وہی چراغ بجھا، جس کی لو قیامت تھی
سالم سلیم
آج اس شخص کا نہ ہونا میرے لیے کیسا ناقابل یقین ہے. ذہن و احساس پر جمی ہوئی تین دہائیوں پر مشتمل پرتیں آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہیں. میں سوچتا ہوں کہ میرے دادا (مولانا عیسی قاسمی صاحب) آج اس دنیا میں نہیں ہیں اچانک کئ خیال ذہن کے پردے پر ٹکرانے لگتے ہیں۔
کیا موت عین حق ہے. کیا موت بھی زندگی کا کوئی کردار ہے. کیا زندگی موت کی پرچھائیں ہے یا موت محض نقل مکانی ہے یا "موت ” شعور کے گم ہو جانے کا نام ہے… ان سوالات کے جواب ایک سے زائد ہیں۔
میرے سامنے دادا کا بے ڈول جسم رکھا ہوا تھا اور میں ان کی موت کے معنی فراہم کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا. لوگ کہتے ہیں کہ انھیں موت آ گئ ہے اور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ ہم بھی تو ان کی قبر پر مٹی ڈال آیے ہیں.. مگر میرے لیے ان کے "ناموجود” کو اپنے شعور کا حصہ بنانا کتنا مشکل ہو رہا ہے… رات ہم نے خاک کی اس امانت کو خاک کے حوالے کر دیا تو دادا کا نہ ہونامیرے لیے مزید ناقابل فہم بنتا جا رہا ہے. کسی بہت پیچیدہ کہانی کی طرح.. اگر کوئی اپنے تمام تر ذہنی رنگ و نور کے ساتھ ہمارے حافظے پر حکومت کر رہا ہے تو اس کے جسم کا "معدوم” کتنا بے معنی ہے… میں سوچتا ہوں کہ جذبوں، امنگوں، اور زندگی کی حرکتوں سے بھرا ہوا یہ شخص کیوں کر ہمارے نسیان کا حصہ ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو در اصل یہ ہمارے حافظے کی موت ہے۔
آج دادا اپنے کمرے میں نہیں ہیں اور میرے لیے ان کے "ظاہر” کی موت غیر متوقع نہیں تھی. تدفین سے تھوڑی دیر قبل میں دہلی سے بلریاگنج پہنچتا ہوں، دروازے پر بہت سارے لوگ جمع ہیں سو میں نے بھی اپنی موجودگی سے ایک اضافہ کیا مگر ذہن پر تو دادا کے ساتھ گزارے لمحات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل رہا ہے۔
کیسی ہنگامہ خیزی تھی ان کی زندگی میں. میں جب ان تصورات، اخلاقی قدروں، اور سماجی نظریات پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے وہ کوئی دیو مالائ کردار نظر آتے ہیں. مگر نہیں.! انھیں تو اسی زمین و زمانہ سے وابستگی تھی… ایک عجیب و غریب اور دلچسپ زندگی! ایک مکمل انسانی کردار کی شکل میں۔
ہمارے داد معاشرے کو اپنی اقدار پر لانا چاہتے تھے مجھے نہیں پتا کہ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئے.. مگر یہ ضرور ہے کہ وہ اپنی شرطوں پر جیے.. ایک طویل مدت تک موت اپنی تمام تر عیاریوں اور بہانوں کے ساتھ ان کے بدن سے چمٹی رہی مگر اس دوران کبھی بھی زندگی کرنے کا سلیقہ کم نہیں ہوا. اپنی بیماری کے شدید دنوں میں بھی ہمیشہ صابر و شاکر پایا. نہ خدا سے شکایت نہ زندگی سے… ان کے کمرے میں چاروں طرف کتابوں کی قطاریں ہیں . یہ کتابیں کئ ہزار پر مشتمل ہیں اور اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی کتاب کے مطالعے میں غرق! میں نے اپنی زندگی میں ایسا کثیر المطالعہ شخص کم ہی دیکھا ہے. موضوع کوئی بھی ہو، تصوف، منطق، فلسفہ، مذاہب عالم، ادب. وہ بے دریغ گھنٹوں بول سکتے تھے. میں جب دہلی سے بلریاگنج جاتا تو وہ داغ، غالب، امیر مینائی وغیرہ کے شعر سن کر چہک جایا کرتے. کوئی نیا خیال سن کر ان کی آنکھوں میں چمک آ جایا کرتی تھی.. الماریوں میں رکھی کتابیں اس کی شہادت دیتی ہیں. کوئی کتاب اٹھائیں حاشیے پر لگے نشان بتاتے ہیں کہ ہمیں "اچھی طرح” پڑھا گیا۔
بلریاگنج اور اطراف میں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں دادا کا کردار ایک الگ باب کا متقاضی ہے. جامعۃ الفلاح کے لیے دادا کی خدمات کا صلہ خدا دے گا (کہ وہ بھی تو اکثر یہی کہتے تھے) آج دادا نہیں ہیں، میں ان کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ موت تک وہ "زندہ” رہے مگر میری سماعت کو لفظوں اور حرفوں نے کبھی ایسی چوٹ نہیں پہنچائ تھی جیسی کہ ان کی موت کی خبر نے۔
تبصرے بند ہیں۔