کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ایک اور وائرس

علما اور مشائخین متوجہ ہوں

ڈاکٹر علیم خان فلکی

(صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد)

جب سے کرونا اور اس سے پہلے NRC کے وائرس پھیلے، ہر شخص کی زبان پر یہی ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے آیا ہے۔ آیئے ایک ایسے ہی کرتوت کا جائزہ لیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی کئی شادیوں کی خبریں آئیں۔ سبھی اس خوش فہمی میں تھے کہ یقینا یہ شادیاں مکمل سنّت کے مطابق ہوئی ہوں گی یعنی  نہ کوئی منگنی نہ بارات،نہ  کوئی ویڈیو گرافی اور نہ بیوٹی پارلر، ہر قسم کے اسراف و تبذیر سے پاک ہوں گی۔ لیکن آپ کو یہ جان کر دکھ ہوگا کہ ان بدترین حالات میں بھی وہ فتنہ ختم نہ ہو سکا جو اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ دس شادیوں میں سے ایک یا دو تو ماشااللہ واقعی سنت کے مطابق ہوئیں لیکن 90%  شادیوں میں یہ ہوا کہ لڑکی والوں کا جو پیسہ بارات کے کھانے، جہیز کی خریدی اور منگنی یا دوسری رسمیں نہ ہونے سے بچ گیا وہ پورا  کا پورا لڑکے والوں نے نقد کیش یا کسی اور شکل میں وصول کرلیا۔ کرائم وہی رہا صرف طریقہئ  واردات بدل گیا۔ لڑکے والوں کی طرف لوٹ مار میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ دوگنی ہوگئی۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی یہ دلیل دی گئی کہ آپ نے بچّی کی شادی کے لئے کچھ نہ کچھ تو بچایا ہی ہوگا، ہمیں کچھ نہیں چاہیئے، بس اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔ اس کو ہم کمینگی یا کم ظرفی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایسے گِرے ہوئے الفاظ کا استعمال ایک معیاری اخبارکے شایانِ شان نہیں، ہاں آپ جو چاہے کہہ لیں۔
لیکن جرم کے قصور وار صرف لڑکے والے نہیں ہیں۔لڑکی والے لڑکے والوں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ رشوت کبھی لینے والوں سے زیادہ نہیں پھیلتی، دینے والوں سے زیادہ پھیلتی ہے۔ جو مجبور یا ضرورتمند ہوتا ہے وہ کتوں کے آگے زیادہ بڑی ہڈی ڈال دیتا ہے۔  لڑکی والے بالخصوص لڑکی کی ماں، خالہ، دادی اور نانی وغیرہ  اصل فتنہ ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کامستقبل بنانے  سے زیادہ  دلچسپی ایک داماد کو خریدنے اور بیٹی کا گھر بھرنے سے ہوتی ہے،  چاہے اس کے لئے لڑکی کا باپ قرضوں میں ڈوب جائے، چاہے بھائی کنگال ہوجائے۔ اسی لئے اگر لڑکے والے کوئی جہیز یا نقد رقم لینا نہ بھی چاہیں تو لڑکی والے اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو لڑکی کا حق ہے، اس کا نصیب ہے، لڑکی خالی ہاتھ جائے گی تو لوگ کیاکہیں گے وغیرہ۔
لاک ڈاؤن میں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے یوں بھی سب کی اکنامی تباہ ہوچکی ہے، لیکن اس سے بھی برا وقت آنے والا ہے۔ گلف ممالک کی خبر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں نوکریاں ختم ہونے والی ہیں۔ اِدھر ملک میں فاشسٹ، مسلمانوں کو نوکریوں سے نکلوانے کی مہم چلارہے ہیں، تیسرے یہ کہ NRC,  NPR, کا فتنہ ختم نہیں ہوا، لاک ڈاؤن کے بعد پھر سر ابھارے گا کیونکہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے، اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس کے پاس سوائے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس لئے اِس وقت ایک ایک روپیہ سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہم  نے کرونا لاک ڈاؤن ریلیف پہنچانے کے سلسلے میں جتنے علاقوں کا دورہ کیا ایسے ایسے افسوسناک واقعات دیکھے کہ سر شرم سے جھک گیا۔ مسلمانوں کی غربت و افلاس تو پورے عروج پر ہے ہی، گھروں میں جوان لڑکیاں بیٹھی ہیں جو شادی کی عمر سے تجاوز کررہی ہیں لیکن ماں باپ ان کی شادی کی استطاعت نہیں رکھتے۔  Middle class  اور  poor class سارے شادیوں میں پیسہ برباد کرکے تباہ حال ہیں۔ ایسے وقت میں اگر مسلمان مرد، حقیقی مرد بن جاتے تو ایک بدترین مصیبت مسلمانوں کے سر سے ٹل سکتی تھی، لیکن جسطرح سامان کی ذخیرہ اندوزی Hoarding کرنے والے یا شراب بیچنے والے لاک ڈاؤن کا بھرپور فائدہ اٹھا تے ہیں اور قیمتیں بڑھا کر خوب کماتے ہیں، بالکل اسی طرح لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر  لڑکے والوں نے بھی اپنے ریٹ اچانک بڑھائے ہیں۔ سیدھے سیدھے یہ کہہ رہے ہیں کہ شادی ملتوی کیجئے، یا پھر ایسے اشارے دیتے ہیں کہ نقد رقم بڑھایئے۔
دہلی فسادات ہوں کہ دوسرے کئی دہشت گردی کے واقعات، جتنے غنڈے ہیں سارے کے سارے آزاد گھوم رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس Power ہے۔ اور یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب پاور ہاتھ میں ہوتا ہے  تو انسان کمزوروں کا استحصال Exploitation کرتا ہے۔ لیکن دوسروں پرانگلی اٹھانے سے پہلے ذرا ہم خود اپنے دامن میں جھانکیں۔ کیا ہم RSS/BJP کے غنڈوں سے کم ہیں؟ کیا ہم ”لڑکے والے“  ہونے کا پاور استعمال کرکے لڑکیوں پر ظلم نہیں کررہے ہیں؟ منگنی کا کھانا، جہیز، بارات کا کھانا اور جوڑے کی رقم وصول کرنے کا Power جو ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا ہے جس کو سماج اور رسم و رواج کا مکمل Endorsement ملا ہوا ہے، کیا ہم یہ بھرپور استعمال نہیں کررہے ہیں؟ اگرچہ کہ یہ ایک بھیک اور سوشیل بلیک میل ہے لیکن ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم بھیک اور جہیز کی رشوت کھاتے ہیں۔ اسے حلال سمجھ کر کھاتے ہیں، اور کھانے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن دوسری طرف ”خوشی سے دینے اور لینے“ کے نام پر سب کچھ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ اور منافقت نہیں ہے؟  اس لوٹ میں لڑکوں کی مائیں، دادیاں اور نانیاں ساری شامل ہوتی ہیں، اگر ان کی توقعات سے ذرا سا بھی کم ملے تو آنے والی بہوؤں کی زندگی اجیرن کرڈالتی ہیں۔ یہ ہے ہمارے ”مرد“ ہونے کے Powerکا استعمال۔ اب ہم کس منہ سے مودی، یوگی یا امیت شاہ پر Power کو غلط استعمال کرنے کا الزام دے سکتے ہیں؟
ایسے وقت میں علما اور مشائخین کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم ان سے انتہائی مودّبانہ درخواست کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے کرونا وائرس کو ختم کرنے کے لئے فتوے دیئے، مصافحہ، ملنے ملانے اور ہر قسم کی سوشیل Gathering پر شرعی طور پر روک لگانے کے جواز پیش کیئے۔ حتی کہ نمازِ باجماعت، جمعہ، تراویح، شبِ قدر اور افطار کو تک سختی سے روک دیا اور مسجدوں پر تالا ڈلوادیا۔ قرآن و حدیث اور سنت سے دلائل پیش کیئے۔ آپ نے غلط کچھ نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ نہ صرف حکومت کی مدد کے لئے تھا بلکہ عوام کی صحت اور بھلائی کے لئے ہی تھا۔ اس لئے آپ کی تحقیق اور بیان وقت کی اہم ترین ضرورت تھی، بلکہ اسلام کی عصرِ حاضر میں صحیح ترجمانی تھی، ماشااللہ۔  لیکن یہ بھی غور فرمائیں اگر کرونا سے لوگ مررہے ہیں، اس لئے اس کے تدارک کے لیے یہ فتوے جاری کرنا ضروری تھا، تو یہ بھی دیکھئے کہ ایک اور وائرس ایسا ہے جو کرونا سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ Covid-19 سے مرنے والوں کا تناسب صرف 3% ہے،  کرونا کے Fatatlity rate یعنی مرنے والوں کے تناسب کو سامنے رکھیئے اور اس وائرس کی وجہ سے مرنے والوں یا متاثر ہونے والوں کے تناسب کو سامنے رکھیے، آپ دنگ رہ جائیں گے۔ جس کرونا کی وجہ سے تقریباّ دو مہینے سے مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑا، پورے ہندوستان میں آج کی تاریخ تک مرنے والوں کی تعداد 1200 ہے، اور ساری دنیا میں مرنے والوں کی تعداد 2.5 لاکھ ہے۔ جب کہ جس وائرس کی بات ہم کررہے ہیں اس کی وجہ سے  ہر سال2 لاکھ  لڑکیاں ماؤں کے پیٹوں میں ہی ماردی جاتی ہیں۔ National Crime Records Bureau (NCRB)  کی رپورٹ جو گوگل پر موجود ہے، اس کے مطابق ہر روز مرنے والی یا ماردی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 21 ہے، یعنی ہر سال 7665 لڑکیاں اپنی جان گنواتی ہیں اور ہر روز 150 لڑکیاں اسی وائرس کے نتیجے میں جو Domestic violence  ہوتا ہے اس میں زخمی ہوجاتی ہیں۔ یعنی سالانہ 54,750 عورتیں زخمی ہوتی ہیں۔ ابورشن یعنی اسقاط حمل اسلام میں بھی حرام ہے اور انڈین قانون کے تحت بھی جرم ہے، لیکن اپنے شہر کے کسی بھی Maternity Home  کے کسی ملازم کے ہاتھ میں ایک دوہزارروپئے  رکھ کر پوچھئے، وہ اندر کے راز بتادے گا کہ ہر روز کتنے حمل گرادیئے جاتے ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے ہرروز  فحاشی Prostitutionپر مجبور ہونے والی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔اس وائرس کا نام ہے ”شادیاں“۔
علما بھی، مشائخین بھی اور ہم بھی اس وائرس کو روکنے کی ہر طرح تلقین اور تبلیغ کررہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس شادیوں کے  وائرس کے خلاف ہم کیا کررہے ہیں؟ ہمارے علما کیا کررہے ہیں۔ جس طرح علما اور مشائخین نے کرونا کو ختم کرنے کے لئے ہر طرح کی Social and Religeous distancing یعنی کسی بھی قسم کے سماجی یا مذہبی اجتماع کے خلاف جواز پیش کیا ہے، شادیوں سے پیدا ہونے والی بربادیوں کے وائرس کو ختم کرنے کے لئے آپ ایسی شادیوں سے مکمل  Distancing یعنی مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ کیوں نہیں دے سکتے؟ جبکہ قرآن و حدیث میں ایسی غیرشرعی اور خلاف سنّت تقریبات و رسومات پر مبنی شادیوں کے حرام ہونے اور ان کا بائیکاٹ کرنے کے پورے پورے احکامات موجود ہیں، اگراس میں آپ کو کوئی شک ہو تو ہمیں واٹس اپ کیجئے ہم پورے دلائل فراہم کرسکتے ہیں۔ کرونا وائرس نے کم از کم ایک سبق تو سکھایا ہے کہ کسی بھی مہلک وبا سے بچنے کا پہلا Effective طریقہ یہی ہے کہ جہاں جہاں یہ وائرس پیدا ہوسکتا ہے ان سے دور بہت دور رہو۔ برسہابرس سے جہیز اور بارات کے خلاف تقریریں اور وعظ بہت ہوچکے، مضامین اور کتابیں بہت لکھ چکے، اب ایسے مریضوں سے مکمل دوری اختیار کرلینے کا وقت آچکا ہے۔
یہ ہوسکتا ہے کہ خود آپ علما  اور مشائخین کی گھروں کی شادیاں اسی وائرس سے متاثر ہوئی ہوں، یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ایسی غیرشرعی رسومات والی شادیوں میں شرکت کرتے آرہے ہوں، لیکن کم از کم قرآن و حدیث میں ایسی شادیوں میں شرکت کے تعلق سے جو واضح احکامات موجود ہیں ان کو بیان تو کرنا آپ پر فرض ہے، محض اپنے اوپر حرف آجانے کے خوف سے یا بڑے لوگوں کے ناراض ہوجانے کے خوف سے بائیکاٹ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان نہ کرنا کتمانِ حقHiding the truth ہے۔
ان شادیوں کے وائرس کی وجہ سے ہونے والی اخلاقی اموات Moral deaths  بلکہ اخلاقی خودکشیوں Moral suicides  کا اندازہ لگایئے۔ اس کے سامنے کرونا کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ جس طرح Covid-19 کے مریضوں سے ملنا تو درکنار، اگر وہ مرجائیں تو ان کی میّت کا بھی آپ بائیکاٹ کررہے ہیں، قبرستانوں میں ایسی میّت کی تدفین کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں، بالکل اسی طرح جو لوگ معاشرے کو برباد کرنے والی،  ان شادیوں کے وائرس کا شکار ہیں، ان  لوگوں کا بھی بائیکاٹ لازمی ہے، ورنہ کل یہ معاشرہ  اخلاقی اور مالی طور پر تباہ ہونے والا ہے۔ اگر آج کوئی گھر فروخت کرکے یا بھیک یا قرض مانگ کر آپ کو اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کی دعوت دے رہا ہے اور آپ پورے شوق سے جارہے ہیں تو یاد رکھیئے کل آپ کو بھی اپنا گھر فروخت کرناپڑے گا یا اپنے بیٹے کو کنگال کرکے داماد کو خریدنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ جو لوگ نبی ﷺ کی نکاح کی سنّت کے بائیکاٹ پر ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں، اور آپ کو دعوت نامہ دینا چاہتے ہیں، یہ لوگ سنّت کے دشمن ہیں، ان کا رقعہ قبول کرنا تو درکنار ان سے مصافحہ کرنا، ان کی رسومات میں شرکت کرنا، مبارکباد دینا، ان لوگوں کا کھانا چکھنا حتی کہ اگر یہ مربھی جائیں تو ان کی میّت میں جانا ایک خوددار، سمجھدار اور شریعت کے پاسدار مسلمان کے لئے باعثِ شرم ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ سب سے بدترین نکاح وہ ہے جس میں فضول خرچ ہو، وہ رسمیں ایجاد کی گئی ہوں جو نہ ہمارے نبی ﷺ کی کسی شادی میں، نہ ان کی صاحبزادیوں کی شادیوں میں اور نہ کسی صحابیؓ کی شادیوں میں تھیں۔ ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والے اصل وائرس کو پھیلانے والے لوگ ہیں۔ ایسے شرکت کرنے والوں سے بھی دور رہنا ایسا ہی ضروری ہے جیسے کرونا کے مریض کے قریبی رشتہ داروں سے بھی دور رہنا ضروری ہے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج امت پر یہ عذاب آیا ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج BJP/RSS  کے غنڈہ عناصر پوری قوم کو ہر طرح سے ذلیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. الطاف جمیل ندوی کہتے ہیں

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    قلبی مسرت و شادمانی ہوئی یہ دیکھ
    کر کہ مضامین ڈاٹ کام پھر سے کام
    کر رہا ہے کچھ وقت تک تو صرف ارر
    دیکھا رہا تھا
    مولا مزید ترقی سے نوازے

تبصرے بند ہیں۔