غلام قوم کا ڈیجیٹل و مکتوباتی اور احتجاجی جہاد

ابن تاج

(نئی دلی)

ہم سب غلام ھیں۔ ہمارے بزرگوں کا کہنا ھے کہ ہم ذہنی غلامی کا شکار ھیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم صرف ذہنی ہی نہیں جسمانی غلامی کا بھی شکار ھیں۔ جس قوم کا اپنا قانون کہیں لاگو نہیں ہوتا، جس کے حکمراں مجاھدین کو امریکی اشاروں پر دہشت گرد ثابت کرنے سے نہ چوکتے ہوں ، جن کا اپنا لباس نہ ہو، جن کی اپنی شناخت نہ ہو، وہ قوم کسی صورت آزاد نہیں ہوسکتی۔ ہماری غلامی کے کچھ دلائل ملاحظہ کریں۔

گذشتہ سال political science  کی کلاس میں پروفیسر محب الحق صاحب نے افغانستان میں طالبانی خلافت کے خلاف امریکی ظالمانہ حملے کے سلسلے میں پڑھاتے ہوئے بیان کیا کہ جب (دہشت گرد) امریکہ نے امن پسند طالبانیوں کے ملک پر الزام لگاتے ہوئے حملہ کرنا چاھا تو اس کا نام اس نے operation infinite juctice رکھا، تو نام نہاد اسلامی عرب ممالک اور عرب لیگ چلا اٹھے کہ یہ نام غلط ھے، اور بڑا احتجاج درج کرایا۔ لہذا امریکہ کو نام بدلنا پڑا، اور پھر اس نے نام رکھا۔operation enduring juctice. اب نام نہاد عربی ممالک اور عرب لیگ کی روح کو ٹھنڈک مل گئی اور اس آپریشن کو من اللہ جانتے ہوئے انہوں نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔

آج جب کہ ٹرمپ خبیث نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالسلطنت تسلیم کرلیا ھے، تو آج بھی عرب ممالک عرب لیگ اور ترکی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہوئے ھیں۔ یہ چاھتے ھیں کہ امریکہ اپنا فیصلہ واپس لے، اور کاغذات میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالسلطنت تسلیم نہ کرے۔ ان ممالک کو صرف اپنی بدنامی کا ڈر ھے، اور مسلم عوام سے خوف ھے کہ کہیں یہ ہماری مخالف نہ ہوجائے۔  ۷۰ سالوں سے غاصب یہودیوں نے فلسطین پر ناپاک قبضہ جما رکھا ھے، اور وقتا فوقتا ظلم کی انتہا کرتے رہتے ھیں اس پر عرب، ایران، ترکی کسی کے دماغ میں کھلبلی نہیں مچتی، اگر کبھی کچھ دکھتا ھے تو صرف زبانی جمع خرچ۔

ہم بد تر غلامی کا شکار ھیں۔ ہم اپنے ظالم آقاؤں سے امید کرنے لگتے ھیں کہ وہ ہماری غلامی کی زنجیریں اپنے ھاتھوں سے کھولین گے۔ ہم افغانستان اور عراق سے پہلے بہت پہلے چلتے ھیں 1924 میں جب خلافت ّعثمانی کا خاتمہ کیا گیا، اس وقت ہمارے بزرگان دین انہیں انگریزوں سے خلافت کو قائم رکھنے کی درخواست کر رہے تھے۔ اور تحریکیں چلا رہے تھے۔ جن انگریزوں نے خلافت کے خاتمے کی پلاننگ کر رکھی تھی، وائے ناکامئ جستجو۔

یوں تو ہم پہلے بھی جنگ کی حالت میں تھے جب کہ خلافت عثمانیہ موجود تھی، لیکن اس کے بعد کا دور عجیب غلامی کا دور تھا، پوری امت مسلمہ غلامی کا شکار ھے لیکن غلامی کا اقرار کرنے سے ہچکچاتی ھے، زوال پذیر قومیں کوشش کرتی ھیں ، محنت کرتی ھیں ، لیکن مسلمان قوم آپسی اختلافات کو ہوا دینے کو سب سے بڑا جہاد تصور کرتی ھے۔

ہم سوچتے ھیں کہ مضامین لکھ کر، فیسبک کی ڈیپیاں چینج کرکے۔ اور ٹویٹر ٹرینڈ چلا کر جہاد کا فرض کفایہ ادا کر رہے ھیں ، غلط بالکل غلط اور سراسر جھوٹ، بلکہ مجاہدین کی بدنامی کا سبب، یہ فیسبک، ٹویٹر، وغیرہ اور نیٹ کی دنیا سب یہودی لابیز ھیں۔ ان میں ان کی جو مرضی ہوتی ھے اسے ہی رکھتے ھیں اور جو چیز ذرا بھی مخالف نظر آتی ھے وہ ان کی community standard کے خلاف ہوجاتا ھے۔ امریکی و اسرائلی ظلم و بربریت اور بھگوا دہشت گردی کی پوسٹیں ہزار مرتبہ رپورٹ کرنے کے بعد بھی کمیونٹی کے لئے harmless رہتی ھین اور ان کے خلاف احتجاج درج کرانے والے اردو لکھاریوں کے مضامین جن کو معدود چند لوگ ہی پڑھتے ھیں community standard کی دھجیاں اڑا دیتے ھیں اور اسے ڈلیٹ کردیا جاتا ھے۔  یہ ایک قسم کی ڈیجیٹل دیشت گردی ھے جو صرف مسلمانوں کے ساتھ کی جاتی ھے۔

فیسبک ٹویٹر ایک حد تک ہمارے کام کے ھیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے اصل مقاصد سے ذہن بھٹکانے کا اہم ذریعہ بھی ھیں۔

یہودی لابی کی ایک دوسری مثال اقوام متحدہ دی گریٹ ناجائز اولاد آف یہود ھے، جہاں مظلوم کی زندگی بھر کی کوششوں پر ایک دوغلے ملک کا ویٹو پاور پانی پھیرنے کے لئے کافی ہوتا ھے۔ وہاں پانچ بگ باس بیٹھے ہوئے ھیں جو پوری دنیا کو نچا رہے ھیں۔ جو North Korea  کی طرح عقل مند ہوتے ھیں وہ ناچنا  بند کردیتے ھیں اور طاقت کے حصول کے بعد نچانا شروع کرتے ھیں  اور جو ذلیل و رسوا اور کمزور ہوتے ھیں وہ عرب ممالک کی طرح اس کی رکنیت پانے کے خواہاں بن جاتے ھیں ـ

خیر یہ سب باتیں ہوتی رہیں گی۔ ممکن ھے کاغذی طور پر فیصلہ واپس لے لیا جائے، لیکن ظلم تو بہر حال دو صدی سے جاری ھے۔

اس صورت حال میں ھندوستانی مسلمانوں کا کیا فریضہ بنتا ھے اس پر ہمیں اور ہمارے صالح بزرگوں کو غور فکر کرنے کی ضرورت ھے، اللہ تعالی امت مسلمہ کی تمام مصیبتوں کو دور کرے اور روشن صبح عنایت فرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔