کیا مسلمانوں کو حوصلہ ہارجانے کی ضرورت ہے؟
ابو اسامہ
(استاد: شعبہ سوشل ورک‘ مانو۔ حیدرآباد)
میں جس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں، ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کا وفاتیہ لکھا جاچکا ہے جو دائیں بازو کی سیاست میں پختہ ایمان رکھنے والی بی جے پی کے خلاف پورے جوش و خروش کے ساتھ الیکشن لڑ رہی تھیں۔ مگرایسے نازک حالات کیدوران میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے پر امید ہوں۔ ہندوستانی مسلمان جو کہ بی جے پی اور اس کی ہم خیال پارٹیوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یقینا ان کو زبردست فتح نصیب ہوئی ہے۔ حزب مخالف پارٹیوں اور ترقی پسند صحافیوں کی نوحہ خانی کے بیچ ایک عام شہری کے طورپرمیں ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ جی ہاں ! 17.22 کروڑ (14.23فیصد) ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں۔ جان ملٹن ’’جنت کھو گئی‘‘ کو لکھنے کے بعد ’’جنت دوبارہ مل گئی‘‘ کو رقم کرنے کے لیے پر امید تھے، میرا شمار بھی اسی خانوادے میں ہے۔
بی جے پی نے جس انداز سے مسلمانوں کے اردگرد ایک عوامی ڈسکورس کھڑا کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی اس سے ہم تمام بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی ریلیوں میں مسلمانوں کو فقط ایک انتخابی مہرا بنا کرپیش کیا جس کا مقصد اپنی فرقہ وارانہ سیاست کو جلا بخشنا تھا۔ انھوں نے دیگر تمام قوموں کیدرمیان اس پیغام عام کرنے کی کوشش کی ملک کی ترقی اور مذہبی رواداری میں اس ملک کے مسلمان رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بی جے پی نے مسلمانو ں کے دم پر دوبارہ حکومت بنائی ہے۔ کیوں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں قبرستان، گائے، طلاق اور پاکستان جیسے مسائل کو مستقل اچھالا گیا۔ اس کا مقصد ملک کی دیگر قوموں کو یہ ذہین نشین کرانا تھا کہ جس مذہب کو ملک کا سیکولر ذہن ترقی پسند کہتا ہے درحقیقت اس میں رجعت پسندی اور مذہبی خرابی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ غالبا ہندوستان کی انتخابی سیاست کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہوگا کہ مسلمانوں کو یہ مسلسل یہ احساس دلایا گیا کہ انتخابی سیاست میں نہ تو ان کے ووٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی۔ اپنے اس ایجنڈے میں بی جے پی مکمل طور پر کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
شاید یہ ایک قسم کی مبالغہ آرائی لگے مگریہی وہ ایجنڈا تھا جسے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف استعما ل کیا تھا۔ ہٹلر اور اس کی ٹیم نے یہودیوں کو یورپ سے کھڈیرنے سے پہلے ان کے خلاف جرمن عوام کی ذہن سازی کی، یہ ثابت کیا گیا کہ یہودی گندے ہوتے ہیں، ان میں جرائم کی شرح زیادہ ہے، وہ قانون کی پاسداری نہیں کرتے ہیں، جرمنی کے خلاف سازش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ جو ناروا انسانی سلوک کیا گیاوہ قانون کے دائرہ کار سے باہر نہیں تھا بلکہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے یہودیوں کو گیس چیمبر میں ڈال کر اذیتیں دی گئیں۔ گزشتہ سالوں میں بی جے پی کے نظریے سے مہمیز پا کرجنونی ہجوم نے پسماندہ مسلمانوں اور دلتوں کا سر عام قتل کیا۔ آج اس جنونی ہجوم کی نشاندہی اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی نے عام ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ دراڑ پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ فرقہ واریت کے زہر کو اپنی جگہ حاصل کرنے میں زیادہ جد وجہد نہیں کرنی پڑی۔
مسلمانوں کے تئیں تعصب کا یہ رویہ اچانک پیدا نہیں ہوگیا بلکہ یہ نئی سامراجیت پسند پالیسیوں کا اٹوٹ حصہ ہے۔ نائن الیون کے سانحے نے مسلمانوں کو پوری ترقی پسند دنیا میں پست کیا گیا جس کا بنیادی وصف یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں میں نئی اور جدید دنیا سے مناسبت رکھنے کی صلاحیت نہیں ہے کیوں کہ وہ اخلاقی اعتبار سے تنگ نظر اور مذہبی طور جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ اس پروجیکٹ کو ہندوستان میں بھی خاصی تقویت ملی۔ ہندوستان میں دوسرے پسماندہ طبقات کی طرح سیاسی طور پرآج مسلمان بھی ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ کئی بار ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہماری مسلم شناخت سے ہمیں پہچانا جائے باوجود اس کے روزمرہ کی زندگی میں ہمیں ہماری مسلم شناخت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ہماری شناخت کے تعلق سے متعدد محاورے اور کہاوتیں کہی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو جدید دنیا کی تمام ترقی پسند ایجادات اور خیالات کا ’’اینٹی‘‘سمجھا جاتا ہے۔ عام اور خاص دونوں ہی طبقے میں انھیں تنگ نظر، غیر روادار اور عہد وسطی کے لوگوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہماری بستیوں کو ’’چھوٹا پاکستان‘‘، ’’سعودی عرب‘‘ اور ’’آتنک گڑھ‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کیوں کہ ہم گھیٹو میں رہتے ہیں۔ مگر اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان ایک ساتھ اس لیے نہیں رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ ایک امت میں یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ اس لیے ایک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ وجہ نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہے اور فرقہ وارانہ فسادات اور جان و مال کا خطرہ ہے۔ دنیا میں ایسا کون فرد ہے جوچھوٹے گھر، تنگ گلیوں اور جدید سہولیات کے بغیر رہنا چاہتا ہے؟ شاید کوئی بھی نہیں ! ہم اپنے محلوں میں جھگڑا کرتے ہیں، بہت سارے ایشوز پر نااتفاقیاں ہوتی ہیں مگر ہم پھر بھی ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ ہمارے محلوں میں ہم، ہمارے گھر اور ہمارے اہل خانہ محفوظ ہیں۔
سال 2014کے بعد عام لوگوں کے رویے میں تبدیلی آئی۔ لوگوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم ڈر گئے تھے کیوں کہ پے در پے ایسے حادثات ہوئے جنھوں نے ہمیں جھنجھوڑ دیا۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے انتہا پسند تنظیموں کو نہیں جوائن کیا اور نہ ہی انھوں نے غیر قانونی کاموں میں خود کو ملوث کیا۔ البتہ انھوں نے ادبی فورموں کو جوائن کیا، انقلابی نظمیں لکھنے اور پڑھنے لگے، مملکت کو ان کے فرائض کی یاددہانی کراتے ہوئے سڑکوں پر اترکر آئے، عدلیاتی ایکٹوازم کے ذریعے قانونی امداد اور انصاف کی مانگ رکھی اور اپنی سیاسی حصے داری اور شراکت داری کے مسئلے پر بحث و مباحثے کیے۔ اب مسلمانوں نے ستر سال پرانے تقسیم ہند کے بوجھ کو اپنے کندھے سے اتار کر الگ رکھ دیا ہے کیوں کہ اب وہ اس وراثت کے حصے دار نہیں ہیں، ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ ہم اب یہ کہہ رہے ہیں کہ تقسیم ہند کے ذمے دار ہم نہیں ہیں۔ لہٰذا تقسیم کا کارڈ دکھا کر ہمیں ڈرانا بند کیا جائے۔ ہندوستان چھوڑ کر ہم کہیں نہیں جانے والے ہیں، ہم اس ملک میں وقار کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نہ تو کانگریس اور نہ ہی بی جے پی نے ہماری سیاسی و معاشی حصے داری کو یقینی بنایا ہے۔ اس ملک میں انھوں نے ہمارے بنیادی انسانی اور شہریت کے حقوق پامال ہونے دیا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے ہماری ترقی کی تمام راہیں مسددو کی ہیں۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخر سماج کے ایک پسماندہ طبقے کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟ انھوں نے اپنے سیاسی منشوروں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس خلاف ورزی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ گجرات میں بی جے پی 1995 میں حکومت میں آئی مگر اس سے پہلے 1982سے لے کر 1990تک کانگریس کے دور حکومت میں تقریبا ہر سال فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ وہاں سال 1990کے اپریل، اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں لگاتار فسادات ہوئے۔ حتی کہ 2002کے گجرات فسادات میں کانگریس نے کیوں نہیں آرٹیکل 356 کا استعمال کیا ؟ کیا مسلمان نوجوانوں کی گرفتاریوں کی کانگریس ذمے دار نہیں ہے؟ کیا کانگریس نے انسداد دہشت گردی سے متعلق غیر انسانی اور سخت گیر قوانین کا استعمال مسلمانو ں کے خلاف نہیں کیا؟ایسی باتوں کے وافرشواہدموجود ہیں۔
مگرہم نے ابھی بھی حوصلہ نہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی ہارمانی ہے۔ بھارت کے آئین میں ہمارا یقین ابھی بھی مسلم ہے۔ ابھی بھی ہم اپنے پڑوسی اور ہندو احباب اور اس ملک کے سیکولر ہندوؤں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ہزار سال پرانے سیکولر ٹریڈیشن میں آج بھی ہمارا وشواش اٹوٹ ہے۔ 2014کے بعدسے جس اسپرٹ کے ساتھ ہم نے شروعات کی تھی، ہمیں اسے جاری رکھنا ہوگا۔ ہمیں کسی بھی لایعنی قسم کی سیاسی نعرے بازی کے دام سے ہمیں بچناہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ نا مساعد حالات نئے امکانات بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہم سے بہتر ہماری بات کوئی اور نہیں کرسکتا۔ ہمیں اپنی آواز خود ہی بلند کرنی پڑے گی۔ ہمیں اپنے ملک میں اپنے حقوق خود ہی مانگنے پڑیں گے اور مسلم شناخت پر مبنی پالیٹکس بھی کرنی ہوگی۔ جس طرح سے مسلمانوں کو سیاست سے بے دخل کیا گیا ہے اس غصے کو مثبت شکل دینی ہوگی۔ ہمیں دلتوں سے سیکھنا چاہیے کہ شناخت کی سیاست کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے۔ انھوں نے مملکت اور اس کے متعلقہ اداروں سے انصاف کا تقاضا کرنا شروع کردیا ہے۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کی پارٹیوں کو شکست ہوئی ہے لہٰذا یہ بوجھ بھی وہیں اٹھائیں۔ کیوں کہ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کی حکومت میں مسلمانو ں کا سیاسی اور معاشی درجہ زیادہ بلند ہوجاتا؟ اگر بی جے پی سے کسی کو خطرہ ہے تو اس میں پورا ہندوستان شامل ہے، محض مسلمان نہیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔