موجودہ حالات میں گائے کی قربانی اور مسلمانوں کا رویہ

قاضی عبدالجبارطیب ندوی

)استاد جامعۃ الصالحات، کڑپہ قاضی دار القضاء کڑپہ(

جانوروں کو اللہ رب العزت نے انسانوں کے فائدے اور نفع رسانی کے لئے پیدا فرمایا ہے؛ قرآن مجید میں اللہ تعالی جانوروں کی پیدائش اور تخلیق کے مقاصد اور ان جانوروں سے انسانوں کو حاصل ہونے والے فائدے شمار کراتے ہوئے سورہ نحل میں ارشاد فرماتا ہے:

اللہ نے تمہارے لئے چوپائے بھی پیدا کئے جن میں تمہارے لئے جاڑے کا لباس ہے، متعدد فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو۔اور جس وقت تم شام میں ان کو چرا کر واپس لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو تو تمہارے لئے ان میں رونق کا سامان بھی ہے۔ او یہ چوپائے تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھاکر لے جاتے ہیں، جہاں تم جان کو مشقت میں ڈالے بغیر پہنچ نہیں سکتے تھے، بے شک آپ کے پروردگار نہایت شفیق اور بے حد مہربان ہیں۔ نیز گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا فرمائے تاکہ تمہاری سواری اور زینت کے کام آئیں، اور ایسی چیزیں بھی پیدا کریں گے جن سے تم ابھی واقف نہیں ہو۔ (النحل: ۵۔ ۸)

بعض حضرات جانوروں کو ذبح کرنا ظلم تصور کرتے ہیں، اگر ذبح کرنا صرف اس لئے ظلم ہے کہ اس کی ایک عزت ہے اور قابل تعظیم جانور ہے۔ تو پھر اس جانور سے دوسرا کوئی اور کام لینا بھی ظلم ہونا چاہئے۔ مثلاً گائے اور بھینس سے دودھ نکالنا، کھیت کی جوتائی کے ان کا استعمال کرنا، اسی طرح جانوروں سے نق وحمل اور سواری کا کام لینا بھی ظلم ہونا چاہئے، تاہم ذبح بڑا ظلم اور دوسرے چھوٹے ظلم ہوں گے، جبکہ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ اسلام نے جانوروں کے استعمال سے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہی درست ہے۔

اللہ رب العزت نے جانوروں کو انسانوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے، اس لئے نہیں کہ ان جانوروں کی عبادت کی جائے.  قرآن مجید میں  اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کے قتل کا واقعہ ذکر کیا ہے، جس میں لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے قاتل کے پتا لگانے کا مطالبہ کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بحکم خداوندی سنہری گائے کو قتل کرنے کے لئے انتخاب فرمایا۔ اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی رقمطراز ہیں:

سنہری گائے کا انتخاب اس لئے فرمایا گیا کہ مصرسے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل سونے کی خود ساختہ گائے ہی کی پرستش میں مبتلا ہوگئے تھے تو ایسی ہی گائے ان کے ہاتھوں ذبح کرائی گئی، تاکہ گائے کی تقدیس ہمیشہ کے لئے ان کے دل سے نکل جائے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جن ملکوں میں گائے کی پوجا کی جاتی ہو، وہاں خاص کر مسلمانوں کو ذبح گاؤ پر پابندی قبول نہیں کرنا چاہئے، اس لئے کہ وہاں ذبح گاؤ عقیدہ توحید کے شعار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی حکم میں ہمارا ملک ہندوستان بھی ہے۔ (آسان تفسیر، از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی: البقرۃ: ۷۱)

لیکن اگر کسی جانور کو ذبح کرنے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہو، یا عدم ذبح کا قانون بن چکاہو تو اپنی جان بچانے کے لئے اور قانون سے وفاداری کے پیش نظر ذبح کرنے سے مسلمان احتیاط کریں۔ کیوں کہ ہماری جان اللہ رب العزت کی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری۔ اپنی جان کو جان بوجھ کر ہلاکت میں ڈالنا اور اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

ولا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ (البقرۃ: ۱۹۵)

اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔

اللہ نے مطلق انسانی جان کو قتل کرنے سے منع کیا ہے، اب خود انسان اپنی جان قتل کرے یا اسے کوئی اور قتل کرے دونوں اسلام میں حرام ہے، لہذا اللہ رب العزت فرماتا ہے:

ولا تقتلوا أنفسکم إن اللہ کان بکم رحیماً

اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔

ومن قتل نفساً بغیر نفسٍ أو فسادٍ فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعاً( المائدۃ: ۳۲)

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلہ یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔

ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ إلا بالحق (الأنعام: ۱۵۱)

اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔

اگر جانور کے ذبح پر امتناعی قانون بن چکاہے تومسلمانوں کو اس قانون کا پاس ولحاظ اور اس سے وفاداری کا ثبوت دینا چاہئے؛ کیوں کہ مسلمان اس ملک میں ایک معاہدہ کے تحت رہتے ہیں، گویا معا ہد ہیں، اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی نے معاہد کو قتل کردیا توجنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائے گا؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من قتل معاہداً لم یرح رائحۃ الجنۃ (صحیح البخاری: ۳۱۶۶)

امام ابو داؤد سجستانی ؒ نے ان الفاظ کے ساتھ حضرت ابو بکرہ کی روایت نقل کی ہے:

قال رسو اللہ ﷺ: من قتل معاہداً فی غیر کنہہ حرم اللہ علیہ الجنۃ (سنن أبی داؤد: ۲۷۶۰)۔

خلاصہ یہ کہ جن علاقوں میں ذبح کا امتناعی قانون نہیں ہے، ان علاقوں کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ذبح کریں اور کسی بھی طرح کی پابندی کو ہرگز قبول نہ کریں، اور وہ علاقے جہاں قانون بن چکاہے، یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو پھر مسلمان اس قانون کا پاس ولحاظ رکھیں اور ذبح کرنے سے احتیاط برتیں۔

اب چونکہ ہمارے سامنے بقرعید کی آمد آمد ہے اس لئے اس کا خاص خیال رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ کیوں کہ ممنوعہ جانور ہی قر بانی کے لئے ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اور جانور بھی اس کے متبادل ہیں۔ موجودہ حالات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے۔ قربانی کے لئے خاص جانور کا ہی ہونا اور اسی کو قربانی کے لئے پیش کرنا زیادہ ضروری نہیں ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں سے گذارش ہے کہ اس کا خاص اہتمام کریں۔

تبصرے بند ہیں۔