے ہوئے، اس نظام کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

(۳)معاشی تعلیم اور دولت کی پیداوار

ہمارے معاشرہ میں معاشی تعلیم کا فقدان ہے۔دولت پیدا کرنے کے طریقے، جیسے تجارت کرنا یا پرکشش و اچھی ملازمتوں سے جڑنے پر ابھارنا چاہیے۔ ایک پلان تیار کرنا چاہیے کہ بچت کیسے کی جائے اور اس کی سرمایہ کاری کہاں اور کیسے ہو؟ اس کی وجہ سے معاشرے میں عطیہ دہندگان مضبوط ہوں گے اور حقیقی معیشت کا تصور ابھر کر آئے گا، جہاں پر عوام کو ملازمتیں بھی دستیاب ہوں گی۔

  رسول ِاکرم ﷺ کے بازارِمدینہ اور اورام المومین حضرت خدیجہ ؓ کی تجارت کو سامنے رکھ کر مسلمان، فائدہ مند تجارت سے جڑیں۔ عشرۂ مبشرہ میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اورحضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کا شمار آج کے حساب سے ارب پتیوں میں ہوتا ہے۔

(۴) مدراس کے نصاب میں جدید نظامِ زکوۃ کو جگہ دینا

  زکوٰۃ کے سلسلے میں علمائے امت کو پہل کرنی چاہیے۔مدارس میں اس موضوع کو داخلِ نصاب کرنے کے ساتھ ساتھ، مختلف سیمناروں اور جلسوں میں اس پر کام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ عوام الناس کی حقیقی زندگی اور ان کی مصروفیات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے، مختلف قسم کے سماجی ومعاشی سروے کرانا چاہیے۔

  زکوٰۃ کا ہر شعبہ، مختلف قسم کے علوم اور صلاحیتوں کا متقاضی ہے۔ وصول ِزکوۃ کے لیے علم نفسیات، علم الحساب (اکاؤنٹس اور آڈٹ، جس سے حساب وکتاب رکھا جائے)،علم شماریات (جس سے معاشی وسماجی حالات کا سروے ہوسکے )اور ذاتی تعلقات وغیرہ۔ اسی طرح شعبۂ تقسیم ِزکوۃ کے لیے مالی معاملات میں مہارت اور درک کی ضرورت ہوتی ہے۔

 جب اس قسم کے موضوعات کو سمیناروں اور جلسوں کا عنوان بنائیں گے تو علماء ان سے لیس ہو کر، ملک بھر میں بڑے پیمانے پر  زکوٰۃ کی تحریک کوچلایا جائے۔اس سلسلے میں مختلف تنظیموں، خصوصا اسلامک فقہ اکیڈمی اور ورلڈ زکوٰۃ کونسل کو سامنے آنا چاہیے۔

٭مساجد کو زکوٰۃ کے مراکز بنائیں

    تحریک کی شروعات میں، محلہ کی مسجد میں کمیٹی کی تشکیل سے ہو، جس میں عالم ِدین، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور چند سماجی خدمت گار ہوں۔ یہ لوگ اپنے علاقے اور محلہ کا سماجی ومعاشی سروے کرائیں۔ پھر اس کی بنیاد پر وصول ِزکوۃ اور تقسیم ِزکوۃ کا طریقہ کار متعین کیا جائے۔

 چند ایسی خواتین کو بھی اس ٹیم میں شامل کیا جائے، جن کے تعلقات وسیع ہوں اورا نھیں مختلف خاندانوں، خصوصاً عورتوں اور بچوں کے بارے میں معلومات ہوں۔ ان کے ذریعہ سے یہ پیغام بہت تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ کمیٹی یا ٹیم کی تشکیل کے وقت ممبروں کی صلاحیت اور ان کے جذبۂ دینداری کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔

(۵)معاشیاتی ٹکنالوجی فن ٹک (Fin-Tech )کا استعمال

 فن ٹک (معاشیاتی ٹکنالوجی) وصول ِزکوٰۃ اور تقسیم ِزکوۃ میں بہت اہم اور مؤثر رول ادا کرسکتی ہے۔زکوٰۃ کے لین دین کو ڈیجٹلائز کرنے سے سارا نظام متحرک اور مؤثر ہوجاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کو سہولت اور آسانی میسر ہوتی ہے، بلکہ ان میں نظام پر بھر وسہ اور اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سارے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔فن ٹک میں crowd funding کا بکثرت استعمال ہوتا ہے، جس سے عوام کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے توسط سے رقم جمع کرتی ہے۔

  حساب وکتا ب اور آڈٹ کے لیے Block-chain کا بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ Block-chain ایک ایسا نظم ہے، جس میں معلومات کو تبدیل کرنا،تحریف کرنا یا ترمیم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

(۶) زکوٰۃ اور مائکرو فائنانس (چھوٹے موٹے قرضہ جات فراہم کرنا)

  زکوٰۃ کی رقم سے ضرورت مندوں کو چھوٹے موٹے قرض فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے غریبوں اور ضرورت مندوں کی ہنگامی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا ہے۔مگر ہم زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے کے بجائے اس سے سرمایہ کاری کریں۔ یعنی چھوٹے موٹے کاروبار اس سے کھڑے کیے جائیں تو یہ کافی نفع بخش ہوسکتا ہے۔ جب ایک مرتبہ کسی غریب کی تجارت چل پڑے تو نہ صرف اس کی معاشی حالت میں سدھار آسکتا ہے، بلکہ وہ دوسروں کو بھی ملازمت دے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ سے غربت کا خاتمہ تیزی سے ہوسکتا ہے۔

 زکوۃ کے وصول شدگان، عطیہ دہندگان میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ ؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ زکوٰۃ کی رقم سے کم زور اور ضروت مند افراد کو قرض فراہم کرتے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔

(۷)زکوٰۃ سے مہارتوں کو بڑھاوا دینا

   چند ممالک، جیسے ملیشیا وغیرہ میں غریبوں کی درجہ بندی دو حصوں میں کی جاتی ہے :(۱)ایسے غریب ولاچار، جواپنے گزر بسر اور نان و نفقہ کے لیے، خود سے انتظام نہیں کرسکتے،جیسے معمر افراد،بیوہ خواتین،معذور اور مرض الموت میں مبتلا پریشان حال، جنھیں گزارے کے لیے روپیوں پیسوں کے علاوہ، ادویات کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ان کے لیے حکومت کی جانب سے باقاعدہ انتظام کیاجاتا ہے۔

 (۲)دوسری قسم کے غریب وہ ہیں جو باصلاحیت اور خود کار تجارت یا ملازمت کرسکتے ہیں، لیکن ان کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ آگے بڑھ سکیں۔ چنانچہ ایسے افراد کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور انھیں روپیوں پیسوں سمیت ہر قسم کی سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار اور اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوجائیں۔ جب چند ہی سالوں میں ان کی حالت مستحکم ہوجاتی ہے تو وہ لوگ معاشرے کا احسان زکوٰۃ کے عطیہ جات کی شکل میں لوٹاتے ہیں۔

(۸)زکوٰۃ اور غیر مسلم

 حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کی آٹھ مدو ں میں سے ’فقراء‘ سے مراد مسلمان غریب ہیں اور’ مساکین‘ سے مراد غیر مسلم غریب ہیں۔ (الفاروق، حصہ دوم، علامہ شبلی نعمانی۔ڈاکٹر حمید اللہ کے مضامین)

  ہمارے جیسے گنجان ملک میں زکوٰۃ کا تھوڑا سا بھی حصہ، اگر غیر مسلم ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کا مثبت اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس سے دوسرے سماج کے لوگوں میں مسلمانوں کی اچھی تصویر ذہن نشین ہوگی۔ملی ومذہبی طبقے کے علماء اور قائدین اس سلسلے میں مل جل کر مباحثہ کریں اور عملی اقدام سے قبل اجماع یا حتمی رائے قائم کریں۔

(۹)دوسرے ممالک کے مؤثر نظام ِزکوۃ کی کامیاب کہانیاں

 ورلڈ زکوٰۃ فورم کا وجود تقریباً ۴۰ سے زائد ممالک میں ہے، جن میں سے دو ملک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی اقلیت میں ہے۔ملیشیا اور انڈونیشیا میں زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف قسم کی تکنیکوں اور طریقوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے ارادہ BAZNAS نے زکوٰۃ کی رقم کا معاشی، تعلیمی اور سماجی میدانوں میں مؤثر استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ صفائی اور قابل تجدید توانائی Renewable energy میں اس کا کامیاب استعمال کیا ہے۔ملیشیا میں وصول ِزکوٰۃ اور تقسیم کے لیے نئی ٹکنالوجی جیسے فن ٹک کا مؤثر استعمال ہوتا ہے۔

 SANZAF جنوبی آفریقہ کی ایک تنظیم ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی محض 2.3% ہے، لیکن اس کے باوجود مذکورہ تنظیم کئی دہائیوں سے اس ملک میں خدمات انجام دے رہی ہے۔اس تنظیم کی سربراہی دو خواتین کررہی ہیں۔ چیر پرسن محترمہ فیروز محمد اور سی ای او یاسمینہ فرائنٹک ہیں۔ اس تنظیم میں 52%ملازمین خواتین ہیں۔ اس تنظیم کوسماجی میدان میں صلاحیتوں کی تعمیر اور رفاہی کاموں کے لیے کیمبرج، برطانیہ کی بین الاقوامی معاشی ایڈوائزری کی جانب سے عالمی سطح کا بہترین انتظامیہ ایوارڈ دیا گیا۔

 پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں بھی زکوٰۃ کا نظام کافی منظم ہے۔ زکوٰۃ کے اس مشن کی انجام دہی کے لیے قابل ترین اور تربیت یافتہ افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ لوگ زکوٰۃ سے دیہی ترقی اور تعلیم اطفال میں قابل ِذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 برطانیہ میں یوکے زکوٰۃ فائونڈیشن، مختلف میدانوں میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔

(۱۰)زکوۃ اورSDG

  دنیا سے غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ نے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں۔ جن میں سے کچھ اس کرہ ِارض کا تحفظ اور ایسا امن وخوشحالی جس سے سارے لوگ فائدہ اٹھا پائیں۔ Sustainable Development Goals اور زکوٰۃ کے مقاصد (جو مقاصد الشریعہ کے قبیل سے ہیں ) میں قدرے اشتراک ہے۔

 ملیشیا اور انڈونیشیا میں قائم زکوٰۃ تنظیمیں اقوام ِمتحدہ اور یورپی ایجنسیوں کی مدد سے مختلف پراجکٹس پر کام کر چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ان تنظیموں کے اشتراک سے غربت کے خاتمہ اور ہمدرد وغمخوار معاشرہ کی تشکیل میں ہم اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

٭٭٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔