میں بالی ووڈ کو کیوں خیرباد کہہ رہی ہوں؟

زائرہ وسیم

ترجمہ:محمد امانت اللہ

(جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)

          پانچ سال قبل میں نے ایک فیصلہ لیا جس نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا ،جیسے ہی میں نے بالی ووڈ میں قدم رکھا میرے لئے شہرت کے دروازے کھل گئے، میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے لگی ، مجھے کامیابی کے مقدس صحیفے کے طور پر پیش کیا گیا اور نوجوانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا جانے لگا۔ اس دوران میں نے کامیابی اور ناکامی کے نظریات کوسمجھنے کی کوشش نہیںکی، جسے میں نے اب سمجھنا شروع کیاہے۔ آج جب میرے پانچ سال پورے ہو چکے تو میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہوں گی کہ میں واقعی اپنے کام سے خوش نہیں ہوں ،لمبے عرصے سے ایسا محسوس ہواکہ میں کچھ اور بننے کی جدوجہد کر رہی ہوں ،جب میں نے ان چیزوں کی جس کے لیے اپنے وقت اپنی کوششوں اپنے جذبات کو موقوف کر دیا تھا اور نئی طرز زندگی اپنانے کی کوشش کی تھی اس کی سمجھ اور تلاش شروع کی، تو میں نے محسوس کیا کہ اگرچہ میں یہاں بالکل فٹ ہوں لیکن میرا تعلق یہاں سے نہیں ہے، بیشک میرے لیے یہ فیلڈ بے پناہ پیار ،سپورٹ اور ستائش کا موجب بنا، لیکن یہ مجھے جہالت کی طرف لے جا رہا تھا اور میں آہستہ آہستہ لاشعوری طور پر اپنا ایمان کھورہی تھی، چونکہ میں ایسے ماحول میں کام کر رہی تھی جہاں مستقل طور پر میرے ایمان کے ساتھ خلل اندازی ہو رہی تھی، میرے مذہب کے ساتھ میرا رشتہ خطرے میں پڑ گیا تھا ،جب میں نادانستہ طور پر کام کر رہی تھی، اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ میں جو کچھ کر رہی تھی، وہ ٹھیک ہے اور یہ میری زندگی پر اثر انداز نہیں ہو رہا ، لیکن میں اپنی زندگی میں برکت کھو نے لگی تھی۔ برکت ایسا لفظ ہے، جس کا مطلب صرف خوشی ،مال و دولت، خوشحالی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ یہ استحکام واستقلال کے مفہوم کو شامل ہے اور یہی وہ چیز ہے، جس کے لیے میں بڑے پیمانے پر جدوجہد کر رہی تھیں، میں اپنے روح سے مسلسل لڑ رہی تھی کہ وہ میرے افکار و خیالات سے موافقت کرے اور میں اپنی فطرت سے لڑائی لڑ رہی تھی کہ وہ میرے ایمان کی جامد تصویر کو قبول کرے ،لیکن میں بری طرح ناکام ہوئی صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں دفعہ میں نے بالی ووڈ چھوڑنے کے اپنے اس فیصلے کو مستحکم کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن ہر بار میرے اندر یہی خیال آیا کہ ایک دن اپنے آپ کو بدل لوں گی اور جلد ہی بدلوں گی میں ٹال مٹول کرتی رہی اور اپنے ضمیر کو اس خیال سے بھکا تی رہی کہ میں جانتی ہوں کہ میں جو کچھ کر رہی ہو صحیح نہیں ہے ،لیکن یہ سوچتی رہی کہ جب مناسب وقت آئے گا ،میں اس فیلڈ سے علیحدگی اختیار کر لوں گی۔ میں نے اپنے آپ کو مسلسل  غیر محفوظ ماحول میں روکے رکھا تھا، جہاں میں آسانی سے برائیوں میں ملوث ہو سکتی تھی، ایک ایسا ماحول جس نے میرے سکون ،میرے ایمان اور اللہ سے تعلق کو بے حد نقصان پہنچایا تھا ،میں مسلسل چیزوں کا مشاہدہ کرتی رہی ،اپنے افکار کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی رہی ،یہ سمجھے بغیر کہ چیزوں کو اس کی اصل شکل میں دیکھنا ہی اہم ہے، میں اپنے اس فیصلے سے گریز کرنے کی کوشش کرتی رہی ،لیکن کسی نہ کسی طرح میں نے اپنے خیالات کو مات دے دیا اور اس تسلسل کو توڑا ،جس میں حقیقی عنصر کا نام و نشان نہیں تھا، جو مسلسل میرے لیے اذیت کا باعث تھا ،جس کا نہ تو مجھے احساس ہو رہا تھا اور نہ خود کو مطمئن کر پا رہی تھی، یہاں تک کہ میں نے اپنی کمزوریوں سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے دل کو اللہ کے کلام سے جوڑ کر اپنی ناقص سمجھ اور علم کو درست کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ میں نے قرآنی خیالات اور خدائی حکمتوں میں سکون اور اطمینان پایا، بلاشبہ دلوں کو سکون تبھی ملتا ہے، جب اسے اپنے خالق اس کی صفات اس کی رحمت اور اس کے احکامات کا علم ہوجاتا ہے ۔ میں نے خود اعتمادی کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی مدد اور رہنمائی کے لئے اللہ کی رحمت پر بہت زیادہ بھروسہ کرنا شروع کیا، مجھے اپنے مذہب کے بنیادی ا حکامات سے ناواقفیت کا انکشاف ہوااور اس بات کا بھی کہ پہلے ہی اپنی اس حالت میں تبدیلی نہ لا سکی کہ میں نے اپنی دلی سکون  کے ساتھ ساتھ اپنی کھوکھلی دنیاوی خواہشات کی تقویت کی کوشش کرتی رہی، مجھے شکوک و شبہات کی اس بیماری کا بھی احساس ہواجس کا رشتہ میرے دل سے جڑ چکا تھا ،دلوں پر حملہ آور ہونے والی بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک تو شکوک و شبہات اور دوسری خواہشات و لذات کی اور دونوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے  اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ ان کے دلوں میں بیماری ہے(شک اور منافقت) کی اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا ہے‘‘۔

          مجھے احساس ہوا کہ اس بیماری کا علاج اللہ کی رہنمائی سے ہوسکتا ہے،حقیقتاً اللہ نے میری رہنمائی کی جب میں راہ سے بھٹک گئی تھی، قرآن اور اللہ کے رسول کی ہدایت میری فیصلہ سازی میں اہم سبب بنی اور اس نے زندگی اور اس کے صحیح مفہوم کے تئیں میری سوچ کو بدل دیا۔ ہماری خواہشات ہمارے اخلاق کی عکاسی کرتی ہیں، اسی طرح ہمارے اقدار ہماری با طنی قوت کو آشکارا کرتے ہیں، اسی طرح قرآن و سنت سے ہمارا ربط اللہ تبارک و تعالی سے تعلق، ہمارا مذہب ،ہماری خواہشات اور زندگی کے مقاصد کے حوالے سے ہمارے رشتے کو متعین کرتا ہے۔ میں نے اپنی کامیابی کے خیالات اور زندگی کے مقاصد کو سامنے رکھ کر اس کی گہری بنیادوں پر غور و فکر کیا اوراچھی طرح تحقیق و تفتیش کی چنانچہ وہ بنیادیں جو مجھ پر حکمرانی کر رہی تھیں اور میرے افکار و خیالات پر اثرانداز ہورہی تھیں، ان میں مختلف جہتیں پیدا ہوئیں اور یہ واضح ہوگیا کہ کامیابی ہمارے تعصب و توہم اور زندگی کے کھوکھلے پیمانوں سے مربوط نہیں ہے، بلکہ کامیابی تو ہماری تخلیق کے مقصد کی تکمیل کانام ہے۔

           ہم اپنی تخلیق کے مقصد کو فراموش کر چکے ہیں اور اپنے ضمیر کو دھوکا دیتے ہوئے نادانی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے ’’اور ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ،ان کی خواہشات کی جانب مائل ہو جائیں اور اس چیز سے خوش  ہوجائیں اور وہ جس برائی  میں ملوث ہونا چاہتے ہیں ہو جائیں‘‘۔

          ہمارا مقصد ہماری اچھائی یا ہمارے ڈر اور خوف کی شناخت ہماری خود غرضی سے نہیں ہوتی ،اس کو دنیاوی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا ،اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے’’ قسم ہے زمانے کی،بے شک انسان بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان رکھتے ہیں، اچھے اعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سچائی کی دعوت دیتے ہیں اور استقامت کی تلقین کرتے ہیں‘‘۔

          میری روح کے ساتھ میری جدوجہد کا یہ سفر بہت مشکل رہا ہے، یہ زندگی خود سے جدوجہد کرنے کے لیے بہت مختصر بھی ہے اور بہت طویل بھی، اس لیے میں اپنے مستقبل کے فیصلے پر پہنچی ہو ں اور میں باقاعدہ فلمی دنیا سے علیحدگی کااعلان کرتی ہوں۔سفر کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ آپ سفر کا آغاز کس طرح کرتے ہو اور میرے اس فلمی دنیا سے علیحدگی کے اعلان کا مقصد یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی مقدس شخصیت کی تصویر پیش کروں؛ بلکہ یہ سب سے چھوٹی چیز ہے ،جس سے میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہوں اور حق کی راہ تک پہنچنے کے بعد یہ میرا پہلا قدم ہے، ایک ایسی راہ جس پر چلنے کی میری تمنا تھی ،لیکن ایسی راہ جس تک پہنچنے کے لیے اب تک محنت کرتی رہی ہوں اور اس درمیان میں ہو سکتا ہے میں نے بہت سے دلوں پر شعوری یا لاشعوری طور پر خواہشات کی بیج  بوئی ہو، لیکن ہر ایک کو میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ کوئی بھی کامیابی، شہرت، طاقت،مال و دولت کتنی بڑی اور زیادہ کیوں نہ ہو لیکن اس سے اگر ہمارا اطمینان کھو جائے اور ایمان سے دور ہو جائیں تو یہ ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے ۔

          اپنی خواہشات کے آگے سرتسلیم خم نہ کیجئے ،کیونکہ خواہشات کا سلسلہ لامحدود ہے ،بلکہ ایک کے بعد ایک خواہشات کا سلسلہ بڑھتا رہتا ہے، اپنے آپ سے دھوکا مت کیجئے اور توہمات کا شکار مت بنیے اور خود ساختہ اورتعصب پرمبنی مذہبی اصول پر ایمان نہ لائیے ،وہ اصول جہاں ایک انسان جانتے ہوئے بھی حق کو چھپا دیتا ہے اور انہی باتوں کو قبول کرتا ہے جو اس کی خواہشات نفس کے مناسب ہو ،کبھی کبھی ہمارے ایمان میں میں بڑا نقص ہوتا ہے اور ہم اکثر و بیشتر اسے الفاظ ونظریات کے پردے میں چھپا دیتے ہیں ،جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے دل میں نہیں ہوتا اور ہم اس کو ثابت کرنے کے لئے ہر طرح کی راہ ہموار کرتے ہیں ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہمارے قولی و عملی تضادات سے بخوبی واقف ہے ،وہ ہمارے ان خیالات سے بھی واقف ہے ،جو ہماری زبان پر نہیں آئے ،وہ ہر چیز کو سننے دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو‘‘۔(16:19)

          خود ساختہ عقائد کو اہمیت دینے کے بجائے سچائی کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ایمان و اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو حق سے روشناس کرائیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’ اے ایمان والو اگر تمہارے دلوں میں اللہ کا ڈر ہے، تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کی قوت عطا کرے گا‘‘۔(8:29)

          اللہ کی ناراضگی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں کامیابی کے معیارات اور مثالی کردار کی تلاش نہ کریں اور ایسے لوگوں کو اپنے اوپر اثرانداز نہ ہونے دیں، جو آپ کی پسند و ناپسند کو طے کریں اور آپ کے مقاصد کو طے کریں ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن انسان اسکے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہو گی۔اچھے جانکا ر سے صلاح و مشورہ کرنے میں غرور و گھمنڈ نہ دکھائیں، بلکہ اپنے کو ،اپنی انا اور گھمنڈ سے دور رکھیں اور صرف اللہ کی ہدایت پر بھروسہ رکھیں ،کیونکہ وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے اوروہ جس کو ہدایت عطا کردے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔

          ہر انسان کے اندر وہ ضمیر اور شعور نہیں ہے کہ وہ اس بات کو جانے کہ ہمیں کس بات کا علم ہونا چاہیے اور کس چیز کو بدلنا چاہیے؟ اسی لئے کسی کے حوالے سے کسی کو کسی کے بارے میںکوئی فیصلہ کرنے اور کسی کی تذلیل و تحقیر کا حق حاصل نہیں ہے،ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ صحیح تفہیم کے ذریعے مثبت اثر ڈالیں اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے’’ یاد دہانی کرتے رہیے کیونکہ یاددہانی مومنوں کو نفع پہنچاتی ہے‘‘۔(51:55)لیکن یاد دہانی کسی کا گلا دبا کر، جبر اور ظلم کے ساتھ کسی کی تحقیر کرکے، کسی کے ساتھ پرتشدد رویہ اختیار کرکے نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ یاددہانی محبت پیار اور مہربانی کے ساتھ اس طرح ہونی چاہئے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں پر اثر انداز ہو سکیں۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: اگر تم دیکھو کہ تمہارے کسی بھائی سے خطا ہوگئی ہے، تو اس کو صحیح راہ پر لے آؤ اور اس کے لئے دعا کرو اور اس کا مذاق اڑا کر اس کی بے عزتی کر کے شیطان کے مددگار نہ بنو۔

          لیکن ہم یہ کرنے سے پہلے خود اسلام کا عملی نمونہ بنیں ،اسکی صحیح سمجھ حاصل کریں ،اپنے دل میں اس کی معرفت حاصل کریں ،اپنے اعمال ارادے اور برتاؤ سے اس کو ظاہر کریں اور پھر جو لوگ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سلسلے میں فہم اور اخلاقی وعملی جہت سے کمزور ہوں ان کی نفع رسانی کا کام کریں، اس بات کو بھی یاد رکھئے کہ جب آپ اپنے سفر کا آغاز کریں گے اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوں گے، تو آپ مشکلات کا سامنا کریں گے ،لوگ آپ کی تضحیک کریں گے اور دوسروں سے آپ کو تکلیفیں پہنچیں گی اور کبھی کبھی یہ ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوگا ،جن کو آپ بہت پسند کرتے ہیں اور جو آپ کے بالکل قریب ہوں گے ،کبھی کبھی اس وجہ سے بھی ہوگی کہ آپ اپنی پوری زندگی یا پہلے کی زندگی میں غلط کام کرتے رہے ہیں ،لیکن ان کی وجہ سے آپ کی حوصلہ شکنی نہ ہونے پائے اور اللہ کی رحمت و ہدایت سے مایوس نہ ہوں، کیونکہ اس کی ذات ہی ہدایت دینے والی ہے آپ کے پچھلے گناہ آپ کو توبہ کرنے سے نہ روکیں کیونکہ اس کی ذات مغفرت کرنے والی ہے ۔یقینا اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے، جو اس کی بارگاہ میں ندامت کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں اور جو اپنے کو پاک و صاف رکھتے ہیں۔

          لوگوں کا فیصلہ، ان کا استہزا، ان کا خوف آپ کو حق کی اس راہ سے نہ روکے، جس کو اپنانا چاہتے ہیں یا حق کے تئیں اپنے دل کی باتوں کے اظہار سے یہ چیزیں آپ کونہ روک کیونکہ یہ اچھی طرح یاد رکھیں کہ اللہ کی ذات ہی مدد کرنے والی ہے، مستقبل کی فکر آپ کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے پائے، کیونکہ اسی کی ذات رزق دینے والی ہے، یقیناً یہ راہ مشکل اور پیچیدہ ہے اور کبھی کبھی بھی ناقابل تصور حد تک لوگوں سے الگ کر دینے والی راہ ہے، خاص طور پر موجودہ زمانے میں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا، جب دین پر عمل کرنا آگ کا انگارہ اٹھانے کے برابر ہوگا ۔اللہ تعالی ہماری کشتیِ ہدایت کی ساحل مراد تک پہنچنے میں مدد کرے اور حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کرے ۔اللہ ہمارے ایمان کو مضبوطی عطا کرے اور ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے ،جو ان کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور ہمارے دلوں کو استحکام عطا کرے اور ثابت قدم رہنے میں ہماری مدد کرے ۔اللہ ہمیں اپنی حکمت کی بہترین سمجھ عطا کرے اور شکوک و شبہات کو اپنی زندگی سے دور کرنے کیلئے ہماری کوششوں کو بہتر بنائے اور تمام انسانوں کی رہنمائی کرے اور اللہ تعالی دلوں کو کبرو نفاق سے پاک و صاف کرے ،ہماری نیتوں کو درست کرے ہمارے قول و عمل میں اخلاص عطا کرے ۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔