علی گڑہ مسلم یونی ورسٹی میں دلت رزرویشن کا شوشہ 

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ملک کا ممتاز ترین تعلیمی وتربیتی مرکز ہے، ملک میں سیکڑوں ریاستی اور مرکزی سطح کے ادارے ہیں، اس کے علاوہ  ان گنت کالج اور اسکولس ہیں جو ہماری نسلوں کو علم وعرفان جیسے اہم ترین زیور سے آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں،ان میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت افادیت مسلم ہے، مگر جو مقام و مرتبہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کا ہے، شاید ہی وہ منصب ملک کے  کسی اور ادارے کو میسر ہو، کہنے کا مقصد یہ ہیکہ تعلیم کے اعتبار سے  ہوسکتا ہے ملک کی دیگر یونیورسٹیاں دانشگاہ علیگڑہ سے بہتر ہوں، مگر دانشگاہ علیگڑہ  میں بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ  طلباء کی مثبت تربیت، کردار سازی کی طرف خاصی توجہ مبذول کیجاتی ہے۔

 وہیں انسان دوستی، قومی ہمدردی ملی احساس، بھائی چارگی، وطن دوستی اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے بھی مادر درسگاہ کو جاناجاتا ہے، چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مذکورہ اوصاف حمیدہ ہی نےدانشگاہ علیگڑہ کو ممتاز و جداگانہ حیثیت تک پہنچایا ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے سماج اور معاشرہ کی روشن خطوط پر رہنمائی کرتے ہیں لہذا حکومتوں کو چاہئے کہ وہ تعلیمی.اداروں کو سیاست کا اڈا نہ بنائیں، علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں  محمد علی جناح کی تصویر کو لیکر تعلیم مخالف عناصر نے کافی واویلا مچایا اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی سعی کی گئی،  مگر اس کا جو فائدہ یا نقصان حکمراں جماعت کو ہوا وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے، حتی کہ کیرانہ کے  ضمنی الیکش میں حکمراں جماعت کو جناح کی تصویر نہیں جتا سکی، کیونکہ ملک کی عوام حکومت کی پر فریب چالوں کو بخوبی جان چکی ہے،  اس کے باوجود  آئے دن نئے مدعے ابھارنا اشتعال انگیز بیان دینا بی جے پی کا شاید محبوب مشغلہ بن چکا  ہے۔

ملک کا ہر شہری جانتا ہے کہ جناح کی تصویر کا بھوت ابھی تک اترا نہیں تھا کہ یوپی کے سربراہ یوگی آدتیہ ناتھ کو اچانک دلت رزرویشن کی یاد آگئی اور انہوں نے کہ ڈالا کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلتوں کو رزرویشن دیا جانا چاہئے، وہیں قومی کمیشن کے چئرمین رما شنکر کٹھیریا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کرڈالی اور دلت رزرویشن کی مانگ کر کے ملک میں ایک نئی سیاسی بحث چھیڑنے کا کام کیا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ حکمراں جماعت اگر دلتوں کے لئے اتنی مخلص اور سنجیدہ ہے توضروری ہیکہ جہاں جہاں بھی دلتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں پہلے ان کا مستحکم سدباب کیاجا نا  ضروری ہے، اگر آموختہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ گزشتہ چار برسوں میں ہجومی تشدد نے  مسلمانوں کو مخصوص پروپیگنڈہ اور منصوبہ بند سازش کے تحت لوجہاد، گئو رکھشا، اور گھر واپسی کانام دیکر اور  کبھی مسلم اقلیت کی  حب الوطنی کو مشکوک ٹھہراکر زدوکوب کیا جاتارہا ہے۔

افسوس اس بات کا ہیکہ ابھی تک ان سماج دشمن عناصر کے خلاف کوئی مضبوط کاروائی نہیں ہوئی  اگر اس جانب ریاستی اور مرکزی حکومتیں ٹھوس قدم اٹھاتی تو دادری میں  اخلاق کو بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد دوبارہ کوئی بھی سر پھرا کسی مسلم کو مارنے کی ہمت نہیں جٹا سکتا، مگر مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے کی وجہ سے اور حکومت کی خاموش پشت پناہی سے لگاتار فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوتے رہے اور ایک کے بعد ایک واردات انجام دیجاتی رہی جو ملک کی جمہوریت کو شرمشار کرنے کے لئے کافی ہیں ۔

  اسی طرح  دلتوں کو  بے تحاشا مظالم کا شکار بنایا گیا ہے، سہارنپور سے لیکر مہاراشٹر کےکورے گاؤں، گجرات اور ملک کے دیگر مقامات پر نا جانے کتنی ظلم و ستم کی آندھیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے، اور پیہم یہ سلسلہ جاری ہے، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ پہلے وہ کمزور طبقات، محنت کش اور مزدورں  کی حفاظت کا مکمل بندوبست کرے نیز وہیں  ان کو معاشی طور پر بھی مستحکم  کرنے کی پالیسی اپنائے، اور انسانیت سوز مظالم کرنے والوں پر سخت ترین کاروائی کیجائے، رہا سوال علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں دلت رزرویشن کا تو اس بابت یہ کہنا مناسب معلوم ہو تا ہے کہ آئندہ سال عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اس لئے اب حکمراں جماعت نے ان مدعوں کا  دوبارہ راگ الاپنا شروع کردیا ہے جن کے بل بوتے پر گزشتہ انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی، ادھر دلتوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی پالیسی ہے کیونکہ حکومت کو معلوم ہے کہ دلت بھاری تعداد میں ناراض ہیں، اوربغیر دلتوں کے ملک میں اقتدار حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کی واضح مثال 2014 کے عام انتخابات ہیں اس لئے بی جے پی علیگڑہ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ میں رزرویشن کی بات کررہی ہے۔

 حکومت کی نیت صاف نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کو سیاسی مدعا بناکر فائدہ حاصل کرنے کی ناکام سعی کررہی  ہے، یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حکومت ان تمام وعدوں کی تکمیل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے جن کو گزشتہ انتخاب میں بنیاد بنایا تھا، اسی لئے کبھی رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ عوام کے سامنے آجاتا ہے تو کبھی اقلیتی تعلیمی اداروں میں دلتوں کو رزرویشن کی بات اٹھنے لگتی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کے ذہن کو حقیقی مدعوں سے دور رکھنے کے لئے وقفہ وقفہ سے نئے مسائل کھڑے کئے جاتے رہے ہیں، اور میڈیا نے اسے ایسے پیش کیا ہے کہ جیسے سب سے بڑی ضرورت عوام کی یہی ہے، حکومت کے حقیقی چہرے کو ابھی تک میڈیا نے انصاف سے نہیں دکھایا ہے، بلکہ فضول باتوں میں لگائے رہنے کا حکومت کے منصوبہ کو میڈیا نے بھی بہت حد تک کامیاب کیا ہے، جبکہ جمہوری ملک میں جمہوریت کے چوتھے ستون کو جانبداری سے نہیں بلکہ ایمانداری سے حکمراں جماعت کی کارکردگی کو دکھانا چاہئے تاکہ جنتا کو حکومت کے متعلق جو غلط فہمیاں پھیل گئیں ہیں وہ دور ہوسکیں اور باہم عوام اور حکمرانوں کے رشتہ بہتر خطوط پر ہموار ہوسکیں، تبھی جاکر عوام اور ملک کی ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے،  ملک کے ہر باشندہ کو سوچنا ہوگا کہ آخر کار کسان کیوں ماتم کناں ہیں؟

 ادھرنوجوانو ں کی بڑی تعداد بے روزگاری کے عالم میں زندگی گزاررہی ہے، ملک میںں سیاسی مقصد کی حصولیابی کے لئے باہم  نفرت کی دیوار کھڑی کی جارہی ہے ملک کا کسان، مزدور، اور دیگر طبقات بے حد پریشان ہیں ان کی تسلی و تشفی کے لئے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ یا پالیسی نہیں ہے، بالائی سطروں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حکمراں جماعت کو ملک کی ترقی یا اس کے جمہوری وقار کو برقرار رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

 یوں تو ملک کی تعمیرو ترقی کے لئے حکمراں جماعت کی کارکردگی کو حکومت  سے وابستہ افراد پانی پی پیکر گنوا رہے ہیں مگر زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ ملک میں نوع انسانی کی غربت اور سطحیت کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی مضبوط کام نہیں ہوا ہے، ہاں  گزشتہ چار برسوں میں اقتدار میں بیٹھے افراد نے صرف سرسبز باغ دکھائے ہیں اور شگوفے چھوڑکر کبھی دلتوں کی تو کبھی مسلم اقلیت کی دل آزاری کا بازار خوب گرم کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں جماعت کو یہ پورا یقین ہو چکا ہے کہ اب اقتدار کی واپسی ناممکن نہیں بلکہ محال ہے اس لئے اقلیتی تعلیمی اداروں کو حکومت نے نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ  ہے ہیاں یہ سمھجنے کی سخت ضرورت ہے کہ دانشگاہ علیگڑہ میں مذہب یا ذات کی بنیاد پر رزرویشن نہیں دیا جا تا ہے ہاں انٹرنل طلباءطالبات کو پچاس فیصد رزرویشن دیاجاتا ہے وہ بھی مذہب اور ذات سے بالاتر ہوکر، ملک کے ہر شہری کو معلوم ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1981 کے تحت منتظم ہے جس نے یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ کا درجہ دیا ہے۔ اس کے تحت سبھی اقلیتی اداروں کو آرٹیکل(5)15کے تحت دیگر رزرویشنوں سے مبرا رکھا گیا ہے۔  سب سے اہم بات یہ ہیکہ اس وقت اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق مقدمہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے بخوشی منظور کیا جائے گا،فیصلہ آنے سے قبل اس طرح کا شوشہ چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے،   اس حقیقت سے روشناس ہونے کے بعد اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حکومت صرف اس کو سیاسی مدعا بنا کر دلت ووٹ بٹورنے کا ناپاک کھیل کھیل رہی ہے، اگر ملک کے منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ جوادارہ اقلیتی درجہ کے حامل ہیں ان  تمام میں   دلت رزرویشن ہے یا نہیں؟

اس ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی حیثیت کا اعتراف سچر کمیٹی کی چشم کشا رپورٹ میں کیا گیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے ہیکہ مسلم اقلیت انتہائی پسماندہ ہے خصوصا تعلیم کو لیکر بہت ہی پیچھے ہیں،  یوں تو مسلمانوں کی تعمیرو ترقی کے لئے سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے خواب دکھا ئے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہیکہ کوئی جماعت دانشگاہ تک  کو اقلیتی درجہ نہیں دلا سکی یہ ان جماعوں  کا حال ہے جو اپنے آپ کو سیکولر کہلاتی ہیں، یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ  آزادی کے بعد سے ابھی تک کوئی مؤثر قدم مسلم اقلیت کی خوشحالی کے لئے نہیں اٹھایا گیا ہے۔صرف حکومتوں نے  مسلمانوں کواپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔

 لے دیکر پورے ملک میں مسلم اقلیت کے تعلیمی ادارے انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہیں اس کے باوجود بھی مسلم مخالف عناصر کو یہ برداشت نہیں ہے کہ مسلمان ہندوستان میں اپنی شناخت اور امتیاز کے تعلیمی ادارے چلا سکیں، جبکہ آئین ہند نے اس بات کی کھلی اجازت دی ہے کہ اقلیتوں کو اپنے اعتبار سے تعلیمی ادارے کھولنے چلانے کی پوری اجازت ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ملک میں چھوٹے بڑے اقلیتی تعلیمی اداروں کی تعداد ہزاروں تک ہے، غور کرنے کی بات یہ بھی ہیکہ ان میں مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے کتنے ہیں؟  دوسری اہم بات یہ ہیکہ دیگر اقلیتی تعلیمی اداروں میں کیوں رزرویشن کی بات نہیں کیجاتی صرف مسلم یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی پر کیوں آئے دن سوال کھڑے کئے جاتے ہیں، دلت رزرویشن کا بہانا بناکر کہیں سماج دشمن عناصر کی یہ تو سازش نہیں ہیکہ اب دلتوں اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کیا جائے اور پھر اس کا فائدہ آنے والے عام انتخابات میں اٹھایا جائے۔

  اس لئے ملک کے سیکولر طبقہ کو سوچنا ہوگا کہ الیکشن سے قبل ہی کیوں ایسے مدعے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لائے جاتے ہیں جو ملک کی صدیوں پرانی روایت قومی اتحاد کوچکنا چور کردیتے ہیں۔ اگر ہم علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کا مطالعہ تعصب کی عینک ہٹاکر کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ ملک کا وہ ممتاز ادارہ ہے جس نے آزادی سے لیکر آج تک ملک کی تعمیرو ترقی اور قومی یکجہتی میں اہم کردار کیا ہے، وہیں  سماجی ہم آہنگی کو مستحکم کیا ہے،  بناء بریں آج ضروت اس بات کی ہے کہ ملک میں ایسی جدوجہد ہو جو ملک کے تانے بانے کو مضبوط و مستحکم کرسکے اور ایسے لوگوں کی باتوں پر قطعی دھیان نہ دیا جائے جو ملک میں تقسیم وتفریق کی فضا ہموار کرتے ہیں، کیونکہ ملک و سماج کی ترقی کا خواب یکجتی کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔