کیا وطن عزیز میں ہسپانیہ کا تجربہ دہرایا جا سکے گا؟

عالم نقوی

ہمارا جواب، پہلے کی طرح، اب بھی وہی ہے جو پہلے تھا، یعنی۔  نہیں ! بھارت میں بغداد اور بوسنیا کے تجربات بھی  دہرائے جانے کا امکان نفی میں ہے۔ حتی کہ بھارت کے کسی  صوبے میں ، کسی  مخصوص مسلم اکثریتی علاقے کو بھی غزہ اور فلسطین بنا پا نا  اب ممکن نہیں ۔ اس جگہ کوئی کشمیر کی مثال نہ دے۔ ۔ اس کا معاملہ مختلف ہے۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہمارا جواب کسی مسلم ملک یا ملکوں کی کسی امداد کے بھروسے ہے تو وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہے کیونکہ ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ۔ ستاون مسلم ملک اگر واقعی اسلامی ہوتے تو نہ فلسطین پر اسرائل کا غاصبانہ قبضہ ہوتا، نہ بوسنیا ہرزے گووینا میں سربوں کے ذریعے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا، نہ غزہ اکیسویں صدی کا شعب ابی طالب بنتا۔ سعودی عرب ہو یا ایران، ترکی ہو یا انڈو نیشیا، یو اے ای ہو یا پاکستان یہ سب  کے سب، اپنے دعووں کے بر خلاف، کم یا زیادہ ’نیشن اسٹیٹ‘ ہی  ہیں ، پوری اُمّت ِواحدہ کے مطلق اور مکمل  نمائندے  نہیں۔

 ہمارا جواب تنِ تنہا بھارت واسیوں کے حوالے سے ہے جہاں صرف مودی اور یوگی، شاہ اور شمبھو،، سوامی اور بھاگوت ہی  نہیں رہتے اَپوروانند جھا  اور رَوِیش کمار، وِنود دُوَا اور اَبھیشیک شرما، جسٹس مارکنڈے  کاٹجو اورجسٹس  کولسے پاٹل، تیستا سیتل واڈ  اور ہرش مندر، آر بی سری کمار اور وبھوتی نرائن رائے، ڈاکٹر نریش اور گوپی چند نارنگ، گوسوامی سوشیل مہاراج  اور گیانی برج پال سنگھ، کھمیندر بودھ اور فادر سنیل لویک بھی رہتے ہیں اور جہاں صرف، منافق کانگریس پریوار، فاشسٹ بی جے پی اور نسل پرست آر ایس ایس ہی نہیں ، عام آدمی پارٹی اور  ’بامسیف ‘ جیسی تنظیمیں بھی ہیں  اور جہاں کنہیا کمار جیسا نِڈر  طالب علم لیڈر، وامَن میشرام جیسا سچا  مزدور رہنما  اور اروند کجریوال جیسے ’ایماندار ‘سیاسی قائد  بھی  ہمارے درمیان موجود ہیں۔

دوسرے یہ کہ یہ ملک بہت بڑا ہے، اتنا بڑا کہ یہاں درجنوں بلکہ سیکڑوں ہسپانیہ، بوسنیا اور غزہ سما سکتے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے بھی چین کے بعد یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ حقیقی معنیٰ میں کثیر نسلی،، کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک ہے۔

بھارت کی مخصوص طبقاتی امتیاز والی نسل پرستی کے علم برداروں کی تعداد پندرہ فیصد سے کسی طرح زائد نہیں ۔ ملک کے پچاسی فی صد لوگ۔ ۔ پیدائشی بلندی و پستی والی غیر انسانی  برہمن وادی نسل پرستی کے شکار ہیں ۔ ۔ اُس کے حامی اور مؤید نہیں۔

اُن کی اکثریت  کو چونکہ  تعلیم، صحت، روزگار، خوشحالی اور فار غ ا لبالی کی نعمتوں سے قصداً محروم رکھا گیا ہے  اس لئیے وہ بر سرِ اِقتدار چانکیوں اور  حکمراں قارونوں کی استحصالی سازشوں  اور وقتی رشوتوں کا شکار ہوکر فسادات، نسل کشی اور نسلی صفائے کی انسانیت دشمن مہم جوئی میں اپنے ہی جیسے کمزور اور محروم وطنی بھائیوں کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں کہ چند سو روپؤں  اور چند لیٹر شراب کے سوا اور کچھ ان کے ہاتھ نہیں آتا !

تیسرے یہ کہ وطن عزیز صوفی سنتوں کا دیش ہے فرعونوں اور یزیدوں کا نہیں ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور آسام و بنگال  سے گجرات اور مہاراشٹر تک اس عظیم ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں کوئی نہ کوئی اللہ کا ولی محو خواب نہ ہو !اس لیے کاس گنج اور مظفر نگر، بابری اور دادری کے باوجود  اس  عظیم ملک کوہسپانیہ، بوسنیا اور غزہ نہیں بنایا جا سکتا۔ کبھی نہیں ۔

سو ہمارا کام بس ایک ہی ہے کہ ہم اب سے  ’اسلام کہنے‘ کے بجائے ’اسلام کرنے‘ میں لگ جائیں۔ ’ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ‘کے آفاقی پیغامِ اُخُوَّت کووطن ِعزیز کے ساٹھ پینسٹھ  فیصد مُول نِواسِیُوں، دلتوں، پسماندہ طبقوں ، اور سکھوں، جینیوں ، بودھوں اور عیسائیوں جیسی دیگر مذہبی اقلیتوں تک پہنچائیں اور تعلیم و صحت خدمات  کو بلا تفریق’ سینٹ  مدر ٹریسا‘ جیسے عزم، حوصلے، خلوص   نیک نیتی  اور خالص خدا ترسی کے ساتھ  ملک کے تمام محروم طبقوں کی دسترس میں لے آئیں۔

آنے والا زمانہ قارونوں ، ٹرمپوں ، مودیوں یوگیوں ، نیتن یا ہوؤں ، فرعونوں اور یزیدوں کا نہیں، مستضعفین فی ا لارض کا ہے جنہیں بہت جلد زمین کی پیشوائی عطا ہونے والی ہے۔ انشااللہ کہ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کاوعدہ ہے کسی ہما شما کا نہیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔