شاہ نعیم اللہ

فاران جنید

مولانا شاہ نعیم اللہ کی پیدائش1740ء مطابق  1153ھ میں ہوئی۔ ان کا مقام پیدائش شیخیاپورا نزد ملسری مسجد شہر بہرائچ ہے۔آپ کے والد کا نام غلام قطب الدین تھا۔علوم دینیہ حاصل کرنے کے لیے دہلی اور لکھنؤ کے اسفار کیے۔

حالات

آپ مرزا مظہر جان جاناں کے خلیفہ تھے۔ آپ چار سال تک مرزا مظہر جان جاناں کی صحبت میں رہے ، مرزا مظہر جان جاناں آپ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری (شاہ نعیم اللہ بہرائچی) چار سال کی صحبت دوسروں کی بارہ سال کی صحبت کے برابر ہے۔ مرزا مظہر جان جاناں آپ پر نہایت عنایت فرماتے اور فرماتے تھے کہ نور نسبت اور فیض صحبت سے عالم منور ہوگا۔شاہ نعیم اللہ کو مرزا مظہر سے بروقت عطاء￿  اجازت و خلافت ہر سہ جلد مکتوبات قدسی امام ربانی مجددالف ثانی عطا کی اور فرمایا کہ یہ دولت یعنی مکتوبات شریف جو میں نے تم کو دیے کسی مرید کو نہیں دیے، مشائخ طریقت جو اپنے مریدوں کو خلعت خلافت دیا کرتے ہیں جو میں نے تم کو دیا ہے یہ سب سے بہتر ہے اس نعمت کا شکر اور قدر کرنا یہ تمہارے واسطے ظاہر اور باطن کا ایک خزانہ ہے اور اگر طالب جمع ہوا کریں اور فرصت ہوا کرے تو بعد عصر کے سب کے سامنے پڑھا کرنا اور بجائے مرشد اور مربی کے ہے۔آپ بکمال اخلاق حسنہ آراستہ تھے اور صبرمیں نہایت صبرو توکل سے اپنیاوقات یاد خدا میں بسر کیا کرتے تھے۔

شاہ نعیم اللہ بہرائچی کو شاہ غلام علی نے جامع معقول و منقول کہا ہے۔ 1186ھ میں مرزا مظہر جان جاناں کے ایک خلیفہ محمد جمیل دہلی سے لکھنؤ آئے۔،مولانا نعیم اللہ نے تحصیل علم ظاہری سے فراغت حاصل کر لی تھی،اس لئے ان سے طریق? نقشبندیہ مجدیہ مظہریہ میں بعیت کی۔پھر 1189ھ میں خود مرزا مظہر جان جاناں کی خدمت میں حاضر ہوئے [2]اور چار سال ان کی خدمت میں رہ کر مقامات عالیہ پر پہونچے  اس مدت میں ان کے گھر سے جو خطوط جاتے تھے وہ انہیں خول کر نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن اور اہل وطن کی محبت ان کے کار خیر میں فتور پیدا کرے[4] ، خرقہ اجازت و خلافت حاصل کر کے وہ اپنے وطن لوٹے اور رشد ہدایت میں مشغول ہو ئے۔ شاہ نعیم اللہ نے لکھنؤ کے ایک محلہ بنگالی ٹولہ میں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی اور کچھ دنوں وہاں بھی قیام کیا کرتے تھے۔تصانیف

شاہ نعیم اللہ بہرائچی مرزا مظہر جان جاناں کے خاص خلیفہ تھے۔آپ نے مرزا مظہر جان جاناں کے حالات پر دو کتابیں لکھی ہی۔بشارات مظہریہ اور معمولات مظہریہ ان میں مرزا مظہر جان جاناں کے خاندانی اور ذاتی حالات اور مشغولیتوں کے علاوہ مرزا مظہر جان جاناں کے معمولات کا تفصیل سے ذکر ہے۔ بشارات مظہریہ قلمی ہے اور 210 اوراق پر مشتمل ہے اس کا ایک نسخہ بر ٹس میوزیم (لندن) میں محفوظ ہے ، معمولات مظہریہ چھپ چکی ہے۔شاہ نعیم اللہ نے مرزا مظہر جان جاناں صاحب کے مکتوبات کا ایک انتخاب بھی رقعات کرامت سعادت کے نام سے تیار کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔[7]۔

وفات

شاہ نعیم اللہ بہرائچی کی وفات26 مئی 1803ء مطابق  5 صفر1218ھ میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔آپ کی تدفین جہاں ہوئی وہ آج احاطہ شاہ نعیم اللہ (گیند گھر میدان) کے نام سے پورے شہر میں مشہور ہے۔اسی احاطہ کے ایک حصہ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اور ایک سرکاری نسوا ں انٹر کالج بھی قائم ہیں ۔

حوالہ جات

 مقامات مظہری از شاہ غلام علی

مرزا مظہر جان جاناں اور ان کا کلام مطبوعہ1979 دارالمصنفین اعظم گڑھ

 معمولات مظہریہ

اردو ویکی پیڈیا

مشائخ نقشبندیہ مجددیہ از مولانا محمدحسن نقشبندی مجددی

1 تبصرہ
  1. Syed Abdul Jalil JaamI کہتے ہیں

    Allah apki mehnat jo buzurgon ki nisbat se hai iska bahut acha sila de aapko….bht hi khoob likha hai janab

تبصرے بند ہیں۔