آخر کانگریس کیا کرے؟
راحت علی صدیقی قاسمی
بی جے پی نے کانگریس مکت کے نعرہ کو حقیقت میں تبدیل کردیا ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت چھوٹی جماعت بن کر رہ گئی ہے اور اس کا وجود محض چند ریاستوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے، حتی کہ کرناٹک کو بچانے کے لیے بھی جے ڈی ایس کا سہارا لینا پڑا اور ملک کی اکثر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ تقریباً یکساں رہا اور بی جے پی ہندوستان کے اکثر حصہ پر بھگوا پرچم لہرانے میں کامیاب رہی۔ انتخاب سے قبل اگر چہ بسا اوقات راہل گاندھی کی انتخابی ریلیاں دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو پار لگا سکتے ہیں ، لیکن یہ احساس حقیقت کی شکل اختیار نہ کرسکا اور وہ خواب جو ہندستان کے سیکولر باشندے سوتے جاگتے اپنی پلکوں پر سجائے ہوئے تھے، وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور وقت گذرنے کے ساتھ کانگریس کا وجود سمٹتا رہا، اور بی جے پی کے وجود میں اضافہ ہوتا رہا، حالانکہ صورت حال یہاں تک پہنچی کہ کانگریس کو اپنی عزت و وقار حاصل کرنے کے لئے سائیکل پر سوار ہونا پڑا لیکن کانگریس کی ناکامیوں کا بوجھ اکھلیش سنگھ یادو کی سائیکل سنبھال نہیں پائی اور حیرت انگیز نتائج نے کانگریس اور سماج وادی ہی نہیں بلکہ پورے اترپردیش کو محو حیرت کردیا اور اگر اس مقام پر پورا ملک کہا جائے تو بھی بجا ہوگا، دونوں سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر حیرت زدہ تھے، جیسے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو، اس کے بعد اکھلیش تو ایسے جیسے کہیں روپوش ہو گئے ہیں ، اور بہت دنوں تک اخبارات کی سرخیوں سے غائب رہے، البتہ راہل نے مختلف صوبوں انتخاب کے دوران ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور کانگریس منظرنامہ سے غائب ہوتی چلی گئی۔
صورت حال کچھ ایسی ہوگئی جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنی تختی پر لکھے ہوئے حروف پر ملتانی مٹی پوت دے، بی جے پی نے پورے ملک پر بھگوا رنگ پوت دیا، تاریخ کے صفحات کو دیکھیں اور گذشتہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر غور کریں تو ہمیں احساس ہو جائے گا،کہ کس طرح سے بی جے پی نے انتخاب در انتخاب ترقی کی اور کانگریس کو چاروں شانے چت کردیا، کانگریس ہی نہیں اس کی زد میں کئی علاقائی پارٹیاں بھی آئیں ، جن میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج مرکزی مقام کی حامل ہے، ان پر گفتگو کرنے سے قبل ہم آپ کو یاد دلادیں کہ 2004 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو 44 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا، اور اٹل بہاری کی جگہ منموہن سنگھ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے، بی جے پی نے 1998 میں جو 182 سیٹیں حاصل کی تھیں ، اس میں کانگریس سیندھ لگانے میں کامیاب رہی تھی، اور اس نے اپنی گذشتہ سیٹوں میں 41 سیٹوں کا اضافہ کیا تھا، اس موقع پر کوئی سیاسی تجزیہ نگار، کوئی سیاست کا ماہر کانگریس کی موجودہ صورت حال کے بارے میں خیال بھی نہیں کرسکتا تھا، 2009 کے انتخاب نے یہ اعلان کردیا تھا کہ بی جے پی اس ملک میں کبھی فتح یاب نہیں ہوگی اور یہاں ہمیشہ سیکولر ذہنیت کی حامل جماعتیں ہی کامیابی کا پرچم لہراتی رہیں گی، چونکہ بی جے پی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی تھے، ان کی کوششیں سب کے سامنے تھیں ، اس کے باوجود بی جے پی محض 116 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی اور کانگریس نے 206 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن 2014 کے اسمبلی انتخاب میں سکہ کا دوسرا پہلو ہمارے سامنے آیا اور نریندر مودی جادوگر کی طرح آئے اور ملک کی سیاست کو اپنی گرفت میں لیا اور ناقابل یقین کامیابی حاصل کی، کانگریس خود کو ناقابل تسخیر خیال کر رہی تھی، جب کہ بی جے پی نے زمینی سطح پر محنت کی، دن رات ٹی وی پر ایڈ کئے گئے، لوگوں کی رگوں میں نفرت کا زہر گھولا گیا، مظفرنگر فساد کو بنیاد کر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان آہنی دیوار کھڑی کر دی گئی، جس کا خاطرخواہ سے بھی زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا، اور 2014 انتخابی نتائج آج بھی ہمارے ذہنوں میں ہیں ، اور کون ان نتائج کو بھول سکتا ہے، ان نتیجوں میں یقینی طور پر انا ہزارے کی تحریک کا اثر بھی تھا، اور بی جے پی کی زمینی سطح پر کی گئی کوشش بھی ثمریاب ہوئی، کانگریس اس شکست سے حیرت زدہ ہوگئی، اور ہار کی وجوہات بھی ان کی سمجھ سے بالاتر ہوگئیں۔
کانگریس کی پریشانی یہ ہے کہ وہ خود کو سیکولر کہتی ہے، مسلمانوں کی پارٹی گردانتی ہے، حالانکہ نرم ہندتو کا فلسفہ بھی اس سے وابستہ رہا ہے، اور بہت سے مسائل میں اس نے مسلمانوں کو چوٹ پہنچائی ہے، اس کا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہونا اسے کافی مہنگا پڑا ، حالانکہ بی جے پی نے واضح کردیا ہے کہ وہ کس مزاج اور کس خیال کی حامل جماعت ہے۔ یہ تو ماضی کا فسانہ تھا، اب کانگریس کو احساس ہو چکا ہے کہ بی جے پی کو مات دینا آسان نہیں ہے، حالانکہ وہ بی جے پی کے چار اقتدار کی ناکامیاں بھی بتارہے ہیں۔ مہنگائی، نوٹ بندی کے نقصانات، آبروریزی کے واقعات وغیرہ مختلف مسائل پر گفتگو کررہے ہیں ، اور زمینی سطح پر کوشش کر رہے ہیں ، عظیم اتحاد کے سلسلے میں کی گئی کوششیں اس کی بین دلیل ہیں تاکہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں اور بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے، اکھلیش کو بھی اس نازک پہلو کا احساس ہے، اور وہ اعلان کرچکے ہیں ، کہ وہ اس اتحاد کے لئے دو قدم پیچھے ہٹنے کو بھی تیار ہیں ، حالانکہ مایاوتی حقائق کو نہیں دیکھ پارہی ہیں ، شاید وہ بھول گئیں کہ 2014 اسمبلی انتخابات میں انہیں اترپردیش سے کوئی سیٹ حاصل نہیں ہوئی تھی، حالانکہ وہ اس اتر پردیش میں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں اور 2017 کے اترپردیش اسمبلی انتخاب میں وہ محض 20 سیٹیں حاصل کرپائیں تھیں ، جو ان کی گذشتہ کارکردگی سے بہت زیادہ کم تھی، اس کے باوجود بھی وہ انا اور مفاد کے خول سے باہر نکل پارہی ہیں ، اور عظیم اتحاد کے قیام روڑا بنا ہوئی ہیں ، انہیں اپنی عزت اور احترام عزیز ہے، وہ ملک اور ملک کی صورت حال سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں ، دیکھنا یہ کیا عظیم اتحاد قائم ہوگا؟ کیا مایاوتی کاپیمانہ دوسری جماعتوں کے لئے قابل قبول ہوگا، حالانکہ وہ جس طبقہ کو اپنا کہتی ہیں ، وہ بھی بی جے پی کی گود میں بیٹھ گیا تھا اور اس طبقے میں بھی راون کی شکل میں ایک لیڈر ابھرا ہے، جس کا اثر ضرور عوام پر ظاہر ہوگا اور اس کے علاوہ دلتوں کی دوسری جماعت بام سیف کا اثر و رسوخ بھی واضح ہے، اس صورت حال میں مایاوتی کیا کرتی ہیں ؟
یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا، کیا وہ عظیم اتحاد کا حصہ بنتی ہیں ؟ یا تنہا انتخابی میدان میں اترتی ہیں ، اور عظیم اتحاد کے خواب کو حقیقت میں تبدیل نہیں ہونے دیتیں ، یہ تو مستقبل میں علم ہوجائے گا، فی الحال تو صرف اتنا کہا جاسکتا ہے، کہ یہ جمہوریت کے لئے مشکل ترین وقت ہے، اپوزیشن میں کوئی باحیثیت جماعت موجود نہیں ہے، ملک میں مسائل ہی مسائل ہیں ، تمام اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بھی بی جے پی کو کس حد تک چیلنج کر پائے گا اس سلسلے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے، البتہ اتنا یقینی کہ ووٹوں کی تقسیم نہ ہو تو بی جے پی کو ضرور نقصان ہوگا، لہٰذا اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں ایثار کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور ملک کی تعمیر و ترقی ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھنا چاہیے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔