انسانی عقل، عالمگیر تہذیب اور زبان کی اہمیت

مجاہد حسین

ریسرچر چینل 92 اسلام آباد

فرض کریں زمین کے اندر چھوٹے چھوٹے آہنی خول دفن ہیں جن میں ایک ایک انسان مقید ہے۔ ہر خول کے اوپر ایک چھوٹا سا شگاف ہے جس کے ذریعے سطح زمین پر ہونے والی سرگرمی کا ایک قلیل سا حصہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر شگاف کا زاویہ باقیوں سے مختلف ہے۔ کوئی عمودی منظر دکھانے کے قابل ہے تو کسی کے ذریعے افقی زاوئیے کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ گویا ہرانسان کو دکھائی دینے والا منظر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے تمام انسانوں سے مختلف ہے۔ اس لئے جو فرد جتنا حصہ دیکھ پائے گا اسی کے مطابق باہر کی دنیا کے بارے میں ایک ذہنی تصویر بنائے گا اور نظریات قائم کرے گا۔

ہم جس ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں ، جس طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، جن حالات سے گزرتے ہیں اور جیسی افتاد طبع لے کر جنم لیتے ہیں ، یہ تمام اور ان جیسے دیگر بہت سے عوامل ہماری شخصیت کا ایک مخصوص سانچہ بنا دیتے ہیں ۔ اسے وہ آہنی خول سمجھ لیجئے جس کے ہم تمام قیدی ہیں اور اس معمولی سے شگاف کو عقل جان لیجئے جو ہمیں ودیعت کی گئی ہے جبکہ باہر کا ماحول وہ سچائی ہے جس کی ہم ہر معاملے میں تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ ہماری افتاد طبع،  ماحول، تعلیم وغیرہ جیسے عوامل مل کرسچائی تک رسائی کومحدود کردیتے ہیں ۔ اسی طرح انفرادی عقل بھی جزویات کی حد تک ہی کام کر سکتی ہے۔ آفاقی سچائیوں کا ایک طویل کوہ ہمالیہ ہے جس کی کسی چھوٹی سی وادی کے ایک مختصر سے حصے میں ہم تمام عمر گھومتے رہتے ہیں ۔

انسان کی اس عقلی و طبعی تحدید پر قابو پانے کا ایک رستہ قدرت نے زبان کی شکل میں فراہم کر دیا ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کی بدولت ہم اپنے حصے کی سچائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے پر قادر ہو گئے ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ اپنے اپنے خول میں مقید ان افراد کوقدرت نے موبائل فون عطا کر دیئے ہیں تاکہ سب ایک دوسرے سے بات کرکے اور مل کرسچائی کی ایک بڑی تصویرتشکیل دے سکیں ۔ یہ کام ہزارہا سال سے جاری ہے اوراس کی بدولت انسانیت کا ایک مشترکہ علمی چشمہ تخلیق ہو چکا ہے جہاں سے جرعہ بہ جرعہ تحصیل علم کر کے ہم اپنی سوچ کووسعت دیتے ہیں اور اس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔

مغرب کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے علم کے اس پھیلاؤکا سب سے بڑا رستہ جنگیں تھیں ۔ جب دو معاشرے یا تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ٹھیں تو اس کا ایک ضمنی نتیجہ دونوں کے درمیان علم کا تبادلہ ہوتا تھا جس کی بدولت منجمد معاشروں میں تخلیقی تحرک پیدا ہوتا تھا۔

عربوں نے جب فارس فتح کیا تو جمود میں مبتلا اس معاشرے کا تخلیقی ذہن بیدار ہوا۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کے نتیجے میں یورپ کو ایک ترقی یافتہ مسلمان تہذیب سے واسطہ پڑا تو ان کے اپنے اندرعلم کی بیداری پیدا ہوئی اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے جنم لیا۔ جدید دور سے پہلے کی تمام تاریخ میں سب سے زیادہ جنگوں کے ذریعے ہی علم کا تبادلہ ہوا ہے۔ تاہم اس دور میں آگے بڑھنے کا سفر بہت سست رفتار تھا۔

علم بانٹنے کے اس سست رفتار عمل کو چھاپے خانے کی ایجاد سے ایک مہمیز ملی اور جدید علوم کا ایک ایسا انقلاب برپا ہو گیا جس کی نسل انسانی میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔ چند ہی صدیوں میں انسان علم کے میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
چھاپے خانے نے ایک تو کتاب کی چھپائی آسان اور سستی کر دی جس کی وجہ سے لوگ اپنی بات کو معاشرے کے بڑے طبقے تک پہنچانے کے قابل ہو گئے۔ دوسرے اس کی وجہ سے انسانوں کا مشترکہ علم محفوظ ہو گیا۔ اس سے پہلے انسانیت کا بہت بڑا علمی سرمایہ مرور زمانہ کے ہاتھوں ضائع ہوچکا تھا۔ کتاب کی اشاعت کی وجہ سے پچھلی کئی صدیوں کا تمام علم ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اقلیم علم کی سرحدیں وسیع تر ہوتی گئیں اور کسی انسان کے لئے ممکن نہ رہا کہ وہ اتنی عظیم وسعتوں کو تن تنہا ماپ سکے۔ اسی وجہ سے علوم کی تخصیص نے جنم لیا۔ جب تک انسان تمام علوم کو کسی مشینی ذریعے انسانی دماغ کا حصہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہمیں آگے بڑھنے کے لئے تخصیص سے ہی کام لینا پڑے گا۔

انٹرنیٹ کی ایجاد کے ساتھ ہی علم کی شئیرنگ کا اگلا دورشروع ہوا جس کے اثرات سے کوئی تہذیب محفوظ نہ رہ سکی۔ دور قدیم میں مختلف تہذیبوں کے درمیان جو کام جنگوں کے ذریعے انتہائی سست رفتاری سے ہوا کر تا تھا، وہ اب پرامن طریقے سے شروع ہو گیا ہے۔ تمام تہذیبیں آپس میں جڑ رہی ہیں اور تبادلہ علم ایک نئے فیز میں داخل ہو گیا ہے جس کے اثرات کو ہم محسوس تو کر رہے ہیں مگر ابھی اس کی تمام جہتوں کا ادراک نہیں کر سکتے۔ تاہم ایک بات اب یقینی لگتی ہے اور وہ یہ کہ عنقریب انسانیت کو علم پھیلانے کے لئے جنگ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اس لئے غالب امکان ہے کہ اسی صدی میں ہی غلامی کی طرح جنگ کا ادارہ بھی متروک ہو جائے گا۔ یہ انقلابی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں ہو پائے گی جب تک کہ ایک بڑی رکاوٹ دور نہیں ہو جاتی جس نے ابھی انٹرنیٹ کے ممکنات کو پوری طرح بروئے کار آنے سے روکا ہوا ہے۔

اگرچہ انگریزی زبان ایک عالمگیر ذریعہ ابلاغ کا ذریعہ بن چکی ہے تاہم انسانوں کا انتہائی قلیل حصہ اس زبان کے ذریعے اپنی بات کا مکمل ابلاغ کر سکتا ہے۔ دنیا میں مختلف زبانوں کا وجود تمام انسانوں کے آپس میں جڑنے کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مختلف سافٹ وئیرز کے ذریعے مختلف زبانوں کے خودکار تراجم کی صلاحیت کو کمال درجے تک پہنچا یا جائے۔

یہ کام ابھی تو اپنے ابتدائی دور سے گزر رہا ہے لیکن اگلی دو تین دہائیوں میں ہم اس بات پر قادر ہو جائیں گے کہ کسی بھی زبان میں لکھی یا بولی گئی بات کو اپنے پورے مفہوم کے ساتھ ایک خودکار نظام کے ذریعے دوسری زبان میں ترجمہ کر سکیں ۔ جس دن ہم نے یہ منزل پا لی اس دن ایک نئی طرزکا انقلاب آئے گا جس کے اثرات کا ابھی ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ مختلف معاشرے اور تہذیبیں ہل کر رہ جائیں گی۔ روایات و اقدار کی دنیا اس طرح اتھل پتھل ہو گی کہ کمزور تہذیبیں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ یوں سمجھئے کہ علم کا ایک سرکش دریا ہے جو اپنی حدود سے باہر آ کر ارد گرد کی تمام زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے مچل رہا ہے۔ تاہم مختلف زبانوں کی موجودگی نے اس پر ایک مضبوط بند باندھ دیا ہے۔ امید تو یہی ہے کہ اگلی دو تین دہائیوں میں یہ بند ٹوٹ جائے گا اور ہم ایک عالمگیر تہذیب کی طرف سفر شروع کریں ۔

اس نئی پیش رفت میں امکانات کا ایک نیا جہان چھپا ہے جس کے بارے میں ابھی ہمارے ہاں زیادہ غور وفکر نہیں ہو رہا۔ لسانیات کے موضوع نے اس وقت فلسفے میں جو اہمیت حاصل کر لی ہے وہ بے سبب نہیں ہے کیونکہ فلسفہ ایک ایسا علم ہے جو روح عصر کی پکار سننے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔

زبانوں کے آپس میں خود کار تراجم کا ایک فوری نتیجہ تو یہ ہو گا کہ علم پر انگریزی زبان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ ہر کوئی اپنی مادری یا قومی زبان میں علم کے تمام تر ذخیروں تک رسائی کے قابل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے جو مباحث ہو رہے ہیں انہیں اس پہلو سے دیکھیں تو قومی یا علاقائی زبانوں کی اہمیت ابھر کرسامنے آتی ہے۔ ہماری روایات و اقدار کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اردو زبان پر توجہ دیں اوراس میں زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کریں ۔ مستقبل میں جس زبان میں وسعت ہو گی وہ اس عالمگیر تبدیلی کے سامنے نہ صرف خود کو برقرا ر رکھ سکے گی بلکہ اس کی روایات نئے کلچر کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔