ہندوستان میں بین المذاہب مفاہمت پیدا کرنے میں علماء کا کردار( دوسری قسط)

ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی

مولانا نے اس کے بعد تقریباً دس آیتیں اس مفہوم کی نقل کی ہیں مثلاً یا قوم اتبعونی اھدکم سبیل الرشاد، یا لیت قومی یعلمون وغیرہ اس کے بعد بطور محاکمہ لکھا ہے۔
ان تمام آیتوں میں مسلمانوں اور کافروں کو ایک قوم قرار دے کر ایک کو دوسرے کی طرف نسبت کیا گیا ہے جس میں علاقہ بجز نسب یا وطن اور کیا ہوسکتا ہے(15)
اس طرح لفظ امت بھی قرآن میں مشترک معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے ایک آیت میں ہے: لقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدواللہ واجتنبو الطاغوت۔اس آیت میںلفظ امت قوم کے مترادف معنی میں استعمال ہوا ہے۔
مولانا نے اس کے بعد احادیث مبارکہ سے بھی اپنے دعویٰ کو ثابت کیا ہے خاص طور پر میثاق مدینہ کے ذریعہ انھوں نے اس بات کو مبرہن کیا ہے کہ جب بنی عوف کے یہودی اور مسلمان مل کر ایک قوم ہوسکتے ہیں (ان یہود بنی عوف امۃ مع المومنین) تو ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم کیوں نہیں ہوسکتے، مولانا نے لکھا ہے:
’’ہماری مراد قومیت متحدہ سے اس جگہ وہی قومیت متحدہ ہے جس کی بنا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ میں ڈالی تھی۔ یعنی ہندستان کے باشندے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں بحیثیت ہندستانی اور متحد الوطن ہونے کے ایک قوم ہوجائیں اور اس پردیسی قوم (برطانوی سامراج) جو کہ وطنی اور مشترک مفاد سے محروم کرتی ہوئی سب کو فنا کررہی ہے جنگ کرکے اپنے حقوق حاصل کریں اور اس ظالم اور بے رحم قوت کو نکال کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھوڑ ڈالیں۔ ہر ایک دوسرے سے مذہبی امور میں تعرض نہ کرے بلکہ تمام ہندستان کی بسنے والی قومیں اپنے مذہبی اعتقاد ، اخلاق، اعمال میں آزاد رہیں۔ اپنے مذہبی رسم ورواج اپنے مذہبی اعمال واخلاق آزادی کے ساتھ عمل میں لائیں۔‘‘(16)
ہندستان میں ایک صدی کے اندر بڑی تعداد میں ایسے علماء پیدا ہوئے جنھوں نے یہ پیغام دیا کہ ہندو مسلم اتحاد اور دونوں قوموں میں مذہبی مفاہمت اسلام کے خلاف نہیںہے، بلکہ اسلام اس کی پوری اجازت دیتا ہے کہ تمام سماجی معاملات میں ہندو مسلمان مل کر رہ سکتے ہیں، مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے نفثۃ المصدور کے نام سے اسی موضوع پر جدید تناظر میں کتاب لکھی، اس میں انھوں نے شرعی دلائل کے علاوہ اکابر علماء کی آراء نقل کی ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ اشتراک عمل اسلام کے خلاف نہیںہے۔ (17) ان کے علاوہ بھی متعدد علماء تھے جنھوں نے اس مذہبی مفاہمت کی دعوت دی جس کے نتیجہ میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ بعض علماء نے ایک قدم آگے بڑھاکر ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کے مطالعہ روایت ڈالی اور ایسی کتابیں لکھیں گئیں جن میں ہندو مذہب کا مطالعہ اسلام کے پس منظر میں کیا گیا۔ مولانا سید اخلاق حسین دہلوی نے ویدک دھرم اور اسلام لکھی اور اس میں ہندو مذہب اور اسلام کے درمیان مشترک مذہبی اقدار کو بیان کیا۔ مولانا شمس نوید عثمانی نے اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔ (18) کے نام سے لکھی اور اس میں عندیہ بیان کیا کہ ہندو مذہب بھی ایک آسمانی مذہب ہے اور اصلاً یہ قوم حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہے۔ مولانا سید حامد علی نے جین مذہب اور ہندو مذہب کی کتابوں میں توحید اور دیگر اسلامی عقائد کی مماثلتیں تلاش کیں۔
جدید ہندستان میں نئے تقاضوں کے تحت ہندستانی قومیت اور ہندو مذہب کے مطالعہ کی وسیع روایت قائم ہوئی۔ اگر چہ یہ روایت بہت پرانی تھی ہندو مذہب سے مسلمانوں کی دلچسپی اول دن سے ہی قائم ہے ۔ البیرونی جیسا نادر عصر ہندستانیات بانی مانا جاتا ہے اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی مسلمان ہندو مذہب کا مطالعہ کرتے رہے بغداد کے عہد عروج میں وہاں بہت سے ہندو دانشور موجود تھے ۔مغل حکمراں اکبر کے زمانے میں اس روایت میں مزید توسیع ہوئی۔ بعد میں داراشکوہ، محسن فانی اورمرزا مظہر جانجاناں اور بہت سے دیگر علماء اور دانشوروں نے اس روایت کو باقی رکھا ،لیکن جدید زمانے میں اس روایت کو زیادہ اور متنوع الجہات فروغ حاصل ہوا اور اس کے اثرات بھی زیادہ پڑے خصوصیت کے ساتھ علماء دیوبند نے اس میدان میں بڑی خدمات انجام دیںان کی کوشسوں سے ہندستان کے اندر قومی یکجہتی کی روایت کوفروغ ملا ۔یہ درست ہے کہ اسی دور میں بعض علماء نے مختلف مذاہب کے درمیان اس اجتماعیت کے خلاف بھی رائے دی خاص طور پر مسلم لیگ کے ذریعہ تحریک پاکستان شروع کرنے کے بعد بعض علماء نے مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تشکیل جیسے خوشنما الفاظ کورکھ دھندے میں الجھ کر زندگی کی اصل حقیقتوں کو فراموش کر دیااور قومیت کی نظریاتی اساس کا تصور سراب محض ثابت ہوا پاکستان کی تشکیل کے خود پاکستان میں بنگالی اور غیر بنگالی کی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے قومیت کی نظریاتی اساس کا تخیل وقتی ثابت ہوا اور ہندستانی مسلمانوں کے سواد اعظم نے متحدہ قومیت اور ہندو مسلم قومی یکجہتی کی روایت کو اختیار کیا۔
موجودہ دور میں علماء کی ایک بڑی تعداد ہے جس نے مسلم غیر مسلم تعلقات پر کتابیں لکھی ہیں، ان کی کتابیں بڑی تعداد میں شائع ہوئی اور نوجوانوں میں ان کے افکار کی بڑے پیمانے پر اشاعت ہوئی۔ ان کتابوں میں عام طور پر نصوص شرعیہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ سماجی سطح پر غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا عین شریعت کا منشاء ہے۔ اس سلسلے میںمولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سعود عالم قاسمی، مولانا اختر امام عادل اور مولانا جلال الدین عمری کی تصنیفات بہت اہم اور بہت مقبول ہیں۔ فقہ اکیڈمی آف انڈیا نے خاص اسی موضوع پر ایک سیمینار منعقد کرایا اس میں ہندستان کے چیدہ علماء کی تحریریں ایک جگہ جمع ہوگئیں۔ اسی طرح مختلف مدارس اور مسلمانوں کی عصری جامعات میں بھی اس موضوع پر یا اس سے ملتے جلتے موضوع پر سیمینار کرائے۔ ان کی پروسیڈنگ شائع ہوئی ہیں۔
مولانا وحیدالدین خاں ایک عالمی شہرت یافتہ ہندستانی عالم ہیں جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر ان کے اثرات بہت نمایاں ہیں ان کی بنیادی دعوت یہ ہے کہ مسلمان یک طرفہ پر ہندو مسلم مفاہمت کا ماحول پیدا کریں تاکہ دعوت کے امکانات پیدا ہوں اور ہندو مسلم امن کے ساتھ بھی رہ سکیں وہ اس سلسلہ میں صلح حدیبیہ کے اصول پر بہت زوردیتے ہیں انھوں نے امن عالم اور اسلام اور Ideology of peaceجیسی کتابوں کے ذریعہ اپنے ان افکار کی اشاعت کی ہے۔
1۔ـتحریکات
ہندستانی مسلمانوں میں بعض ایسے تھے جنھوں نے اس کو اپنا مشن بنا کر با ضابظہ تحریک شروع کی ان میں سب سے نمایاں شخصیت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے کی ہے۔ ان دونوں بزرگوں نے اپنی تصنیفات کے علاوہ تحریکات بھی شروع مولانا حسین احمد مدنی نے جمعیۃ علامء ہند کے پلیٹ فارم سے یہ کوشش کی کہ علما کے زیر قیادت ہندستانی مسلمانوں کو متحد کیا جائے اور اس اجتماعیت کے ساتھ ملک کی سیکولر جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کی جائے۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے کانگریس کے اندر رہ کر اس اتحاد کو فروغ دیا۔ مولانا آزاد اس اتحاد کو اپنی زندگی کا سب سے اہم مقصد سمجھتے تھے اور اس کے لئے انھوں نے ہر طرح کی قربانی دی۔ وہ اس اتحاد کے لیے اس قدر سنجیدہ تھے کہ ان کی نظر میں ہندو مسلم اتحاد کا ٹوٹنا صرف ہندستان نہیں بلکہ عالم اسلام کا نقصان تھا ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا کہ اگر آج آسمان کی بلندی سے کوئی فرشتہ اترے اور کہے کہ ہندستان ایک دن میں آزاد ہو سکتا بشرطیکہ ہندو مسلم اتحاد ٹوٹ جائے تو میں اس کو قبول نہیں کران گا اس لیے کہ اگر ہندستان کو آزادی ملنے میں دیر ہوئی تو یہ ہندستان کا نقصان ہو گا لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد ٹوٹ گیا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہو گا۔ (19)
آج مولانا کی اس پیشین گوئی کی صداقت کے لیے کسی برہان کی ضرورت نہیں ہے، بر صغیر ہندو پاک کی ملت اسلامیہ اپنے زبردست وجود شاندار تاریخ اور غیر معمولی اثرات کے با وجود بساط عالم پہ پٹے ہوئے مہرے کی طرح بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔ مولانا آزاد کی مساعی پورے طور پر کامیاب نہ ہو سکیں مذہب کے نام پر ملک تقسیم ہو گیا اس کے باوجود ان کے اثرات خاص طور پر ہندستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہندستان کی آزادی کے بعد بھی اس طرح کی متعدد تحریکات برپا ہوئیں ان میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی تحریک پیام انسانیت بہت مشہور ہے۔ اس تحریک کو فروغ دینے میں مولانا عبدالکریم پاریکھ اور بہت سے اہم علماء کا بڑاکردار ہے۔ان کی الگ تحریک نہیں تھی وہ پیام انسانیت کا ہی حصہ تھے جیسا کہ میرے علم میں ہے۔
ان تحریکات نے ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جس میں ہندو مسلمان مشترک بنیادوں پر تبادلہ خیال کرسکیں اور ان تحریکات نے نوجوان نسل کو خاص طور پر متاثر کیا، نوجوانوں میں مذہب کی سیاست گری کے مقابلے میں مذہب پر عمل کرنے اور دوسرے مذاہب کے احترام کا جذبہ پیدا ہوا۔
3۔ تقریریں اور جمعہ وعیدین کے خطبے
مسلم نوجوانوں کے ساتھ علماء کے رابطہ کا ایک مضبوط اور پائیدار مقام مسجد اور عیدگاہ ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی نماز کا خطبہ اور عیدین کے خطبہ میں کوئی بھی پیغام نوجوانوں کو بآسانی دیا جاسکتا ہے۔ ہندستان میں یہ روایت ہے کہ اصل خطبہ تو عربی زبان میں ہوتا ہے اور وہ بالعموم شائع شدہ خطبے ہوتے ہیں لیکن جمعہ کو عربی خطبہ سے پہلے اور عیدین میں نماز سے پہلے امام ایک مفصل تقریر کرتا ہے یہ تقریر مقامی زبان میں ہوتی ہے اور اس میں ہی دراصل امام اپنا پیغام عوام کو دیتا ہے۔ چونکہ عربی خطبہ تو بیشتر عوام کے قابل فہم نہیں ہوتا جمعہ کے اس موقعہ کو مختلف دیگرتحریکات بھی اپنے پیغام کی توسیع کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ مثلاً پلس پولیو کے لوگوں نے جمعہ کی نماز سے پہلے مسجدوں میں جاکر اس کا اشتہار کیا۔
جمعہ کے عربی خطبہ سے پہلے مسجد کے امام جو تقریر کرتے ہیں وہ عام طور پر سماجی مسائل سے متعلق ہوتی ہیں مثلاً پڑوسیوں کے حقوق، راستوں کے حقوق، بوڑھوں اور بچوں کے حقوق، اچھے اخلاق کی اہمیت، صبر کی تلقین،تعلیم، طہارت صفائی ستھرائی وغیرہ ان تقریروں کے ذریعہ نوجوانوں میں بڑی تبدیلی آرہی ہے اور یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جن مسجدوں کے امام زیادہ سماجی اصلاح کی گفتگو کرتے ہیں ان میں دور دور سے نوجوان آکر شریک ہوتے ہیں۔
مولانا عبداللہ طارق نے اور بعض دوسرے علماء نے ایسی متعدد کتابیں لکھیں ہیں جن میں جمعہ کے خطبے کی اہمیت اور اس میں دیئے جانے والے بیان کے لیے موضوعات دیئے ہیں اور اس کے اصول وآداب لکھے ہیں۔  ( جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔