حضرت مولانا حکیم الملت محمد اشرف علی باقوی

محمد صابرحسین ندوی

جنہیں اب گردش افلا ک پیدا کر نہیں سکتی

کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں ؛گور غریباں میں

اکیسویں صدی عیسوی اسلام اور مسلمانوں کیلئے پرفتن، پر آشوب اور ہلاک خیزی کے باب کے ساتھ شروع ہوا، ملت اسلامیہ حکومت و مملکت سے بے گانی، بے یارو مددگاری، ظلم واستبداد اور چاک گریبانی کا شکار ہوگئی؛ب سا اوقات ایسا معلوم ہوتاتھاکہ صدیوں سے خار کھائے بیٹھی جاہلیت نے علی عقبیہ یکبارگی حملہ کردیا ہو اور پوے ساز وباز کے ساتھ اسلامی شناخت اور ملی تشخص کا استحصال کر نے، بدعت و خرافات کو عام کر نے اور تعلیمات اسلامی کے ساتھ اجنبیت، جاہلی معیار زندگی اور سلاسل حیات کی بیڑیاں جکڑنے پر آمادہ ہو، بالعموم پورے عالم میں دہریت والحادیت کی صدائیں بازگشت کر رہی تھیں اور بالخصوص ہندوستان اور ان میں جنوب ہند مغربیت، شیعیت، قادیانیت اور بدعت کی گھٹا ٹوپ چادروں میں لپٹی جارہی تھی، لیکن وعدۂ الہی ’’نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘کی صدائے مسلسل ہی کا نتیجہ تھا ؛کہ اللہ رب العزت نے ایسے جواں مرد، شجاع ودلیر،اخلاق و اعمال کے پیکر افراد بپاکئے ؛جنہوں نے انسانوں کا سر رشتہ خالق الہی سے جوڑنے، ہمدردی و رواداری اور انسان دوستی کے ساتھ خودی کے مضراب پر ساز لگانے کا فریضہ انجام دیا، انہیں مؤید و موفق باللہ شخصیات میں سے ایک ’’حضرت مولانا حکیم الملت محمد اشرف علی باقوی ‘‘بھی تھے۔

 آپ کی ولادت باسعادت جنوبی ہند کے عظیم المرتبت بزرگ عالم دین ومفتی شرع متین حضرت مولانا ابوالسعود احمد ؒ (جو مرحوم کے والدماجد بھی ہیں )کے خانوادہ میں آزادی ٔ ہند سے قبل شمالی ارکاٹ کے قصبے ولنجی پور،تمل ناڈو میں ہوئی،آپ بچپن ہی سے ذہین وفطین اورخوش بخت تھے، مزید برآں والد مرحوم کی خصوصی نظروعنایت نے، دینی تربیت و پرداخت میں چار چاند لگادئے،اور والد محترم ہی کے آغوش میں تقریباًابتدائی تین چار سالوں تک شب و روز کی مسنون دعائیں حفظ کرلی،ساتھ ہی میل وشارم میں ’’ انجمن تبلیغ الاسلام‘‘ کے ماتحت قائم ’’مدرسہ مدینۃ العلوم ‘‘کا آغاز آپ ہی کی بسم اللہ خوانی سے ہوا، اس کے بعد جنوب ہند میں دارلعلوم دیوبند کی حیثیت رکھنے والے ’’جامع الصالحات، ویلور‘‘میں داخلہ لیا، جہاں پدر بزرگوار کے معزز اساتذہ کرام بالخصوص مفتی شیخ آدم،شیخ الحدیث مولانا حسن باشا،مولانا سید عبدالجبار علیہم الرحمۃ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیااور دستار فضیلت کا تاج پایا، فراغت کے بعد چند ماہ ’’منبع العلوم‘‘ کے بانی مشہور عالم وفقیہ مولانا ضیاء الدین امانی ؒ کی خدمت میں رہ کر منطق،فلکیات،اورقات الصلاۃ وغیرہ کی خصوصی تعلیم حاصل کی، مزید علمی تشنگی کی سیرابی کیلئے ازہر ہند ’’دارلعلوم دیوبند‘‘ کا رخ کیا ؛جہاں شہرہ آفاق اساتذہ علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا فخرالحسن اور شیخ الحدیث مولانا فخرالدین مرادابادی علیہم الرحمۃ سے کسب فیض کا موقع ملا،اور خصوصا فقیہ اعظم حضرت مولانا مہدی حسن کی سرپرستی میں فقہی صلاحیت وتربیت پائی،اسی دوران آپ کے والد ماجد نے دینی وایمانی تقاضوں کے تئیں مادر وطن کو خیرآباد کہتے ہوئے بنگلور، کرناٹک کا قصد کیا، جہاں اسلامی دعوت وتبلیغ کی نشر اشاعت کیلئے ’’دارالعلوم سبیل الرشادــ ‘‘ کا قیام عمل میں آیا،چنانچہ آپ نے فراغت کے بعد ادارہ ہذا ہی کو علم وعمل کی اشاعت اور خدمت کا مرکز بنایا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان میں موجود ہر جوہر خام، کندہ وہیولہ ہے،جب تک کہ اس کی اساس و بنیاد میں تصوف وسلوک کا عام مذاق نہ پایا جائے،اور قرآن کریم کے فرمان’’ونفس وما سواھا‘‘ کی تعبیر رو بعمل نہ لائی جائے،آپ نے جس دور میں ہوش سمبھالا اور شعور کی آنکھیں کھولیں ؛اس میں اسلامی علوم وفنون اور درسیات مین کمال پیدا کرنا، عربی وفارسی میں مہارت پیدا کرنا، ایمانی وروحانی کیفیات کا حصول، تزکیہ نفس اور قطع منازل سلوک اور کم سے کم خدا طلبی اور فقیر دوستی کو ضروریات زندگی میں سمجھا جاتاتھا، ایسے میں آپ نے بھی نفس ومادیت کا گلا گھونٹے ہوئے ؛روحانیت وللہیت کی شیدائی میں ولی وقت، بڑے امیر شریعت علامہ شاہ ابوالسعود احمد باقوی ؒکے دست مبارک پر بیعت کی جو کہ بواسطہ حضرت مولانا سعید صاحب ؒ؛ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفہ اورمجاز خاص تھے،ان کی مبارک مجالس کی وجہ سے دین واہل دین کی عظمت اور اس بات کا یقین ان کے لوح قلب پر نقش ہوگیا ؛کہ دین وروحانیت سب سے بڑی عزت کی چیز ہے اور جو اعزاز وشرف اس راہ کے کاملین کو حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور طبقہ کو حاصل نہیں :۔

اتانی ھواھا قبل ان اعرف الھوی______فصادف قلباً فارغا فتمکنا۔

آپ کا یہ طریقہ کسب علم وتربیت اور تزکیہ وتصوف کے اعلی مدارج طے کرنے نے علمی اور طریقہ فکر پر خاصا اثر ڈالا تھا، مذہب میں تصلب لیکن تعصب سے دور اورمسلکی اختلافات کے زیروبم میں نہ الجھتے ہوئے قدیم صالح وجدید نافع کے سراپا پیکر بن گئے تھے، ذاتی مفاد پر دینی مفاد کو ترجیح دینا، شیرازہ بندی کی حمایت اور فرقہ واریت پر قدغن لگانا، اکرام وضیافت، تعلق ونسبت اور چھوٹوں پر شفقت، اعزاء واقرباء کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی ورافت آپکی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی، اسی طرح آپ کی طبیعت حلم و بردباری، متانت وسنجیدگی، توکل، اورخلوت پسندی کی خوگرتھی، آپ ملک و عوام سے محبت، ہمدردی بنی آدم، رقیق القلب، کریم النفس بزرگ تھے،آپ کو نمود ونمائش سے سخت نفرت تھی، کسی کو نقصان پہونچانا یا کسی کا دل دکھانا آپ کے مذہب میں کفر تھا، خود تو کجا، اگر کسی کے متعلق سن لیتے تو اس سے نفرت ہوجاتی تھی، نیز ظالموں کا ہاتھ پکڑنا، نااہلوں کو انکی اہلیت میں رکھنا اور متعصب عناصر کی میخیں اکھاڑ پھینکنا، ظالم وجابر حکمراں سے دوبدو حق گوئی کرنا ؛بات خواہ کڑوی ہو لیکن حق پرستی اور اس کی حمایت میں جاں کھپا دینا آپ کا خصوصی امتیاز تھا۔

علم وادب بالخصوص علوم احادیث آپ کی شرست بن چکی تھی، آپ نے حب الہی اور عشق نبوی کا وافر حصہ پایا تھا ؛یہی وجہ ہے کہ بخاری شریف (اصح اللکتاب بعدکتاب اللہ)کی درس و تدریس پر نبوی ارشادات، اخلاق وکمالات اورتقاضوں کو علی الاتم پورا کرتے ہوئے تقریبا پچاس سال تک خادم خاص رہے،اور اس علم کے منبع ومخزن سے علم کے پروانے پرواز پاتے رہے،حتی کہ آپ کے شاگردوں ، مریدوں ، اور محبین کے متعلق یقینا کہا جاسکتا ہے ’’وان تعدوا۔۔۔۔۔لا تحصوھا‘‘۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ نے دارالعلوم سبیل الرشاد کے انتظام و انصرام اور اہتمام کی ذمہ داری بھی سمبھالتے ہوئے علم وادب کے اس کارواں کو نت نئے منازل ومراتب کا تمغہ بخشا،جاننے والے جانتے ہیں کہ پورا ادارہ بلکہ ادارہ کی ہر سنگ وخشت آپ کے خون جگر،قا بلیت، صلاحیت اور ہنر مندی کی خود شاہد ہیں ،آپ کے امتیازات میں سے یہ بھی ہے کہ ؛آپ ہمہ وقت خدا سے رازونیاز ومناجات اور تہجد کی پابندی فرماتے، اور اسی میں اپنے درد کا درماں تلاش کرتے،عاجزی و انکساری اور فروتنی میں آنکھیں اشکبار کئے رہتے، بلکہ آپ کا یہ ماننا تھا کہ:

ان البکاء ھوالشفاء____من الجوی بین الجوانح__

چنانچہ آپ کی یہی جامعیت، اعتدال،جمال،کمال اور بے ہمہ وباہمہ شخصیت کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے:

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں ___شمع محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفیق۔

 واقعہ یہ ہے کہ آپ نے جہاں ایک طرف خود سازی واصلاح اور خودی کی تعمیر وترقی کا کام کیا وہیں جنوب ہند میں رونما مسلمان واسلام مخالف عناصر سے بالمشافہ سینہ سپر ہوئے اور نہ صرف جاہلیت، بدعت و خرافات پر نکیل لگائی ؛بلکہ للہیت، محبت و مودت اور بھائی چارگی کو بخوبی عام کیا، جس نے آپ کی شخصیت کو ہر خاص وعام پر اجاگر کیا،بنا بریں بے کم وکاست ہر مذہب،فرقہ،ذات پات کے لوگ آپ سے عقیدت رکھتے ؛بلکہ وقت بہ وقت نذرانہ عقیدت بھی پیش کرتے، شاید ہی کوئی محفل ہو جہاں آپ کا وجود عہدہ صدارت سے خالی ہو ؛اگر ایسا ہوتا بھی تو اہل نظر اسے ناکام مجلسوں میں شمار کرتے۔ موصوف کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ ملت کا بلکہ انسانیت کا درد آپ کے سینے میں ابلتا رہتا، لوگوں کی فلاح و بہبودی کے لئے آپ پو ری محنت وجفا کشی کے ساتھ شب و روز کی تمیز کئے بغیر ہر محاذ پر ڈٹے رہتے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی مکمل ذمہ داریوں اور متفرق عہدوں سے اٹی پڑی ہے،آپ جہاں امیر شریعت کرناٹک کی حیثیت سے نفاذ شریعت کی کد وجہد کرتے تو وہیں قومی سطح پر ’’رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ‘‘اور ’’نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل‘‘ کے پلیٹ فارم سے امت میں دینی بیداری کی مہموں کو حرارت بخشتے،تو ’’نائب صدر کل ہند اسلامی فقہ اکیڈمی‘‘اور’’صدر رابطہ ادب اسلامی کرناٹک‘‘ نیز ’’رکن مجلس انتظامی ندوۃ العلماء، لکھنو‘‘وغیرہ متعدد مناصب کی سیج سے علم وادب اور مسائل جدیدہ کی محفلوں کو دوبالا کرتے۔

 زہے نصیب ؛کہ راقم الحروف گزشتہ کئی سالوں سے ’’کل ہند اسلامی فقہ اکیڈمی ‘‘ سے منسلک ہے، جس کے سابقہ سیمینار منعقدہ 4 ؍مارچ 2016 بمقام اجین،ایم پی میں شرکت کا موقع ملا ؛جہاں ملک و بیرون ملک کے بہی خواں علماء کی صف بندی میں آپ ؒ اپنی پہچان رکھتے تھے، اور خوبصورت وپر نور چہرہ،علمی وعملی رعب وداب،جدید مسائل پر مجتہدانہ گفتگو،پیچیدہ ودم بخود مواقع پر مناسب و متوسطانہ رائے کا اظہار اور آپ کی طرف قائدین ملت وسربراہان ملک کی یکسوئی اور آپ کی رائے ومشوروں کو سرآنکھوں پر رکھنے نیز اکیڈمی کے مجلس خاص کی کرسی صدارت پر فائز دیکھ کر شام غریباں میں بزم چراغاں کا خیال آتا تھا، اور ہشاشت و بشاشت سے قطعاً یہ اندازہ نہ ہوتا تھا کہ آئندہ سیمینار سے (28؍نومبر2017،ممبئی) قبل ہی اس دار فانی سے سفر کرنے والے ہیں ۔

سر سے لے کر پاؤں تک، ساری کہانی یاد ہے

آج بھی وہ شخص،مجھ کو منہ زبانی یاد ہے

 بلا شبہ عالم انسانی میں موجود ہر رنگ و بو فانی اور غیر مدام ہے ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘___’’کل من علیھا فان‘‘،دوام وہمیشگی صرف اور صرف خدا اور اسکی ذات ہی کے شایان شان ہے’’ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘__شاعر بھی کہتا ہے:

نعلل بالدواء اذا مرضنا__فھل یشفی من الموت الدواء

 ایسے میں حضرت والا کی ذات اقدس بھی 8؍ستمبر2017 جمعہ کی شب زندگی کے بوجھ سے سبکدوش ہوگئی اور طویل مسافت کا یہ راہی اپنے کجاوے کے ساتھ آرام پذیر ہوگیا__اناللہ وانا الیہ راجعون__،اسمیں کوئی شک نہیں کہ مرحوم کی وفات  سے وہ چراغ گل ہوگیا جس کی روشنی میں لوگوں نے اسلاف کے مٹے ہوئے نقش قدم اور کاروان رفتہ کے کتنے دھندلے نقوش، سلف صالحین وعلمائے متقدمین کے کتے کارنامے جو تہ بتہ پردوں مین چھپے ہوئے تھے صفحات عمل پر دیکھے اور آئندہ نسلوں کیلئے بھی مشعل راہ ہونگی، یہ جہاں امت اسلامیہ کیلئے ناقابل فراموش خسارہ ہے،تو وہیں راقم الحروف کیلئے دراصل شفقت پدری سے محرومی ہے، لیکن راضی برضا رہنا اور صبرو استقامت کا دامن تھامے رہنا ساتھ ہی خدا وند قدوس سے نعم البدل کی لو لگانا ہی مومن کا طرہ امتیاز ہے۔

  انی رأیت وفی الایام تجربۃ__للصبر عاقبۃ محمودۃ الاثر۔

 اخیر میں دعا ہیکہ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور ردائے رحمت میں لے لے،ساتھ ہی لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے،اگرچہ کہ ایسی شخصیت کی عدم موجودگی دھڑکنیں بے تاب اور زبان گنگ کردیتی ہیں اور بے ساختہ زبان زد ہوجاتا ہے:۔

          اولئک آبائی فجئنی بمثلھم ______اذا جمعتنا یا جریر المجامع

تبصرے بند ہیں۔