مولانا جمیل احمد قاسمی مدنیؒ: نقوش و تاثرات

محمد سالم قاسمی سریانوی

11/ نومبر 2018ء مطابق 2/ ربیع الاول 1440ھ اتوار کی شام عشاء کے قریب کا وقت تھا، بندہ مادر علمی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور جامعہ آباد کمرے میں موجود کھانا کھارہا تھا، اسی دوران ایک طالب علم کمرے میں داخل ہوا اور کہا کہ ’’حضرت سرپرست چل بسے‘‘، بات سمجھ میں نہیں آئی، استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے جامعہ کے سرپرست حضرت مولانا جمیل احمد صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس کے کچھ دیر کے بعد استاذ محترم حضرت مولانا مفتی احمد الراشد صاحب مبارک پوری قاسمی مد ظلہ کا فون آیا کہ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب کا ابھی کچھ دیر پہلے دیوبند میں انتقال ہوگیا ہے، ان دونوں باتوں کا سننا تھا کہ مختلف قسم کے خیالات ذہن ودماغ میں گردش کرنے لگے اور طرح طرح کی باتیں قلب ودماغ پر وارد ہونے لگیں اور عجیب طرح کا احساس ہورہاتھا، جیسے یہ لگ رہا تھا کہ مولانا کے انتقال کی خبر جھوٹی ہے، کیوں کہ ابھی تو وہ ہمارے درمیان تھے، ایسے کیسے انتقال فرماسکتے ہیں، لیکن خبر چوں کہ مصدق تھی اس لیے خواہی نہ خواہی تسلیم کرنا ہی تھا، بالآخر ’’إنا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھا، اور دل کو نظام خداوندی کے تحت صبر وتسلیم پر مجبور کیا۔ للہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شيء عندہ بأجل مسمی۔

حضرت مولانا جمیل احمد صاحب علیہ الرحمہ بلا شبہ ‘‘استاذ العلماء‘‘ اور استاذ الاساتذہ‘‘ تھے، اور ہمارے دیار میں تقریبا یہ دونوں لقب حضرتؒ کے لیے استعمال ہوتے تھے، مولانا نے اس دار فانی میں قدرے طویل وقت گزارا اور اس انداز سے زندگی بسر کی دوسروں لیے آئیڈیل اور نمونہ بن گئے، بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ طوالت عمر کی وجہ سے ان کی زندگی کی حالت بدل جاتی ہے اور ایسی چیزیں در آتی ہیں جو ’’ارذل عمر‘‘ کے مصداق میں داخل ہوجاتی ہیں، لیکن اللہ کے فضل واحسان سے مولانا کی زندگی نہایت ہی بہترین اور صاف شفاف تھی، اور ’’أي الناس خیر؟ قال: من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘ (ترمذی) کا عملی مصداق تھی، کہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون شخص ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے اعمال بہترین ہوں۔

حضرت مولانا ؒ نے زندگی کے تمام ادوار کو دیکھا اور پرکھا، مختلف علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا، بل کہ آپ نے اپنی زندگی کا تہائی سے زیادہ حصہ دوسرے ملک میں گزارا، آپ کی خدمات کا کل دورانیہ قریب اڑتالیس (48) سال یعنی نصف صدی پر محیط ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو مختلف خصوصیات اور گوناگوں امتیازات سے نوازا تھا، آپ نیک صالح انسان، بہترین مربی، مخلص استاذ، متانت وسنجیدگی کے پیکر، خلوص وللہیت کے پرتَو، تواضع ومنکسر المزاجی کے عکس، حلم وبردباری کے نمونہ اور تصنع وبناوٹ سے بے خبر ہونے کے ساتھ مختلف النوع خصوصیات کے مالک تھے، جن کو مجھ سے زیادہ وہ حضرات جانتے ہیں جنہوں نے آپ سے تعلیم حاصل کی اور آپ سے استفادہ کیا، چوں کہ بندہ کا زمانہ نہایت بعد کاہے، بندہ نے مولانا کو اس وقت جانا جب آپ نائیجیریا میں تھے، لیکن اس میں بھی صرف نام ہی تک سے واقفیت تھی، جب وہاں سے ریٹائر ہوکر وطن تشریف لائے تب لامحدود مرتبہ بندہ نے ان سے ملاقات وزیارت، بات چیت اور قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل کیا، جو کہ مجھ جیسے تہی دامن انسان کے لیے بہت ہی خوشی ومسرت کی بات ہے، بندہ نے اگر چہ ان سے کچھ بھی نہیں پڑھا ہے، لیکن جب ملاقات ہوتی تھی تو ایسا لگتا تھا میں ان کا کوئی ادنی شاگرد ہوں، نہایت بشاشت، خوش اسلوبی اور منکسر المزاجی سے ملتے تھے، اور خیر خبر دریافت فرماتے تھے، بندہ کی آپ سے بارہا ملاقاتیں رہی ہیں، لیکن کبھی بھی میں نے آپ کو تصنع وبناوٹ کے ساتھ نہیں دیکھا، بل کہ ہمیشہ سادگی کے ساتھ پایا، گویا آپ اس پہلو سے ’’البذاذۃ من الإیمان‘‘(ابو داؤد) کے عملی پیکر تھے، یعنی کہ ’’سادگی ایمان کا حصہ ہے‘‘ حقیقت یہ ہے آپ متنوع کمالات اور خصوصیات وامتیازات کے حسین وجامع مرقع تھے۔

  آپ کی سادگی اور تکلفات سے علاحدگی تو اتنی تھی کہ ہم جیسے معمولی افراد کی بھی درخواستوں کو قبول فرمالیا کرتے تھے،2015ء کا ذکر ہے کہ ہمارے محلہ میں ایک دینی واصلاحی جلسہ کا پروگرام بن رہا تھا، جس میں صدارت کے لیے آپ ؒ کا نام طے ہوا، اور مجھے ہی اس تعلق سے بات کرنے کے لیے ذمہ دار بنایا گیا تھا، اس وقت حضرت مولانا ؒ جامعہ عربیہ احیاء العلوم کے کارگزارناظم تھے، بندہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور نیاز مندانہ طور اپنی بات پیش کی، مولانا کو اس وقت گھٹنے میں زیادہ تکلیف رہا کرتی تھے، اس لیے اس کی بناء پر عذر فرمانے لگے، بندہ نے اصرار کیا اور مکرر درخواستیں کی اور عرض کیا کہ حضرت یہ اس سال کا آخری جلسہ ہے، اس کے بعد رمضان سے پہلے کسی اور جلسہ کی تاریخ نہیں ہے اور نہ ہی امید ہے، اس لیے سال رواں کا آخری جلسہ ہی سمجھ کر شرکت کی منظوری فرمادیں، تو فرمانے کے لیے کہ کوئی اور بھی تو آسکتا ہے، اگر وہ بھی آکر یہی کہنے لگے تو کیا ہوگا، میں نے عرض کیا کہ حضرت اس طرح کسی جلسہ کا مجھے علم نہیں ہے، اس لیے منظوری دے دیں، چناں چہ بار بار درخواست کرنے پر منظور فرمالیا، اور اس جلسہ میں شریک ہوئے، صدارتی کلمات سے بھی ہم سب کو مستفیض فرمایا۔

 استاذ گرامی نمونۂ سلف حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب مبارک پوری قاسمی دامت برکاتہم نے جو کہ حضرت مولانا کے اجل تلامذہ میں سے ہیں ’’تعزیتی اجلاس‘‘ میں جو کہ انتقال کے بعد مرکزی جامع مسجد مبارک پور میں منعقد ہوا تھا حضرت کی سادگی اور تواضع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مولانا کہ اندر تواضع اور سادگی بہت زیادہ تھی، بعض مرتبہ ہم کو اس کی وجہ سے شرم محسوس ہونے لگتی تھی، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ خود نیچے زمین پر تشریف فرماہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ تم اوپر بیٹھ جاؤ۔

 مولانا مرحوم بہترین اور کامیاب مدرس تھے، جس کی شہادت اکناف عالم میں پھیلے ہوئے آپ کے تلامذہ دے رہے ہیں، کچھ بڑی ہستیاں آپ کے تلامذہ کی ایسی تھیں جو خود آپ سے پہلے ہی اس بے وفا دنیا کو چھوڑ کر جاچکی ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد اب بھی ایسی موجود ہے جو کہ بذات خود نمونہ کے انسان ہیں، آپ مدرس ہونے کے ساتھ ایک عمدہ خطیب ومقرر بھی تھے، آپ نہایت سادگی کے ساتھ اپنے البیلے انداز میں تقریر فرماتے تھے، مختلف جلسوں میں بندہ نے آپ کی تقاریر کو سنا ہے، اب بھی ایسا لگتا ہے آپ کا کوئی بیان ہورہا ہے اور بندہ محوِ سماع ہے۔

مولانا مرحوم محلہ پورہ دلہن کے باشندہ تھے، جو کہ مبارک پور کا زرخیز اور علم وعلماء نواز محلہ ہے، آپ کی ولادت بروایت حضرت الاستاذ مفتی محمد صادق صاحب دامت برکاتہم صاحبزادہ گرامی مولانا مرحوم 1939ء ہے، جب کہ پاسپورٹ پر 1940ء درج ہے، آپ کی ابتدائی تعلیم قرآن وغیرہ کی گھر پر ہی ہوئی، جب کہ مکتب کی مکمل تعلیم مدرسہ عربیہ دار التعلیم(جو کہ اہل حدیث مکتب فکر کا مبارک پور میں ایک قدیم ادارہ ہے) میں حاصل کی، اور وہیں پر کسی استاذ کے یہاں قدیم رواج کے مطابق فارسی کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد دیار مشرق کے علمی ومرکزی ادارہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم میں زیر تعلیم رہے اور یہاں عربی پنجم تک متوسطات کی تعلیم حاصل کی، جس میں آپ کے اساتذہ میں فقیہ زمانہ مفتی محمد یٰسین صاحب مبارک پوری، مولانا بشیر احمد صاحب مبارک پوری اور مولانا محمد یحیی صاحب رسول پوری رحمہم اللہ بطور خاص نمایاں ہیں، اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا سفر کیا اور وہاں پر عربی ہفتم میں داخل ہوئے، 1958ء میں دورۂ حدیث شریف سے رسمی فراغت حاصل کی، اس کے بعد مزید علمی تشنگی کی سیرابی اور کمال کے لیے ’’تکمیل فنون‘‘ میں داخلہ لیا اور دو سال میں مکمل کرکے 1960ء میں دار العلوم سے وطن واپس تشریف لائے، دا ر العلوم میں آپ نے اس وقت کے کبار اساتذہ جیسے مولانا سید فخر الدین صاحب مرادآبادی، علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی اور قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ وغیرہ حضرات سے اکتساب علم وفضل کیا اور علمی صلاحیت کو پروان چڑھایا۔

مبارک پور واپس آنے کے بعد مادر علمی جامعہ عربیہ احیاء العلوم میں 1960ء میں مدرس ہوئے، اسی سال حضرت مولانا محمد مسلم صاحب بمہوریؒ بھی احیاء العلوم میں مدرس ہوئے، آپ مولانا مرحوم کے درسی ساتھیوں میں سے تھے، حضرت ؒ نے احیاء العلوم میں قریب 15/ سال تک تدریسی جواہر پارے بکھیرا اور بڑے بڑے اہل علم وفن کو تیار کیا اور ان کو تراش کر ایسا عمدہ بنایا کہ وہ آگے چل کر خود دوسروں کو تراش کر انسان بنانے لگے، بقول مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ کے آپ نہایت سادہ اور عمدہ مدرس تھے، تدریس کی صلاحیت بہت ہی عمدہ تھی، عربی ادب سے خصوصی دل چسپی رکھتے تھے۔ (دیکھئے حکایت ہستی)

آپ کے تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں آفتاب بھی ہیں تو ماہتاب بھی نظر آتے ہیں، ان میں بطور خاص مولانا ابو بکر صاحب غازی پوریؒ، مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ، مولانا توفیق احمد صاحب ناظم مدرسہ حسینیہ جون پور، مفتی محمد امین صاحب شیخ الحدیث ومفتی جامعہ عربیہ احیاء العلوم، مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی استاذ حدیث وسابق ناظم تعلیمات احیاء العلوم، مولانا لیاقت علی صاحب کوپاگنجی وغیرہ بہت مشہور ومعروف ہیں۔

 احیاء العلوم میں آپ کا تدریسی دورانیہ تقریبا پندرہ سال رہا ہے، جس میں ابتدائی، متوسطات اور اعلی درجہ کی مختلف کتابیں آپ نے بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ پڑھائیں، اس کے بعد خدا جانے کیا ہوا کہ احیاء العلوم چھوڑ کر مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں 1976ء سے 1979ء تک چار سال  تعلیم حاصل کی، اس کے بعد وہیں سے نائیجیریا افریقہ کے ایک بے آب وگیا علاقہ میں دینی خدمت کے لیے مبعوث کیے گئے، چناں چہ وہاں آپ نے ایک چھوٹے مکتب سے اپنی عظیم اور شاندارخدمات کا آغاز کیا، اور 27/ سال تک قریب تین دہائی دینی وعلمی خدمات میں منہمک رہے اور اس خطہ کو علم وعمل سے مہکا دیا، جس کی روداد بندہ نے حضرت کی مختلف تقریروں میں سنی ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا کہ آپ نے اس کے لیے بہت پاپڑ بیلے اور جان فشانی اور بہت تندہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔

 27/ سال تک دینی خدمات انجام دینے کے2006ء میں ریٹائر ہوئے اور گھر پر آکر مقیم ہوگئے، اور مختلف زاویوں سے دین کی خدمت کرتے رہے، 2013ء میں جب حضرت مولانا عبد المعید صاحب قاسمی صدر جمعیۃ علماء اعظم گڑھ احیاء العلوم کی نظامت سے علاحدہ ہوئے تو جامعہ کی مجلس شوری نے آپ کو باصرا کارگزار ناظم کے عہدہ پر فائز کیا، آپ نے خوش اسلوبی اور بشاشت کے ساتھ کار نظامت کو انجام دیا، جب کہ اس وقت آپ گھٹنوں کے مرض کی وجہ کافی پریشان رہا کرتے تھے، اسی لیے زیادہ وقت تک اس عہدہ کو برقرار نہیں رکھا، تقریبا دو سال تک اس عہدہ پر فائز رہے اور تکلیف میں اضافہ کی وجہ سے نظامت کے عہدہ سے دست بردار ہوگئے، اس کے بعد اپنے گھر پر ہی مقیم رہے، اور محلہ کے مدرسہ تعلیم الدین کے ناظم بھی رہے، اسی کے ساتھ جامعہ رشیدیہ بمہور کی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔

 آپ کو ادھر گھٹنوں کی تکلیف کے علاوہ کوئی خاص بیماری نہیں تھی، البتہ سالوں پہلے ایک مرتبہ ہارٹ اٹیک کا حملہ ہواتھا، انتقال سے تین دن پہلے دیوبند کا سفر کیا، جہاں پر آپ کے پوتے نے حفظ قرآن کی تکمیل کی تھی، اسی میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے، لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا، اور دیوبند کے مشہور اسپتال ڈی کے جین میں داخل کرائے گئے، لیکن کچھ زیادہ افاقہ نہیں ہوا، اور 11/ نومبر 2018ء مطابق 2/ ربیع الاول 1440ھ اتوار کی شام عشاء کے قریب ساڑھے سات بجے اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے۔ ’’إنا للہ وإنا إلیہ روجعون‘‘

 آپ کے جسد خاکی کو آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد عارف جمیل صاحب زید مجدہم استاذ ادب دار العلوم دیوبند کے مکان پر لایا گیا، دار العلوم کے بیشتر اساتذہ اور دیگر حضرات فوری طور پر آپ کے دیدار اور تعزیت کے لیے تشریف لائے، تعزیت کرنے والوں کا ہجوم لگ گیا، دوسرے دن دار العلوم کے احاطۂ مولسری میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم دار العلوم دیوبند کی امامت میں بعد نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی، اور قبرستان قاسمی میں جہاں اکابر وبزرگان دیوبند محوخواب ہیں ان کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا

پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا

  آپ نے اپنی زندگی کی 79/ بہاریں دیکھیں اور مختلف نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے مالک حقیقی سے جاملے، آپ نے جہاں روحانی وعلمی اولادوں کا ایک بڑا حصہ چھوڑا وہیں پر آپ کی صلبی اولاد بھی ہیں، جن میں دو اپنی مثال آپ ہیں، آپ کے پس ماندگان میں کل چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، لڑکوں میں حضرت مولانا محمد عارف جمیل صاحب قاسمی زید مجدہم استاذ ادب دار العلوم دیوبند، مولانا مفتی محمد صادق صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ نور الاسلام ولید پور مئو، حافظ محمد سالم صاحب اور جناب محمد عاقل صاحبان ہیں، اور آپ کی تینوں لڑکیاں اپنے اپنے سسرال میں ہیں، ایک لڑکی محلہ حیدرآباد مبارک پور میں، ایک محلہ نوادہ مبارک پور میں اور ایک ولید پور مئو میں ہیں۔ لڑکوں میں حضرت مولانا محمد عارف جمیل صاحب قاسمی زید مجدہم استاذ ادب دار العلوم دیوبند اور مولانا مفتی محمد صادق صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ نور الاسلام ولید پور مئوکو اللہ رب العزت نے مختلف خصوصیات سے نوازا ہے، دونوں حضرات دار العلوم دیوبند کے فضلاء میں سے ہیں، ان دونوں میں نہایت ہی نمایاں نام مقدم الذکر حضرت مولانا محمد عارف جمیل صاحب کا ہے، آپ نے دورہ میں پہلی پوزیشن سے کامیابی حاصل کی تھی، اور آج عربی ادب کے بہترین استاذ اور دار العلوم کے عربی مجلہ ’’الداعی‘‘ نائب ایڈیٹر ہیں۔ ( طوالت کے خوف سے ان حضرات کا تذکرہ ترک کرہا ہوں، کسی اور موقع سے ان شاء اللہ ان کا تذکرہ کیا جائے گا)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا مرحوم کی لغزشوں اور خطاؤں سے در گزر فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے۔

أولئک آبائي فجئني بمثلہم

إذا جمعتنا یا جریر المجامع

تبصرے بند ہیں۔