سر سید کو خراج تحسین کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟

عبدالعزیز

 سرسید احمد خاں ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے ۔ ان کو ایک مضمون، ایک کتاب لکھ کر یا ایک دو اجلاس کے انعقاد سے خراج تحسین نہیں پیش کیا جاسکتا، لیکن یہ ضروری ہے کہ مسلمان اور برادران وطن ان کے بارے میں اچھی طرح سے واقف ہوں اور ان کے ان کاموں کو ضرور سراہیں جن سے ہندستانیوں خاص طور سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ سر سید احمد نے زندگی کے بہت سے شعبۂ حیات میں کام کا آغاز کیا۔ کچھ کام پورے ہوئے،کچھ ادھورے رہے۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مستقبل میں لکھا جائے گا۔ ان کے ممدوح اور مخالف دونوں پائے جاتے ہیں ۔ جو لوگ ان کے خیالات اور افکار سے متفق نہ تھے وہ بھی ان کے کاموں کو دیکھ کر خاص طور سے مدرسۃ العلوم (ایم اے او کالج) کے قیام سے بیحد خوش ہوئے۔ اکبر الہ آبادی جو مغربی تہذیب کے سخت نکتہ چیں تھے وہ سر سید کی انگریز دوستی اور مغربی تہذیب کی تائید اور حمایت کی زبردست نکتہ چینی کرتے تھے۔ اکبر کی طرح بہت سے لوگ اور تھے جو سرسید کی نکتہ چینی سے باز نہیں آتے۔ مخالفین کو یہ خبر ملتی کہ سرسید اپنے رفقاء کے ساتھ انگلستان جارہے ہیں تو مخالفین مشہور کرتے کہ سید احمد خان مکے کے بدلے لندن کے حج کو جارہے ہیں اور کوئی کہتا کہ لندن جاکر ٹکسالی کرسٹان بن کر آئیں گے۔ اکبر نے طنزیہ کہا   ؎

سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے

وہ دیکھیں گے گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے

   اکبر یہ بھی کہنے سے نہ چوکتے تھے   ؎

میں نے کہا اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

سید نے کہا تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

 لیکن جب اکبر نے دیکھا اور محسوس کیا کہ مدرسۃ العلوم کے قیام سے ہندستانیوں کو خاص طور سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو انھوں نے اپنا انداز بدل لیا   ؎

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا

نہ پوچھو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

  ایک رباعی میں اکبر نے نہایت اصولی باتیں پیش کیں   ؎

شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ کو چھولو

بس ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

جو لوگ سرسید کے حوالے سے علماء اسلام کو بدنام کرتے ہیں میرے خیال سے ان کے یہاں گہرے مطالعہ کا فقدان ہے۔ جو علماء سرسید احمد کے مخالف تھے وہ ان کے کام یا انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کے مذہبی افکار و خیالات کے مخالف تھے۔ خاص طور سے ان کی تفسیر القرآن سے ان کی مخالفت تھی۔ سرسید نے اپنی تفسیر میں شیطان، فرشتہ کے وجود اور اللہ کے رسولؐ کے معراج میں جسمانی سفر سے انکار کیا ہے۔اس طرح دیگر خیالات سرسید اپنی عقلیت پسندی (Rationalism) کی وجہ سے کرتے تھے یا بعض کے خیال میں انگریزوں کی خوشنودی یا عیسائی مذہب سے اسلام کی ہم آہنگی کیلئے سر انجام دیتے تھے۔ اس کی وجہ سے علماء مخالفت کرتے تھے۔

 میرے خیال سے سرسید تنقید سے بالاتر نہ اس وقت تھے اور نہ آج ان کی شخصیت پر تنقیدی نظر سے پہلے بھی جائزہ لیا جاسکتا تھا اور آج کے حالات میں تو جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ حالات بالکل بدل چکے ہیں ۔ انگریزوں کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔ انگریزوں کی غلامی کا زمانہ بھی نہیں رہا۔ آزادی، حریت، مساوات، انسانی حقوق کے نعرے سرسید کے زمانے میں بھی بلند تھے اس کے خلاف وہی بولتا ہے جو استعماریت پسند ہے اور سرمایہ داروں کا غلام یا پیروکار ہے۔

 سرسید احمد کے ہم عصروں میں سید جمال الدین افغانی ان کے سب سے بڑے ناقد تھے۔ ا س کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرسید ہندستان سے باہر جو مسلمان ممالک تھے اس پر ان کی نظر نہیں تھی۔ زیادہ مسلم ممالک انگریزوں کی غلامی میں کراہ رہے تھے۔ افغانی کی نظر ان تمام ممالک کو انگریزی استعماریت سے نجات دلانا ان کے کاموں میں اولیت کا درجہ حاصل تھا جبکہ سرسید کے نزدیک انگریزوں سے لڑائی یا ان کے خلاف تحریک مسلمانوں یا ہندستانیوں کیلئے نقصان دہ تھا۔ سرسید 1857ء کے غدر سے بیحد متاثر تھے جن میں بہت سے مسلمانوں کو انگریزوں نے قتل کیا تھا اور مسلمانوں کو اپنا دشمن نمبر 1ہونے اور ہندوؤں کو اپنا وفادار اور دوست سمجھنے کا اعلان و اظہار کیا تھا۔ اس لئے سرسید انگریزوں سے دوستی کو مصالح ملت و ملک سمجھتے۔ افغانی انگریزوں سے کسی قسم کی دوستی کو غلط سمجھتے تھے۔ افغانی کو سرسید کی تفسیر کے مطالعہ سے بڑی مایوسی ہوئی۔ اس تفسیر پر ان کے اعتراضات حسب ذیل ہیں :

 (1  فطرت کے موضوع پر عقلی دلائل کے بغیر مبہم نقطۂ نظر سامنے رکھا ہے۔

 (2  ملائکہ، جن، روح الامین، وحی، جنت، دوزخ، معجزے وغیر کی تاویل زندیقوں کے مطابق کی گئی ہے۔

  (3  نبوت کے مرتبے کو گراکر ریفارمر اور مصلح کی سطح تک پہنچا دیا ہے۔

(4  یہ خیال کہ غلط اعتقادات قوموں کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں صحیح نہیں ۔ پہلا اعتراض سرسید کی مذہبی فکر میں اب تک ایک نزاعی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج باوجود اس کے کہ ہمارے سامنے سرسید کی اپنی مکمل تحریریں اور ان کے قریبی دوستوں کی ان کے تصورات پر شرحیں موجود ہیں ۔ ان کی نیچریت کا ایسا خاکہ نہیں بن پایا جس میں فطرت، عقل اور عقیدہ، ٹھیک ٹھیک بیٹھ سکیں ، تو 1882ء میں جبکہ سرسید اپنے خیالات کی تشریح میں مصروف تھے، افغانی کیلئے ان کی نیچریت کو سمجھنے کا کام اور مشکل تھا۔ اس کے علاوہ ایک وقت یہ بھی ہے کہ سرسید نے خود بھی اس کے مفہوم کی خاطر خواہ وضاحت نہیں کی۔ ’’یہاں تک کہ سید صاحب قبلہ نے بھی جن کی زبان پر ہر وقت نیچر کا مبارک لفظ رہتا ہے اور جن کے قلم سے ہر دم نیچر نکلتا رہتا ہے اور جن کی تفسیر کا مدار نیچر پر ہے، اس لفظ کی حد بتائی نہ تعریف‘‘۔ (محسن الملک مذہب و علم تہذیب الاخلاق، علیگڑھ)

  سرسید کے رفقاء میں بھی کئی شخصیتیں ایسی بھی تھیں جو سرسید کے ہر کام کو لائق ستائش نہیں سمجھتی تھیں ۔ مولانا الطاف حسین حالی سرسید احمد کے بڑے مداحوں میں سے تھے۔ وہ رقمطراز ہیں :

  ’’جس حد تک سرسیدکی تعلیم ہوئی اس کو بھی ان کی ترقی کا موید سمجھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے … قدیم یا جدید کسی طریقے میں پوری تعلیم نہیں پائی۔ اگر وہ پرانے طریقے کی تعلیم پوری کرلیتے اور علوم قدیم کا رنگ ان پر چڑھ جاتا پھر ممکن نہ تھا کہ کسی دوسرے رنگ کے قبول کرنے کی قابلیت ان میں باقی رہتی۔ وہ تقلید کی بندشوں میں جکڑ بند ہوجاتے… نئے طریقے کی تعلیم بھی ان نتائج تک پہنچانے والی نہ تھی جو سرسید سے ظہور میں آئے … پس کہا جاسکتا ہے کہ سرسید کا پرانی تعلیم میں ادھورا رہنا اور نئی تعلیم سے آشنا نہ ہونا منجملہ ان اتفاقات حسنہ کے تھا جنھوں نے قوم کی اصلاح کے عظیم الشان کام پر ہاتھ ڈالنے سے ان کو جھجکنے نہیں دیا‘‘۔ (حیات جاوید: صفحہ360)

 سعید احمد اکبر آبادی کا خیال ہے:

 ’’سرسید کا جذبہ اصلاح صادق اور بڑا مخلصانہ تھا… لیکن خامی یہ تھی کہ علوم اسلامیہ کا گہرا مطالعہ نہیں تھا، اس لئے وہ فلسفے کا شکار ہوکر رہ گئے… علوم جدیدہ کا مطالعہ بھی نہیں کیا گیا تھا، اس لئے ان کی اسلامی فکر میں پختگی اور استواری پیدا نہیں ہوسکی‘‘۔ (سرسید کا شعور اور فکر علی گڑھ میگزین، علیگڑھ نمبر)

 مذکورہ خیالات یا اقوال پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بڑی شخصیت وجود میں آتی ہے تو وہ افسانوی رنگ اختیار کرلیتی ہے، اس کے مداح اس پر کسی قسم کی تنقید گوارا نہیں کرتے۔ میرے خیال سے یہ کسی شخصیت یا ہستی کے ساتھ انصاف نہیں ہے زیادتی ہے۔ مسلمانوں کیلئے رسول اکرمؐ ہی کی ذات گرامی اسوۂ حسنہ ہے۔ ہم پر آپؐ کی پیروی لازمی ہے اور وہ ہر طرح کی تنقید سے بالاتر ہیں ۔

  سرسید کے مطالعہ میں اب تک جو رویے سمانے آئے ہیں ان میں ایک طرح کی انتہا پسندی ملتی ہے۔ مثبت اور منفی دونوں طرح کی۔ سرسید احمد خاں کے تصورات کی تشکیل میں جن عناصر کا عمل دخل رہا ہے۔ بے شک ان کی نوعیتیں کثیر ہیں ۔ ان میں ایک ساتھ معنی کی مختلف سطحیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ اس لئے سرسید کی بہت سی باتوں کو متنازعہ بھی سمجھ لیا گیا۔

 ’’ایک حلقہ تو سرسید کے ان عقیدتمندوں کا ہے جو سرسید کے تصورات کو تنقید سے یکسر ماورا اور ان سے اختلاف کی ہر دیانت دارانہ کوشش کو بھی بے ادبی سمجھتے ہیں ۔ اس حلقے کی طرف سے سرسید کے تصورات کی وضاحتیں تو سامنے آئیں لیکن ان تصورات کے علمی تجزیے سے سروکار بہت کم رکھا گیا۔ علاوہ ازیں سرسید کی شخصیت میں جو عظمت ، ہمہ گیری، دردمندی اور صلابت ملتی  ہے، اس کے پیش نظر یہ سوچنا کہ سرسید سے ’’اختلاف‘‘ کا جواز سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا ایک طرح کی سادہ لوحی ہے۔ اسی طرح سرسید کے بعض نظریات کو ان کے حقیقی تاریخی تناظر سے الگ کرکے دیکھنا اور پھر ان کے حدوں کی نشاندہی کرنا بھی محض ہٹ دھرمی ہے۔ مذہب، تعلیم، تہذیب، معاشرت، سماجی فکر کا کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں ایک سے زیادہ رویوں کی سمائی ممکن نہ ہو۔ ہونا یہ چاہئے کہ ان تمام شعبوں کا جائزہ انسانی تصورات کے بدلتے ہوئے آداب کی روشنی میں لیا جائے اور اس سلسلے میں کسی ایک موقف کو حتمی اور قطعی سمجھ نہ لیا جائے۔ سنجیدہ اختلافات اسی ذہنی بیداری، کشادگی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ سرسید کے سب سے قریبی رفقاء میں بھی ایسے اصحاب شامل تھے جو بہت سی باتوں میں سرسید سے سو فی صدی متفق نہیں تھے۔ بعضوں نے تو سرسید پر کھل کر اعتراضات بھی کئے لیکن سرسید کے احترام میں اس سے کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں جدید تہذیب اور تاریخ کے مسائل پر ’’اظہارِ خیال‘‘ کرنے والوں کا ایک ایسا حلقہ بھی سامنے آیا ہے جو اپنے تصویر کی تنصیب کیلئے پچھلے تمام تصورات کا ابطال ضروری سمجھتا ہے۔ یہ رویہ سائنسی فکر کے مطالعے میں تو خیر کچھ جواز رکھتا ہے کہ اکثر نئے سائنسی نظریات پرانے نظریات کے انہدام کی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں ؛ لیکن ادب، تہذیب اور سماجی فکر کے میدان میں ایک ساتھ مختلف النوع تصورات، حتیٰ کہ ایک دوسرے سے متصادم نظریات کے قیام کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے؛ چنانچہ سرسید کے کچھ منصوبوں یا مقدمات سے بے اطمینانی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ضمنی حیثیت رکھنے والی ایک دو باتوں کو بہانہ بناکر سرسید کی خدمات سے انکار کی کوئی بھی گنجائش کی کوشش ہماری محسن کشی اور بے توفیقی ہوگی‘‘۔ (شمیم حنفی، رسالہ جامعہ جولائی 1998ء)

 میرے خیال سے سرسید کے خراج تحسین کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کے اس پیغام کو عام کیا جائے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہیں ۔ اس کیلئے وہ تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیں ، صرف وعظ و نصیحت سے کام نہ لیں ۔

سرسید نے اردو زبان کی بقا، ترویج و اشاعت کیلئے جو غیر معمولی کام انجام دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اردو زبان کے عناصر خمسہ (محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر ، سرسید، حالی اور علامہ شبلی) میں شامل ہیں ، ان کے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اردو پڑھنا، پڑھانا اور نئی نسل کو اردو کی محرومیت سے بچانا ضروری ہے۔ سرسید نے ہر مذہب کے سائنٹفک مطالعہ پر زور دیا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جو سائنس سے مطابقت رکھتا ہے، متصادم نہیں ہے The Bible the Quran and Science by Maurice Bucaille) ۔موریس بکائے لی کی کتاب میں تمام مذہبی کتابوں کا موازنہ سائنس سے کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مذہبی یا آسمانی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے جو سائنس سے متصادم نہیں ہے۔ اس لئے اسلام کیلئے سائنسی علم جس قدر بڑھے گا وہ اسلام کی ترقی و اشاعت میں ممد و معاون ہوگا۔ سرسید کے بہت سے مثبت پیغامات ہیں ۔ ان کی عملی طور پر پیروی کرنی چاہئے۔ یہی ان کے خراج عقیدت یا خراج تحسین کیلئے بڑی چیز ہوگی۔

  یہ دنیا کو معلوم ہے کہ رسول اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ پر سر ولیم کی کتاب کی تردید میں 12 مقالات 1869-70ء کے دوران شائع کئے۔ انھوں نے اپنے مقالات کا انگریزی ترجمہ اجرتاً جس انگریز سے کرایا تھا اس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ’’اس کی لیاقت کا کوئی انگریز ہندستان میں نہیں ہے۔ اس کتاب کا اردو ایڈیشن مع جدید اضافہ جات کے ’’الخطبات لاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ‘‘کے عنوان سے تقریباً 17سال بعد 1887ء میں شائع ہوا۔ سرسید احمد علیہ الرحمہ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک زندہ و جاوید رہے گا۔

1 تبصرہ
  1. ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کہتے ہیں

    سرسید احمد خان پر ڈاکٹر عزیز سہیل کا مضمون کا فی معلوماتی او ہے

تبصرے بند ہیں۔