مولانا عبد الحنان صاحب مفتاحی: آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

لقمان عثمانی

میں نے جس گھر میں آنکھیں کھولیں وہ علمی گھرانہ، جس خانوادے سے میرا تعلق رہا وہ اصحاب علم کا مخزن اور جس ماحول میں پلا بڑھا وہ علما کے پاکیزہ انفاس سے معنبر؛ تا آں کہ جس قصبے کی علمی فضا سے ہمیشہ مشامِ جاں کو معطر کرتا رہا وہ نہ صرف بیگوسرائے، بلکہ اسکے اطراف میں بھی ”علما کے گڑھ“ جیسی عظیم صفت و عالی نسبت کے ساتھ موصوف و منسوب کیا جاتا آرہا ہے؛ کیوں کہ وہاں کی زر خیز مٹی کو بے شمار علمائے کرام کے وجود بخشنے اور انہیں اپنی آغوش فضل و کمال میں پروان چڑھتے دیکھنے کا شرف حاصل ہے ـ

بیگوسرائے کی اک چھوٹی سی، مگر عوام میں معروف اور خواص میں مقبول بستی: ”چلمل“ میں خود کو دینی علوم سے لیس کرنے اور وہاں عقائد ضالہ کے بڑھتے ہوئے سیلاب بلا خیز کے آگے درست افکار، صحیح نظریے اور معتبر خیالات کا باندھ باندھنے کا سلسلہ میرے جد امجد: علامہ عثمان غنی ―رحمہ اللہ― (شیخ الحدیث مظاہر علوم (وقف) سے شروع ہوا اور انہوں نے ہی رب کریم کی موہوب توفیق سے دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر اپنے علاقے کے سب سے پہلے عالم ہونے کا اعزاز حاصل کیا: ―حضرت علامہ کی شخصیت و خدمات پر گفتگو ان شاءاللہ پھر کبھی― بعد ازاں حضرت علامہ کی عہد ساز، دلنواز و سحر طراز شخصیت سے استفاضہ کر کے اپنے دامن میں علوم و فنون کے یواقیت و لاٰلی اور جواہر کو یکجا اکھٹا اور مجتمع کرنے والے با فیض تلامذہ تیار ہوئے اور پھر اس سلسلۃ الذہب کا تسلسل مستقل طور پر آگے بڑھتا چلا گیا؛ یہاں تک کہ ایک سے بڑھ کر ایک عالم دین اس دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہوئے؛ جنکے علمی اقتدار و تخلیقی استعداد جگ آشکارا ہے، اور ―الحمد للہ― یہ مبارک و مسعود سلسلہ آج تک اسی نہج پر چلتا آرہا ہے ـ

حضرت علامہ کی علمی لیاقت و تعلیمی صلاحیت سے چلمل کی کئی عظیم ہستیوں کو اکتساب فیض کا موقع ملا؛ جنکے مبارک ناموں کی ایک لمبی فہرست تیار ہو سکتی ہے؛ لیکن ان چند آفتاب و مہتاب میں سے (یہاں پر) قابل ذکر نام: جناب حضرت مولانا عبدالحنان صاحب مفتاحی ―نوراللہ مرقدہ― کا ہے؛ جو حضرت علامہ کے بھانجے بھی تھے ـ

مولانا مفتاحی نے 1952ء میں اپنی آنکھیں کھولیں اور جناب محمد عباس ―رحمہ اللہ― کے گھر میں پہلی سانس لی اور وہیں سے انکی حیات مستعار کی قیمتی ساعتیں شروع ہوگئیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ قیمتی ساعتیں ماضی کا حصہ بنتی و یادوں کا حسین گلدستہ تیار کرتی چلی گئیں ـ

مولانا مفتاحی کی ذات گرامی: ضخامت الجثہ، جسامت البدن، انکسار المزاج، عاجزی و خاکساری، تذلل و تواضع،  میانہ قد، کڑک آواز، آفتابی چہرہ اور ہنس مکھ طبیعت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر معرض وجود میں آئی تھی، نیز وہ بہت سارے فضائل و محاسن کا مجموعہ اور اپنے اندر لا متناہی صفات حمیدہ، عادات جمیلہ و کمالات علمیہ کو سمیٹی ہوئی تھی:

اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا

مولانا مفتاحی نے چند سالوں تک مظاہر علوم سہارنپور میں بھی اپنی علمی تشنگی بجھائی؛ لیکن فراغت "مدرسہ مفتاح العلوم مئو” سے ہوئی اور اسی کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ "مفتاحی” لکھا کرتے تھے ـ

فراغت کے بعد تدریسی میدان میں قدم رنجہ ہوئے اور مدرسہ حنفیہ تیلنی پاڑہ، جامعہ اسلامیہ برونی اور مدرسہ مفتاح العلوم مولانا باغ پپرول سمیت متعدد مدارس، یکے بعد دیگرے ―بہ حیثیت استاذ و ناظم― انکی توجہ کا مرکز و محور رہے ـ

مدرسہ حنفیہ تیلنی پاڑہ میں ―جس کا قیام حضرت علامہ کے ہاتھوں ہی عمل میں آیا تھا― عرصۂ دراز تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے، اسکے بعد تقریبا 16 سال تک جامعہ اسلامیہ برونی میں قیام پذیر رہے ـ

 اسی دوران پپرول کے مدرسہ کو پستی میں جاتے دیکھ کر لوگ اپنی حسرت بھری نظریں دوڑانے لگے؛ جنہیں کسی ایسے دیدہ ور، ذمہ دار و قابل و مقبول شخص کی تلاش تھی؛ جو مدرسے میں اعلی تعلیم کا نظم کر کے طلبہ کو دینی علوم سے آراستہ و پیراستہ کرے اور مدرسے کا اہتمام و انصرام کو بھی بہ خوبی چلائے؛ چناچہ سب کی نظروں نے مولانا مفتاحی کی عظیم و قابل رشک شخصیت کا انتخاب کیا اور ان کے سامنے مدرسے کی باگ ڈور سنبھالنے کی عرضی پیش کی اور اپنے طور پر اسکو چلانے کی پر زور درخواست کی؛ جسکو انہوں نے قبول فرمایا اور  1997ء میں پپرول تشریف لے آئے اور سب سے پہلے اس مدرسے کا نام تبدیل کرکے اپنے مادر علمی کے نام پر "مفتاح العلوم” رکھا اور اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ (20سال) اسی مدرسے کی نذر کر دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ انکو انتخاب کرنے کا فیصلہ بجا و روا اور بر حق تھا ـ

 تا اینکہ انہوں نے اپنے حصے کی زندگی جی کر، چھ دہائی سے زائد بہاریں دیکھ کر، اپنا سایۂ عاطفت سمیٹ کر، ہزاروں آنکھوں کو اپنے ہی آنسوؤں میں ڈبو کر، ہموم و غموم کے طوفانی نرغے میں ہمیں جھونک کر، دنیا کے مختصر سفر کو پورا کر کے ابدی سفر پر نکل گئے اور اس دار فانی کو الوداع کہہ کر دار باقی کی طرف کوچ کر گئے اور چھوڑ گئے تو بس اپنی یادوں کے گلدستے کو یا پھر لوگوں کے دلوں میں اپنے ثبت کردہ نقوش کو:

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں 

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں 

چناں چہ: 15 دسمبر 2017 بروز جمعہ، سات بجے صبح، فون کی گھنٹی کے بعد کانوں سے اک خبر ٹکرائی؛ جس سے نہ صرف جسم پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی بلکہ آنکھیں بھی غیر اختیاری اشکبار ہونے لگی اور دور ہونے کے سبب سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نا آیا؛ وہ خبر یہ تھی کہ: سرزمینِ چلمل ایک اور سایہ دار درخت سے محروم ہوگئی اور مولانا عبد الحنان صاحب طویل علالت کے بعد اس دنیا سے رو پش ہوگئے:

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

تبصرے بند ہیں۔