محمد نظام الدین ۔ تواضع کا پیکر، عمل کا کوہِ گراں

کچھ یادیں کچھ باتیں

عبدالعزیز
کامریڈ محمد نظام الدین کی موت کی خبر سن کر بیحد افسوس ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے کوئی چیز مجھ سے چھن گئی ۔ چوراسی پچاسی سال کی عمر تھی مگر جب بھی ملتے تھے ایسا لگتا تھا کہ جواں سال اور جواں فکر ہیں۔ چہرہ پر مسکراہٹ رہتی، گفتگو شگفتہ ہوتی، کھل کر ملتے، بیچ میں کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی۔ مجھے لگتا تھا کہ ان پر پارٹی یا اشتراکیت کا غلبہ شدت کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ تواضع اور انکساری کو اولیت دیتے تھے۔ ایسے وقت میں جب ریاستی حکومت کے ظلم و جبر کی وجہ سے بہت سے کمیونسٹوں کو شہر چھوڑنا پڑا تھا کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا پڑا۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے دوست محمد یعقوب صاحب کے ساتھ نظام الدین صاحب سے دہلی کی جامع مسجد کے قریب ملاقات ہوگئی۔ نظام صاحب اگر چہ دہلی کے ایک ہوٹل میں پناہ گزیں تھے، پھر بھی وہ ہنستے ہوئے ملے۔ ہوٹل میں ہم لوگوں کو لے گئے اور خاطر داری کی۔ ہم لوگوں کو پیسے دینے نہیں دیا اور کہا کہ ’’ہم تم لوگوں سے بڑے ہیں‘‘۔ نظام الدین صاحب کو معلوم تھا کہ ہم لوگ جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع میں آئے ہیں۔ ہم لوگوں کا اسلام سے گہرا تعلق اور غلبہ حق پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ہم لوگوں کو ہوٹل لے گئے۔ بہت دیر تک ہم لوگ کھلے ماحول میں اسلام اور اشتراکیت کی باتیں کرتے رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسوبھی نظام الدین صاحب کو صرف کمیونسٹ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی باتوں اور خصلتوں کی وجہ سے انھیں مسلمان بھی سمجھتے اور کہتے تھے۔
1984ء کی بات ہے ۔ ہم لوگ وزیر اعلیٰ جیوتی باسو سے ملاقات کیلئے گئے تھے۔ ان کو ایک خط دینا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایکشن کمیٹی کی طرف سے تحفظ شریعت کیلئے بند کا اعلان کیا گیا تھا۔ شاہ بانو کے مقدمہ کے بعد کی صورت حال تھی۔ مسلم تنظیموں کی طرف سے بھی مخالفت ہورہی تھی۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی بھی مخالفت کر رہی تھی۔اردو صحافت کا ایک حصہ کی طرف سے بھی پرزور مخالفت ہورہی تھی کہ بند سے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ ایکشن کمیٹی کا وفد کے ارکان گفتگو کر رہے تھے کہ نظام الدین صاحب کمرہ میں داخل ہوگئے۔ جیوتی باسو نے ہنستے ہوئے کہا ’کمیونسٹ مسلمان‘ آگیا۔ جب میں نے کہاکہ نظام صاحب کمیونسٹ بھی ہیں اور مسلمان بھی تو وزیر اعلیٰ نے ہاں کہہ کر جواب دیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جیوتی باسو کو بھی اس اصطلاح سے کوئی تنگی محسوس نہیں ہوتی۔ نظام الدین صاحب نے بند کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ’’بند نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حالات خراب ہوسکتے ہیں‘‘۔ وزیر اعلیٰ جیوتی باسو نے کہاکہ ’’ان لوگوں نے ہمیں ایک خط دیا ہے جس میں ہم پر نظم و نسق کی ذمہ داری ڈالی ہے‘‘۔ وزیر اعلیٰ کو بھی اپنے آپ پر بھروسہ تھا کہ وہ نظم و نسق کو بگڑنے نہیں دیں گے اور ہم لوگوں نے بھی ان کو یقین دلایا تھا کہ مسلمانں کی طرف سے حالات کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے کامریڈ کی بات نہیں سنی۔ بند پُر امن ہوا اور نہایت کامیاب ہوا۔ مخالفین بھی اسے تائید ایزدی کہنے پر مجبور ہوئے۔
نظام الدین صاحب ہم جیسے تحریک اسلامی کے کارکنوں سے ملنے سے ڈرتے نہیں تھے۔ ایک صاحب سی پی ایم کے ایم پی تھے۔ ان سے بھی میرا تعلق تھا۔ میرے بیٹے کا ولیمہ تھا وہ دعوت دینے کے باوجود غالباً پارٹی کے ڈر سے دعوت میں نہیں آئے مگر نظام الدین صاحب تشریف لائے اور خوش خلقی سے لوگوں سے ملاقات کی۔ ریاست میں اس وقت سی پی ایم کی حکومت تھی۔
نظام الدین صاحب کی ایک بڑی خصوصیت مسلم اداروں سے لگاؤ تھا۔ مولانا اسحق مرحوم کہا کرتے تھے کہ نظام صاحب کی وجہ سے انجمن گرلس اسکول میں وہ سائنس کا شعبہ کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ نظام الدین صاحب ہر ملی کام میں میرا کھل کر ساتھ دیتے ہیں اور ہر مسلم ادارہ کی فلاح و ترقی کے خواہاں رہتے ہیں۔ عملی طور پر ہاتھ بٹاتے ہیں۔
محمد نظام الدین جھگڑوں اور تنازعوں کو سلجھانے میں بھی کوشاں رہتے تھے۔ ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ کا ایک مسئلہ تھا ، جسے انھوں نے خوش اسلوبی سے حل کرایا۔ اپنے قریبی آدمی کو ہی ملت کیلئے صلح صفائی پر زور دیا۔ آخر اسے ان کی باتوں کے سامنے سر تسلیم خم8 کرنا پڑا۔ کوئی بھی ان کو فون کرتا اسے ریسیو کرتے اور ہر ایک کیلئے اپنا دروازہ کھلا رکھتے۔ جب ایم ایل اے تھے تو ان کی پارٹی کی حکومت تھی۔ جب بھی لوگوں سے ملتے خندہ پیشانی سے ملتے۔ ہر ایک کے کام کو سرگرمی سے کرتے تھے۔ جھوٹا وعدہ طفل تسلی شاید کسی کو نہیں دیتے تھے، جس کا کام نہیں کرسکتے تھے منہ پر بولتے تھے کہ یہ کام وہ نہیں کرسکتے۔ تانتی باغ کے لوگ ان کے بڑے مداح رہتے تھے۔ کوئی کام ہو ان کے پاس جاتے تھے اور امید کرتے تھے کہ ان کا کام ہوجائے گا۔ سیاستدانوں میں اکثریت تو ان کی ہے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں مگر نظام الدین صاحب میں یہ عادت نہیں تھی۔ لکھنے کی تو بہت سی باتیں ہیں مگر ایک مختصر سے مضمون میں اس کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ ان پر محترم نورالہدیٰ صاحب ’تذکرہ نظامی‘ کے عنوان سے ایک اچھی کتاب بھی شائع ہوگئی ہے جس میں بہت کچھ ان کے متعلق ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔
اللّٰہ کی یاد اور اپنے دانتوں کا ذکر: ڈیڑھ دو ماہ پہلے ایک مجلس میں نظام الدین صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ دیر تک مجلس میں نہیں بیٹھ سکے، کیونکہ اسی روز ان کی سالگرہ تھی لہٰذا انھیں اپنے بچوں میں لوٹ جانا تھا۔ شاید ان لوگوں کی طرف سے ان کی سالگرہ پر کچھ اہتمام تھا۔ مرحوم مجلس کیلئے بھی کیک لانا نہیں بھولے۔نظام صاحب نے اپنے دانت دکھاتے ہوئے کہاکہ اللہ کے فضل و کرم سے میرے بتیس کے بتیس دانت صحیح سلامت ہیں۔ ایک بھی نہ ٹوٹا اور نہ نکلا ہے۔ پھر کہنے لگے ایک دن میرے گھر میں محمد امین صاحب آئے، پوچھنے لگے ’’نظام صاحب آپ نے دانت کہاں سے بنوائے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’امین صاحب! یہ تو اللہ میاں کے عطا کردہ دانت ہیں‘‘۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔
چند دنوں پہلے ان کو فون کیا مگر شاید وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اٹھا نہ سکے اور مجھے ان کی بیماری کا علم بھی نہیں تھا۔ بعد میں ان کا فون آیا ، ان کی آواز سنی مگر لائن کٹ گئی۔ کیا معلوم تھا کہ یہ آواز اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہوجائے گی۔ علامہ اقبالؒ نے زندگی کو ایک چڑیا کہ چہچہاہٹ سے تعبیر کیا ہے ؂
زندگی انسان کی ہے مثل مرغ خوشنوا ۔۔۔ شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا ، اڑ گیا
جو لوگ دوسری دنیا کو نہیں مانتے ان کو بھی اور جو مانتے ہیں ان کو بھی دوسری دنیا میں گئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ موت در اصل دوسری زندگی کی خبر ہے ؂
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے ۔۔۔ خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

تبصرے بند ہیں۔