حجاب کے خلاف فلم کا حقیقت پسندانہ جائزہ

آہ!بیچاروں کے اعصاب پہ‘‘عورت’’ہے سوار

برقعہ وحجاب کے خلاف بنائی گئی فلم کا حقیقت پسندانہ جائزہ

    ایک بار پھر انسانیت شرمسار ہوگئی،عفت وحیا کا جنازہ نکل گیا،مساوات کے نام پرصنف نازک کی عزت وعصمت سرعام نیلام  کی گئی اورمغرب کے انسان نما درندوں نےبرقعہ اور حجاب کی کردار کشی کے ذریعہ اسلامی اقدار و روایات پر شب خون مارنے کی ایک اورناپاک  کوشش کی،یوں انڈین سینسر بورڈ کی اجازت کےبعد بالی وڈ کی متنازع ترین فلم ‘لپ سٹک انڈر مائی برقعہ’ ریلیز ہوکر منظر عام پر آگئی۔

اخباری ذرائع کے مطابق یہ فلم دراصل عورتوں کے جنسی تخیل کی کہانی ہے،ایک ایسی کہانی جوبھوپال کی چار خواتین کے گرد گھومتی ہے؛جس میں چاروں کو جنسی طور پر منحرف دکھایاجاتا ہے،۱۵سے۵۵ برس کی یہ خواتین معاشرے کے تمام بندھنوں کو توڑکرعمر کا لحاظ کئے بغیرشوہر اور باپ کی نظروں سے دورعریانیت کا ننگا ناچ کرتی ہیں،اس پر طرفہ یہ کہ وہ حجاب کوقید وبند تصورکرتی ہوئی اس کے خلاف نعرہ ٔ احتجاج  بلندکرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ اس فلم کے ذریعہ یہ پیغام دیاگیاکہ اسلام کا قانون حجاب ایک خوفناک زنجیر ہے؛جس میں عورتوں کوبری طرح جکڑدیاجاتاہے ،ان کے خواہشات کا استحصال کیاجاتاہے ، ان کورونق محفل بننے اور مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنےسے روک دیاجاتاہے ……بایں ہمہ مسلم معاشرے میں باپ کا کردار نہایت ظالمانہ ہوتاہے وہ اپنی بیٹی کےساتھ ہمیشہ تلخ و تند لہجے میں گفتگو کرتاہے ،اس کو بار بار دھمکیاں دیتاہے حتی کہ جائز و شرعی حدود سے بھی اس کو محروم کردیتاہے ۔

شوہر کے تعلق سے یہ تصور دیاگیاکہ وہ خود تو ڈھنگ اورلگن سے نہیں کماتانہ بیوی کو  کمانےکے لئےباہر نکلنے کی اجازت دیتاہے؛ بل کہ باہر دوسری عورتوں کے ساتھ شناسائی رکھتاہےاورمن مانی کرتاہے،اس طرح اولاد کی تربیت و نشو نما ایک دشوارگزارمسئلہ بن جاتاہےاس طرح نکاح عورت کے لئے وبال جان ثابت ہوتاہے۔وغیرہ وغیرہ

یہ تھی اس فحش فلم سے متعلق وہ ضروری تفصیلات جو‘‘ بی بی سی’’ سمیت متعدد نیوزپورٹلوں میں نشرکی گئیں۔

اب آئیے اسلام کے قانون حجاب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں !اور دیکھیں کہ  کیا واقعی حجاب عورتوں کےلئے ظلم ہے ؟

حجاب کیا ہے ؟؟

حجاب،مسلم معاشرے میں عفت و پاکیزگی کے فروغ اور حیاءوپاکدامنی کے تحفظ کابنیادی ذریعہ ہے ،حجاب ،خاتون مشرق کے سر کا تاج اورآنکھ کا کاجل  ہے،حجاب،حیادار معاشرے کی شاہ کلید اور صالح انقلاب کا ہے،

در اصل ا سلام نےعورت کو نگینے اور آبگینے جیسی حساس، نازک طبع اور قیمتی چیز سے تشبیہ دی ہےاور زندگی کے ہرشعبے میں ان کی صنفی نزاکت کا بھرپور خیال رکھاہے،اس لحاظ سے دیکھاجائے تو حجاب کے احکامات عورت کے لیےایک حسین تحفہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

زمانہِ قدیم سے ہی حجاب مشرقی روایت و جذبات کا عکاس رہا ہے ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشرق کو جو چیز مغرب سے ممتاز کرتی ہے وہ حجاب کا استعمال ہے،احکامِ حجاب نہ صرف مرد خواتین کی معاشرتی حدود کا تعین کرتے ہیں بلکہ اسکی وسعت و سوچ کی پاکیزگی سے لیکر مرد و عورت کے دائرہ عمل سمیت معاشرتی زندگی کے بیشترحصوں کا احاطہ کرتےہیں۔

ایک نوبل انعام یافتہ مسلم لڑکی سے کسی صحافی نے پوچھا ؛ آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں جب کے آپ باشعور ہیں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے؟

اس عظیم لڑکی نے جواب بھی لاجواب دیا :’’ آغازِ کائنات میں انسان بالکل بے لباس تھا اور جب اْسے شعور آیا تو اس نے لباس پہننا شروع کیا ،آج میں جس مقام پر ہوں اور جو پہنتی ہوں وہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے، حجاب تحفظ و اعتماد کا احساس عطا کرتا ہے، یہ قدامت پسندی نہیں ہے،ہاں اگر لوگ پرانی قوموں کی طرح پھر سے بے لباس ہوجائیں تو یہ قدامت پسندی ہے ۔

اس عورت سے خوبصورت کوئی نہیں اس دنیا میں جو صرف اور صرف اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے پردہ کرتی ہو.

حجاب اور نو مسلم خواتین :

       نومسلم ہندو دو شیزہ کملا داس جن کا اسلامی نام ثریا ہے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ آپ کو اسلام میں سب سے زیادہ پرکشش بات کیا لگی؟ کہا:مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ میں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اس کو احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کو چھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ (ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ نئی دہلی 28 دسمبر 1999ء)

ثریا نے اب برقعہ کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔ وہ پردے کے بغیر زندگی کو آزادی نہیں سمجھتی بلکہ ایسی آزادی کو عورت کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے اس سوال پر کہ کیا برقعہ آپ کی آزادی کو متاثر نہیں کرتا؟ کہا:

’’مجھے آزادی نہیں چاہئے۔ اب تو آزادی میرے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کیلئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی، ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے، پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے، پردہ تو عورت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ ہے‘‘۔ (ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 116)

ایک اورنومسلم دوشیزہ صونی رولڈاپنی سرگزشت اس طرح سناتی ہیں کہ’’میں نے سر ڈھانپنا شروع کیا تو میرے باپ کا تبصرہ یہ تھا کہ بڈھی کھوسٹ لگنے لگی ہو۔ یہ تبصرہ آج کل عام ہے۔ لوگ سر پر اسکارف باندھنا ترک کر چکے ہیں اس لئے شاید وہ مجھے عجوبہ سمجھتے ہیں۔ بہر حال میں تو اپنے آپ کو عجوبہ نہیں سمجھتی ہوں، میں مسلمان ہوں اور میں ناروے میں غیر ملکی ہوں۔ میرے مسلم احباب زیادہ تر عرب یا پاکستانی ہیں اس ماحول میں مجھے گرمجوشی، تدبر اور دانائی ملتی ہے، ایسی دانش جو ناروے کے انفرادیت پرست ماحول سے کوسوں دور ہے‘‘۔(ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 224)

حجاب پرپابندی کی اصل وجہ :

حجاب کے بارے میں کئی ایک نقطہ نظر پائےجاتے ہیں ۔کچھ لوگ حجا ب کو روایت سمجھ کر مخالفت کر تے ہیں۔ اور کچھ اسے دین اسلام کا حکم سمجھ کر مخالفت کرتے ہیں۔کچھ اسے خواتین پر پابندی قرار دیتے ہیں،کچھ اسے عورت کی حفاظت سمجھتے ہیں۔

جن ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں حجاب اوربرقعہ پرپابندی عائد کی جارہی ہے،ان ملکوں میں اسلام کی مقبولیت غیر معمولی طور پربڑھ رہی ہے اورغیرمسلم مردوں کے ساتھ تعلیم یافتہ عورتیں خاصی تعداد میں اسلام قبول کرر ہی ہیں اس لہر نے لوگوں کو حواس باختہ بنا دیاہے۔ خاص طور پر9/11کے سازشی حادثہ کے بعددنیا کےتمام مذاہب کی نظر اسلام پرمرکوز ہو گئی ہے اوراس کے ایک ایک جزپر جس سے مسلمانوں کی انفرادیت اورامتیاز کاپتہ چلتا ہے اس کے خلاف بڑی دیدہ ریزی سے تحقیق کر کے اس میں کیڑے نکالے جارہے ہیں اس کا ایک حصہ حجاب اوربرقعہ بھی ہے۔

دراصل ان سیکولرز ،لبرلز اور لا دین لوگوں کا مسئلہ حجاب نہیں ہے بلکہ اسلام ہے اور جب جب جہاں جہاں انہیں اسلام پھلتا پھولتانظر آتا ہے وہیں انہیں بے چینی شروع ہو جاتی ہے، ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہےاور ان کی ساری روشن خیالٖی ،برداشت ،احترامِ انسانیت کا سبق،اور اعلی اقدار کسی اندھے کنوئیں میں جا بیٹھتے ہیں۔

ان جنسی درندوں کو مسلم خواتین کے چہروں پرنقاب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ نظرآتا ہے انہیں عورتیں برہنہ ہی اچھی لگتی ہیں۔حجاب اوربرقعہ ایک وبائی مرض کی طرح سارے یوروپی ممالک کے حکمرانوں کے اعصاب پر سوارہوچکاہے ۔ فرانس ،بیلجیم ،اسپین،اٹلی ،ہالینڈ،جرمن ،آسٹریلیاسارے ملکوں کا حجاب اہم ایجنڈا بنا ہواہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یوروپی ممالک سے ایسی کوئی نہ کوئی خبریں موصول ہو رہی ہیں جس سے یہ صاف اشارے مل رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے یوروپی سماج کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں۔معلوم ہوتا ہے برقع ہی آج کے دور کا ایسامسئلہ بن گیا ہے جس سے دنیا کی ترقی اوریوروپی سماج متاثر ہو رہاہے اورجب تک مسلم خواتین پردہ ترک نہیں کرتیں،مین اسٹریم میں جگہ نہیں بنا سکتی ہیں۔ان کو سمجھانا ممکن نہیں ہے کہ برقعہ عورتوں کو بااختیار بناتا ہے یہ ان کا اضافی امتیاز اورپہچان ہے۔ہم دوسروں کا روناکیاروئیں ہمارا اپناگھر اپنے چراغ سے جلنے لگاہے۔مغرب زدہ مسلم ممالک میں بھی پردہ کی مخالفت کی جارہی ہے اوراس کے تعلق سے قرآن وحدیث اوراسلامی معاشرہ کے بر خلاف حجاب اوربرقع کے تعلق سے وہی بولی بولی جارہی ہے جو ان کے یوروپی آقا پیش کر رہے ہیں۔

جب کہ غورکیاجائےتو ہندوستان سمیت دنیابھر کے تمام ممالک میں بڑھتی ہوئی فحاشی ،بے راہروی اور بے حیائی اور اس سے جنم لینے والی بے شمار برائیوں کی بنیادی وجہ بے پردگی اور بےحجابی ہے۔

کینڈا کے مشہور مبصرہنری مسکاؤ جومذہباً عیسائی ہیں لکھتے ہیں کہ

”میں نے اپنے کمرہ میں دو مختلف عورتوں کی تصویریں ایک ساتھ لگا رکھی ہیں۔ایک تصویر، برقعہ پوش خاتون کی ہے جو سر سے پیر تک اس طرح ڈھکی ہوئی ہے کہ اس کا کوئی حصہ نہیں نظرآتا۔دوسری تصویر میں ایک عورت کے جسم پر صرف بکنی ہے اور ہر کوئی اس کا سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔یہ دونوں تصویریں تہذیبی کشمکش کی مظہر ہیں ،کسی بھی کلچر میں عورت کا کردار مرکزی حیثیت رکھتاہے۔میرے نزدیک برقعہ عورت کی پاکیزگی اورتقدیس کا غمازہے۔مسلم عورت کامحور توجہ اس کاگھر ہے جسے وہ بناتی اورچلاتی ہے،بچوں کی پرورش اوربڑوں کی مددکرتی ہے۔اس کے برعکس بکنی پوش عورتیں عملاً عریاں ہوتی ہیں،شارع عام پرٹی وی پرلاکھوں کے سامنے اپنی نمائش کرتی ہیں،عملی اعتبار سے وہ ایسی پبلک پراپرٹی ہے جوکسی کی نہیں لیکن سب کی ہے۔وہ خود کو لگاتار سربازار بیچتی رہتی ہے۔مغرب میں عورت کا تہذیبی پیمانہ اس کی جنسی کشش ہے۔اس کشش کے معدوم ہوتے ہی وہ منظر سے غائب ہو کر متعدد مصیبتوں میں گھر جاتی ہے کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔”

ایک مغربی نقاد کے اس خوبصورت تجزیے اورتقابل سے ہر وہ شخص برقعہ کی اہمیت کو سمجھ سکتاہے جو عورت کی سماج میں اصل عظمت اورقدرومنزلت کو تسلیم کرتاہے لیکن جنسی وحشیوں اور عورتوں کے بیوپاروں کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی خاص طور پر جب کسی مذہب کے تعلق سے تعصب وعناد کوٹ کوٹ کر بھرہوا ہو۔

تبصرے بند ہیں۔