مظفر نگر کے فساد متاثرین کو معاوضہ کب ملے گا؟

محمد انیس الرحمٰن خان

”  ہم حکومت سے عرض کرنا چاہتے ہیںاگر آپ ہمیں پانچ لاکھ نہیں دے سکتے ،توکم از کم دو یا تین لاکھ ہی دے دو،تاکہ کم از کم ہم اپنے رہنے کے لیے ایک گھر کی تعمیر تو کر سکیں۔ ہمارے لئے سات لوگوں کے خاندان کو چلانا بہت مشکل ہے، طاہر ہمیشہ کام پانے اور کچھ کمانے کی کوشش میں گھر سے باہر ہی رہتا ہے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ میرے بچے زیادہ تر کھانے کے وقت میں بھوکے ہی رہتے ہیں”۔

   درج بالا جملہ مظفرنگر فساد سے متاثر ہونے والی عمرانہ کا ہے ۔2013 میں مظفر نگر اور شاملی کے فسادات کے بعد عمرانہ، طاہر زاہد اور ان کے بچوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گئیں۔ انھیں دھمکی دی گئی، ان پر حملہ کیا گیا اور کاکرا گاؤں میں اپنے گھر اور ہر اس سامان کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جن کے وہ کبھی مالک تھے۔2013 میں اترپردیش کی ریاستی حکومت نے معاوضہ کے طور پر انھیں 500,000 روپئے دینے کا وعدہ کیا تھا وہ رقم انھیں اب تک حاصل نہیں ہو پا ئی ہے۔ عمرانہ جیسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین اس درد کو ابھی تک نہیں بھول پائی ہیں۔جب7 ستمبر 2013 کو مظفر نگر شہر کے باہر ایک گاؤں کے ایک بڑے اجتماع میں بااثر جاٹ کمیونٹی کے ہندو رہنماؤں نے 100,000 سے زیادہ لوگوں کے ایک مجمع کو خطاب کیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک تنازع میں ہونے والے دو ہندوؤں کے قتل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔مبینہ طور پر بھارتی جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ذریعہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں، جس میں ان قتلوں کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں کو اکسایا گیا۔ اس اجتماع کے بعد پڑوسی اضلاع میں تشدد بھڑک گیا۔ ان جھڑپوں میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو تین دنوں کے بعد ہی ختم ہوا۔ تقریباً 140 گاؤں سے دسیوں ہزار مسلم خاندان اپنے گھروں سے بھاگنے اور ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔

   26 اکتوبر 2013 کو ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ متاثرین کواپنے گھروں میں منتقلی اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے اُن نو گاؤں کے متاثرین خاندانوں کو 500,000 روپئے کی رقم معاوضے کے طور پر فراہم کرے گی جو بری طرح فساد میں متاثر ہوئے تھے۔ اسی درمیان سول سوسائٹی تنظیموں کو پتہ چلا کہ ریلیف کیمپوں میں رہنے والے افراد کو معاوضہ وصول کرنے کی شرط لگاتے ہوئے ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا ۔حلف نامہ میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گاؤں میں واپس نہیں جائیں گے، اور یہ بھی کہ وہ کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کو ہونے والے کسی بھی نقصان سے متعلق معاوضے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

   دسمبر 2013 میں سپریم کورٹ نے، جو فسادات سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی تھی، میڈیا کی رپورٹوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ 50 سے زائد بچے ریلیف کیمپوں میں مر گئے تھے، اور اس نے ریاستی حکومت کو فوری طور پر معالجاتی امداد فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے ریلیف کیمپوں کو منہدم کرنا شروع کر دیا، اور بہت سے ان لوگوں کو زبردستی نکال دیا جو خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں سے بھاگ گئے تھے۔ تقریبا 30,000 مسلمان سول سوسائٹی تنظیموں کی مدد سے مظفر نگر میں 28 بحالی کالونیوں اور شاملی میں 37 بحالی کالونیوں میں منتقل ہوگئے۔

    اگست 2016 اور اپریل 2017 کے درمیان، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن اور شاملی میں واقع ایک این جی او نے 12 بحالی کالونیوں کا دورہ کیا، 65 خاندانوں سے ملاقات کی اور 190 خاندانوں کے دستاویزات کا تجزیہ کیا جو اب بھی معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈوں کے مطابق، اب تک نو شناخت کردہ گاؤں میں سے مظفر نگر میں 980 خاندانوں اور شاملی میں 820 خاندانوں نے معاوضہ وصول کیا ہے۔ تاہم ان گاؤں کے تقریبا 200 خاندان اب بھی معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دیگر خاندانوں کو محررانہ غلطیوں اور بدعنوانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب کہ بہت سے خاندان نام نہاد ریلیف کالونیوں میں خوفناک حالات میں رہتے ہیں، جہاں انھیں پانی، صفائی، بجلی اور مناسب رہائش تک نصیب نہیں ہوپارہی ہے۔

   درج بالا باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ریاست اترپردیش کی حکومت بین الاقوامی اور ہندوستانی قانون کے تحت مناسب معاوضہ اور تلافی فراہم کرنے اور 2013 میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فساد کے تین سال بعد بھی مظفر نگر میں سیکڑوں خاندانوں کے حقوق اور وقار سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن نے مظفر نگر اور شاملی میں 200 سے زیادہ خاندانوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ خاندان بحالی کالونیوں میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر لوگوں کو بجلی، پینے کے پانی اور صفائی کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ چار سالوں سے یہ خاندان اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قارئین ان متاثرین کے لئے کیا کرسکتے ہیں اس کے جواب میں مذکورہ بالاتنظیموں کے ذمہ داران یہ کہتے ہیں کہ” وہ ہماری مدد اپنے اپنے موبائل فون سے اس نمبر 08881666736 پر ایک ایک مسل کال کے ذریعہ بھی کرسکتے ہیں تاکہ ہم ریاست اتر پردیش کی حکومت پر دبائو بناسکیں اور انہیں یہ دکھا سکیں کہ اتنے سارے لوگوں کی آرزو ہے کہ آپ ان متاثرین کی مدد کریں”۔میں نے خود بھی مذکورہ نمبر پر مس کال کی تھی جس کے بعد مجھے ایک پیغام حاصل ہوا ۔ لہٰذ اآپ قارئین سے یقین ہے کہ آپ مفت میں بغیر کسی مشقت کے 08881666736اس نمبر پر مس کال ضرور کرینگے۔تاکہ آپ بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن کی مظفر نگر متاثرین کو انصاف دلانے کی جدوجہد میں شامل ہو سکیں،ممکن ہے آپ کا ایک مسل کال کسی مجبور کی زندگی بدل دے۔ (چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔