اتر پردیش میں بد امنی اور انارکی کی حکمرانی!

تحریر: رامچندر گوہا … ترجمہ: عبدالعزیز

 برطانوی اقتدار کو ہندستانی ہاتھوں میں منتقل کرنے کیلئے 1946ء میں کیبنٹ میش کا تین رکنی وفد انگلینڈ سے ہندستان پہنچا۔ وفد نے گاندھی جی کو سیوا گرام میں ملاقات کیلئے مدعو کیا۔ گاندھی جی کے دیرینہ دو دوست اور شاگرد جی ڈی برلا نے خواہش ظاہر کی کہ ان کے خوبصورت محل میں ان کا پرتپاک استقبال ہو مگر گاندھی جی نے دہلی کی ایک بھنگی کالونی میں ٹھہرنا پسند کیا۔ برلا نے بجلی کی سپلائی اور صاف ستھرے پانی کا اپنے پیرو مرشد کیلئے نظم کیا ۔ گاندھی جی کے پرائیوٹ سکریٹری پیارے لال نے برلا کو یہ پیغام پہنچایا کہ گاندھی جی نے کہاہے کہ جو انتظام ان کیلئے کیا گیا ہے اسے کالونی میں ہمیشہ کیلئے کردیا جائے۔ پیغام میں یہ تھا کہ ہے اگر گاندھی جی کے جاتے ہی سارے انتظامات ختم کر دیئے گئے تو یہ ایک قریب اور دھوکے کی بات ہوگی۔ لہٰذا ان کے قیام کے دوران جو بھنگی نواس میں انتظامات کئے جارہے ہیں ۔ وہ قیام کے نتیجہ میں وہ عارضی طور پر نہ ہو بلکہ ہمیشگی کیلئے ہو۔ گاندھی جی یکم اپریل 1946ء کو دہلی پہنچے۔ انھوں نے اپنی پرارتھنا سبھا میں کہاکہ ’’چھوت چھات ہندو مت میں سب سے بڑا داغ ہے، لہٰذا ہریجنوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہئے تاکہ وہ معاشرہ کا خوشگوار حصہ بن سکیں ‘‘۔

 مذکورہ واقعہ میرے ذہن میں اس وقت تازہ ہوگیا جب میں نے اخباروں میں پڑھا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ بی ایس ایف کے اس نوجوان کے گھر گئے جسے سرحد پر پاکستانی فوجیوں نے درندگی کے ساتھ قتل کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کے پہنچنے سے پہلے مقتول کے گھر میں اور ایئر کنڈیشنر لگا دیا گیا اور بہترین کارپیٹ بچھایا گیا اور سوفے اور کرسیاں لگا دی گئیں تاکہ وزیر اعلیٰ اور ان کے رفقاء کو تکلیف نہ ہو۔ غسل خانے میں نئی اور قیمتی تولیہ رکھ دی گئی، مگر جیسے صاحب بہادر مقتول کے گھر سے باہر ہوئے ساری چیزیں اے سی، تولیہ، سوفا اور دری آناً فاناً ہٹا لی گئیں کہ کہیں اس پر مقتول کے عزیز و اقارب بیٹھ کر گندہ نہ کر دیں ۔

 جب اس واقعہ کی رپورٹ شائع ہوئی تو کچھ لوگوں نے تعجب اور حیرت کا اظہار کیا کہ ’’یوگی‘‘ اور اس کیلئے ایئر کنڈیشن کمرہ لیکن یوگی جی نہ صرف عیش و عشرت کے دلدادہ ہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کا اقتدار سنبھالنے سے پہلے وہ ایک بڑے انٹر پرائز کے مالک تھے جس سے لاکھوں کی آمدنی ہے۔ مڈیٹیشن اور روحانیت محض ایک دکھاوا تھا۔ ایک اچھا اور پرہیزگار آدمی صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ یوگی اپنے شاگردوں کو ملک کے پر امن شہریوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور تشدد اور بربریت کی تعلیم دینے میں خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں ۔

   گورکھ پور کے گورکھ مٹھ کے مہنت جیسے ہی یوپی کے وزیر اعلیٰ ہوئے ریاست کے بہت قابل احترام رائٹر نرینترا سہگل نے کہاکہ ’’یوگا کے سلسلے میں مجھ جیسے عامل کو یہی سکھایا گیا ہے کہ یوگا کا سب سے اہم اصول اور راستہ ہے عدم تشدد میرے خیال سے کوئی ایسا شخص یوگی ہو نہیں سکتا جو تشدد اور بربریت کی تعلیم دیتا ہو جیسا کہ میں یوگی ادتیہ ناتھ کو دیکھتا ہوں ‘‘۔

 سہگل کو ادتیہ ناتھ کی تاجپوشی سے کافی حیرت اور بے چینی ہوئی جبکہ دوسرے قلمکاروں نے اسے ماسٹر اسٹروک بتایا۔ ایک کالم نویس نے لکھا جب کلاس کے سب سے شریر لڑکے کو نگراں (مونیٹر) بنا دیا جاتا ہے تو کلاس میں سکون رہتا ہے۔ چند نامہ نگاروں نے لکھا کہ ادتیہ ناتھ مسلم دشمن نہیں ہیں کیونکہ ان کی گائیں جو دیکھ بھال کرتے ہیں ان میں ایک مسلمان بھی ہے۔ ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ ہوئے محض دو ماہ ہوئے اس مختصر مدت میں بدقسمتی سے اتر پردیش کے آزاد اور پرانے قلمکار سہگل نے جو ادتیہ کی تصویر کشی کی ہے اور ان کے کردار کو جانا اور پہچانا ہے۔ وہ آج کے نوجوان رائٹرس اورنامہ نگار نہ لکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں ۔

 ادتیہ ناتھ جیسے ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے سب سے پہلے انھوں نے غیر قانونی ذبیحہ خانے کو بند کرا دیا۔ بغیر کسی چھان بین اور تحقیق کی کہ کسی کے پاس لائسنس ہے یا نہیں ۔ ادتیہ ناتھ کے سپاہی اور ان کے تربیت یافتہ شرارت پسندوں نے ذبیحہ اور ان کے مالکوں پر دھاوا بول دیا ۔ کئی جگہ دکانوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ جسے چاہا مار مار کر ادھ موا کر دیا یا قتل کر دیا۔ اس طرح سارے اتر پردیش میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اتر پردیش ملک میں گوشت ایکسپورٹ کرنے کی سب سے بڑی منڈی ہے جس سے ایک بڑی آمدنی باہر ملکوں سے ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگ جو کاروبار یا ملازمت سے لگے ہوئے تھے وہ بیکار اور بے روزگار ہوگئے۔ ریاست کی معیشت پر ہی اثر نہیں پڑا بلکہ لوگوں کی روزی روٹی کا معاملہ بھی بڑے پیمانے پر درپیش ہے۔

 یوگی ادتیہ ناتھ کے ’گئو غنڈے‘ سڑکوں پر اتر آئے اور جس کو چاہا جب چاہا اپنا نشانہ بنایا۔ گئو رکشکوں نے بے گناہ اور بے قصور لوگوں پر حملہ آور ہوگئے۔ ریاست کی پولس بھی گئو غنڈوں کے ساتھ ہوگئی اور انھیں ہر طرح کی غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ دے دی۔ ’لو جہاد‘ کے نام پر بھی مسلمانوں اور ان کے گھروں اور دکانوں پر حملے ہونے لگے۔ اسے ہندو انتہا پسندوں نے ’لو جہاد‘ کا نام دیا ہے۔ ادتیہ ناتھ جب سے وزیر اعلیٰ ہوئے ہیں تشددکی واردات بڑے پیمانے پر اتر پردیش میں ہونے لگی ہیں ۔ دلت اور بڑی ذاتوں کے درمیان میں تناؤ اور کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ سہارنپور ضلع میں ٹھاکروں نے ایک دلت کے گھر پر حملہ کر دیا اور اسے نذر آتش کر دیا۔ ایک دلت نے جسے بری طرح ظلم کا شکار ہونا پڑا کہاکہ ’’جب الیکشن ہوتا ہے ہم کو ہندو بنا دیا جاتا ہے اور بعد میں دلت شمار کیا جاتا ہے‘‘۔

 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوپی پولس نے ادتیہ ناتھ غنڈوں اور بدمعاشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے۔ پولس شرپسندوں سے ہی ہدایت لینے لگی ہے کہ کیا کرنا چاہئے، کیانہیں کرنا چاہئے۔ اسی دوران کچھ جرأتمند لوگوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ادتیہ ناتھ کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقرریوں کے خلاف پٹیشن دائر کردیا۔ ایک ریکارڈڈ (Recorded) اسپیچ میں ادتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ’’ اگر مسلمان ایک ہندو لڑکی کو لے جائیں گے تو وہ سو مسلم لڑکیوں کو لے جائیں گے‘‘۔ ایک دوسرے موقع پر یوگی ادتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ ’’اگر حکومت کوئی کارروائی نہیں کرے گی تو وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوں گے‘‘۔ ایک ہندو نوجوان نے جو ادتیہ ناتھ کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھاہوا تھا کہاکہ ’’وہ مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کے ساتھ عصمت دری کرے گا‘‘۔

 اس طرح کی اَنگنت تقریریں ادتیہ ناتھ کی ریکارڈ پر ہیں جسے کسی شہادت یا گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ادتیہ ناتھ اور ان کے شریر رفقاء نے نفرت سے بھری ہوئی تقریریں کی ہیں مگر عدالت کو اس حکومت سے اجازت لینے کی قانوناً ضرورت ہے جس حکومت کے سیاہ و سفید کے وہ مالک ہوگئے ہیں وہ بھلا کیسے اپنے جرائم کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟ یوپی سرکار نے عدالت کو اجازت دینے سے انکار کردیا۔

   یوگی نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں کہا ہے کہ ’’اکبر، اورنگ زیب اور بابر‘‘ کو اگر بیرونی حملہ آور قرار دے دیا جائے تو ملک کا سارا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے‘‘۔ غربت اور بیماری، عورتوں ، دلتوں اور اقلیتوں پر مظالم، نکسلیوں کا پولس پر سفاکانہ حملہ، ذات پات کا جھگڑا، فوجداری کے عدالتی نظام کا انہدام، سرکاری اداروں میں بدعنوانیاں سب کی سب ختم ہوجائیں گی۔ اگر یوگی کے مطابق ’’کوئی یہ زور زور سے چیخے اور چلائے کہ ’’اکبر، اورنگ زیب اور بابر بیرونی حملہ آور تھے‘‘۔ ایک ایسے آدمی کو جو جہانِ فکر سے نابلد اور کورا ہے، اسے وزیر اعظم نے ملک کی سب سے بڑی ریاست کی زمام کار سونپ دی ہے جس کی آبادی 20 کروڑ ہے۔

   یوپی کی سماجی اور معاشی پسماندگی سابقہ حکمرانوں یا وزراء اعلیٰ کی دین ہے۔ کانگریس کے وزراء اعلیٰ نے اقربا پروری اور بدعنوانیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ بہوجن اور سماجوادی پارٹی کے وزراء اعلیٰ نے بدعنوانی اور ذات برادری کو بڑھا وا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یوپی کے یو (U) کے معنی ہے Ungovernable (بدتر حکمرانی)۔ 60 دنوں کی یوگی کا راج بدترین حکمرانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے رپورٹ پیش کی ہے کہ یوگی کی ہندو یوبا باہنی کیلئے ہر روز سو سے پانچ سو تک درخواستیں ممبر شپ کیلئے آتی ہیں ، اس وقت پانچ ہزار سے زائد شرارت پسند یوگی باہنی میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مہینہ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ شریر لوگوں کی فوج تیار ہوجائے گی اور ایک سال میں لگ بھگ بیس لاکھ شرارت پسندوں کی ٹیم بن جائے گی جو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی حقدار ہوگی۔

اس نکتہ پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے کہ یوپی کی آبادی اس قدر ہے کہ پورے ہندستان میں 6 آدمیوں میں سے ایک آدمی یوپی کا ہوتا ہے۔ اگر یوپی بدنظمی اور بدچلنی کا شکار ہوتا ہے تو اس کا اثر پورے ہندستان پر پڑے گا اور کوئی بھی اس سے نہیں بچ سکے گا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کی مرکزی قیادت یوگی میں حکمرانی کا گُر دیکھ رہی ہے کہ کافی ہے۔ یوگی کا ماضی کا ریکارڈ کچھ ایسا ہے کہ ایسے شخص سے قانون کی حکمرانی کا احترام اور ہندو مسلم میں بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہونا مشکل ہے۔ کوئی تاجر یوپی جیسی ہنگامہ خیز ریاست میں اپنی پونجی لگانا بالکل پسند نہیں کرے گا۔ اس طرح یوپی اندھیروں میں اس طرح ڈوب جائے گا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔