خدا کرے صوتی آلودگی کی سزا مسلما نوں کو نہ ملے

حفیظ نعمانی

ہم نے کئی روز پہلے لکھا تھا کہ بات صوتی آلودگی کی نہیں ہے بلکہ ہر مسجد سے اذان کے ذریعہ جو اعلان کیا جاتا ہے اس پر پابندی لگانا ہے۔ ہم نے اس لئے کہا تھا کہ 15  جنوری کے بعد جب تک واضح الفاظ میں اجازت نہ ملے مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر سے اگر اذان دی بھی جائے تو آواز بہت ہلکی کردی جائے۔ کل ایک ہندی اخبار میں وضاحت تھی کہ آواز اتنی ہو جو عمارت کے اندر ہی رہے باہر نہ جائے۔ اور ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ مقصد صرف یہی ہے۔

رہی صوتی آلودگی تو جن کے ہاتھ میں حکومت ہے ان کا دھرم ہی ناچ گانا اور شور مچانا ہے۔ آج سے ڈیڑھ مہینہ کے بعد ہولی جلائی جائے گی ہولی جہاں جہاں جلے گی اور وہ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر جلتے ہی وہاں شام سے پوری آواز میں لائوڈ اسپیکر کھول دیئے جائیں گے جو ساری رات اتنا شور کریں گے کہ جن کا ہولی سے کوئی تعلق نہ ہو وہ بھی نہیں سو سکیں گے۔ اور اس شور میں نہ کوئی دھرم کرم کی بات ہوگی نہ ہولیاروں کو کوئی دھرم کی بات بتائی جائے گی بلکہ صرف فلمی گانوں کے ریکارڈ بجائے جائیں گے اور وہ گانے بجائے جائیں گے جن میں چیخ پکار زیادہ ہو۔ اور آپ اطمینان رکھئے کہ نہ کوئی عدالت صوتی آلودگی کی بات کرے گی اور نہ کوئی حکومت۔ اور ہولی ہی نہیں حاکم طبقہ کے ہر تہوار میں صرف فلمی گانوں کے ریکارڈ بجتے ہیں یا شور ہوتا ہے ۔

2015  ء کے آخر میں ہندو دھرم کے ایک مانے جانے والے سنیاسی شری شری مہاراج نے جمنا کے کنارے ایک پروگرام کیا تھا جس کا رشتہ دھرم سے بتایا گیا تھا لیکن اس میں صرف ناچ گانے اور ثقافتی پروگرام ہوتے رہے اور ان کے پروگرام میں سارے بڑے کام   فوج کے جوان کررہے تھے اور سامان بھی سب فوج کا تھا اس لئے کہ اس پروگرام میں وزیراعظم بھی شریک تھے اور جب وزیراعظم بھی آئیں تو پھر وہ تقریب سرکاری کیوں نہ ہو جائے۔ گذشتہ ہفتہ گورکھ پور مہوتسو وزیر اعلیٰ نے کرایا جب اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کئے تو جواب ملا کہ وہ تو صرف ناچ گانا تھا اور بس۔ لیکن لائوڈ اسپیکر کا شور کتنا تھا اس کا کوئی حساب نہیں۔

بارہ بنکی میں جگہ جگہ سے خبریں آئیں کہ پولیس نے درخواست کے ساتھ حلف نامہ بھی لکھوایا جس میں صبح 06  بجے سے پہلے اور رات کو 10  بجے کے بعد لائوڈ اسپیکر کی آواز نہ سنی جائے۔ رمضان شریف مئی کے درمیان سے شروع ہورہے ہیں عشاء کی نماز 8:45بجے سے پہلے شروع نہ ہوسکے گی اور جن مسجدوں میں پانچ یا تین پارے تراویح میں پڑھے جائیں گے وہ 10  بجے سے پہلے ختم نہیں کرپائیں گے اور قریب قریب 4بجے فجر کی اذان ہوگی اس سے پہلے دو تین بار سحری کے لئے بتایا جاتا ہے اس لئے مسجدوں میں صبح 6 بجے سے پہلے لائوڈ اسپیکر نہ کھولنے کا حلف نامہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟

اب صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ 20  جنوری کے بعد بغیر اجازت کہیں مسجد میں لائوڈ اسپیکر سے اذان نہیں ہوگی۔ اور چھوٹی چھوٹی بستیوں میں پولیس نے لائوڈ اسپیکر اُتروانا شروع بھی کردیئے ہیں۔ اور جو اخبار ہمارے پاس آتے ہیں ان میں صرف مسجدوں کے معاملات کا ذکر ہے جبکہ سرکاری اعلان جو بھی آتا ہے اس میں مندر کا ذکر پہلے آتا ہے لیکن نہ کسی مندر سے لائوڈ اسپیکر کا اُتارتے ہوئے فوٹو چھپا اور نہ مندر کے پجاریوں کی پریشانی کی کوئی خبر کم از کم ہماری نظر سے نہیں گذری۔

ہم اس واضح فرق کی جو بات بار بار کہہ رہے ہیں وہ قیاس کی نہیں اپنے تجربہ کی ہے ہم جب جیل میں تھے تو عید بھی وہاں آئی ہم نے ڈپٹی جیلر مسٹر تیواری سے کہا کہ وہ اس کی اجازت دے دیں کہ ہم اپنے گھر سے ایک بڑا پتیلا اور سامان منگوالیں اور جلانے کی لکڑی بھی منگوالیں صرف جگہ کی وہ اجازت دے دیں جہاں سیوئیں پکوالیں۔ انہوں نے روکھے انداز میں جواب دیا کہ کسی نئے کام کی میں کیسے اجازت دے دوں آپ جس کو سیوئیں کھلانا چاہتے ہیں  اگلے سال انہیں گھر بلاکر کھلا دیجئے گا۔ اور یہی تیواری تھے کہ جب ہولی آئی تو رات بھر سپاہیوں کے ذریعہ شراب کی بوتلیں آتی رہیں اور دن میں وہ خود بار بار ہولیاروں کے پاس آئے کہ جس چیز کی ضرورت ہو بتائو باہر سے منگوا دی جائے گی اور جب زیادہ شور ہوا تو ہم دیکھنے نکلے کہ کیا ہوگیا؟ تو جیل کے سرکل میں ڈھول تاشے زنانہ کپڑوں میں ایک لڑکا پائوں میں گھنگھرو باندھے ناچ رہا تھا اور کوئی نہیں تھا جسے افسر کہا جاتا ہے۔ پوری جیل ہولیاروں کے سپرد تھی اور پانی کی طرح شراب چل رہی تھی۔

 بس اس کو ذہن میں رکھا جائے کہ صوتی آلودگی صرف مسجد کی اذان سے ہوتی ہے نہ ہر تہوار میں اور نہ ہندو گھرانے کی ہر تقریب میں کان پھاڑ دینے والے فلمی گانوں سے ہوتی ہے اور ان گانوں کا انتخاب کوئی نہیں کرتا جس کا لائوڈ اسپیکر ہوتا ہے اس کے پاس جو بھی گھسے پٹے ریکارڈ ہوتے ہیں وہ بجاتا رہتا ہے گھر والوں کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اتنا شور ہو جو گھر میں ہر آدمی یا عورت چیخ کر بولے۔ ہمیں یقین ہے کہ قارئین کرام میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے ان حالات سے سابقہ نہ پڑا ہو۔ آخر میں اتنا عرض کردیں کہ اطلاع کے مطابق لکھنؤ میں مسجدوں کو اجازت دینے میں ابھی کسی نے شکایت نہیں کی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔