الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا

حفیظ نعمانی
رب کریم کا احسان ہے کہ ان آنکھوں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ بیل گاڑی کے اوپر بڑا سا تخت رکھا ہے، اس پر صاف گدے اور گاؤ تکیے رکھے ہیں اور تخت پر پنڈت گوبند بلبھ پنت اور سنبھل کے عالم دین مولانا محمد اسمٰعیل صاحب اور کانگریس کے دوسرے مجاہد آزادی بیٹھے ہیں اور اس گاڑی کو بیلوں کے بجائے عوام کھینچ رہے ہیں اور میلوں دور جو جلسہ گاہ ہے وہاں تک لیجانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔
اور آزادی کی جد و جہد کے لیے جہاں کہیں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور انور صابری کا اعلان ہوتا ہے تو شہر سے ہی نہیں دور دور کے دیہاتوں سے قافلے آرہے ہیں اور صبح تک تقریریں سن کر اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے گھروں میں دو چار گھنٹے آرام کرکے گاؤں واپس چلے جاتے ہیں۔ جلسہ کرانے والوں کا صرف ایک خرچ ہوتا ہے۔ ڈائس بنانا، مائک لگوانا اور اعلان کرانا۔ یہ زمانہ تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ اس وقت تک رہا جب تک عوام کو یہ یقین رہا کہ ہمارے لیڈر ہمارے لیے محنت کررہے ہیں اور ایماندار ہیں۔ اور جس دن سے یہ بدگمانی ہوئی کہ لیڈر وزیر بن کر دولت کمارہے ہیں۔اس وقت سے ملک ’تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش‘ کی تصویر بن گیا ہے۔
لکھنؤ میں اٹل جی جس دن تقریر کرنے والے ہوتے تھے تو صرف ایک رکشہ پر مائک سے اعلان ہوتا تھا کہ اٹل بہاری بولے گا سارا ڈولے گا۔ اور جب اٹل جی کی تقریر شروع ہوجاتی تھی تو اعلان تبدیل ہوجاتا تھا کہ اٹل بہاری بول رہا ہے اور سارا بھارت ڈول رہا ہے۔ یہ وبا اندرا گاندھی کے زمانہ سے شروع ہوئی کہ مجمع اکٹھا کرو۔ اندرا جی صرف ابتدا میں لیڈر رہیں اس کے بعد ان کی کہانیاں زبانوں پر آگئیں اور وہ صرف وزیر اعظم رہ گئیں۔ اس لیے کرایہ پر پیسے دے کر بسوں کے ذریعہ، کھانے کے پیکٹ کے سہارے عوام کو لایا جانے لگا اور آنے والے بھی اگر اپنے پیسے لائے ہیں تو یا خریداری کرنے لگے یا سنیمادیکھنے چلے گئے اور ٹوٹے پھوٹے بچوں والی مائیں، اور بوڑھے مجمع اور حاضرین جلسہ بن کر بیٹھ رہے۔ 72ء میں ان کی مقبولیت پاکستان کو توڑنے کی وجہ سے تھی۔ وہ علی گڑھ آنے والی تھیں، یونس سلیم صاحب الیکشن لڑ رہے تھے اور ہم وہاں موجود تھے۔ خبر آئی کہ صبح ۷بجے آئیں گی، ہم نے سلیم صاحب سے کہا کہ دسمبر کا مہینہ ہے صبح ۷ بجے شہر کے لوگ بھی نہیں آپائیں گے۔ دیہاتوں کا کیا سوال؟ انھوں نے جواب دیا کہ انکا پروگرام جب بن گیا تو اس میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ اب انتظام کراؤ بس۔
ہمیں یاد نہیں کہ سلیم صاحب نے ایک بس کا انتظام کیا ہو اور چھ بجے صبح جب ہم لوگ ابھی ریلوے گیسٹ ہاؤس سے تیار ہو کر نکلے بھی نہیں تھے کہ دیہاتوں سے آنے والوں کے نعروں سے سارا شہر گونجنے لگا ا ور جب ہیلی کاپٹر کی آواز آئی ہے تو سارا میدان بھرا ہوا تھا۔ اس کے بعد جتنے الیکشن ہوئے ہر الیکشن میں سیکڑوں بسوں کے ذریعہ لوگ لائے جاتے تھے۔
مودی جی پریورتن ریلیاں کررہے ہیں۔ خبروں کے مطابق آگرہ اور غازی پور کی ریلیوں میں مجمع کی کمی سے مودی ناراض ہیں اور جن سے کہا جاتا ہے کہ بھیڑ اکٹھی کرو، لاکھوں آدمی لاؤ تو کان میں کہتے ہیں کہ بینک کی لائن میں تمہارا باپ کھڑا ہوگا؟ 24؍ دسمبر کو لکھنؤمیں ہونے والی ریلی کو اسی لیے 3؍ جنوری کے لیے ملتوی کردیا کہ50 دن پورے ہوچکے ہوں گے اور عوام اس ہیرو کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑیں گے جس نے ان کے گھر کی شادیاں ملتوی کرادیں۔ جس نے دوکانوں سے گاہکوں کو بھگا دیا، جس نے کروڑوں مزدوروں کو فاقے کرادئے۔ جس نے سیکڑوں مردوں اور عورتوں کو پیٹ کی خاطر نس بندی کرانے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد بھی اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ گندے انڈے اور سڑے ہوئے ٹماٹر لے کر آتے اور ہر طرف انڈوں اور ٹماٹروں کی برسات کرکے چلے جاتے۔
حیرت ہے کہ مودی جی کو 20 دن گزرنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور وہ اپنے ایم پی سے کہہ رہے ہیں کہ نوٹ بندی کے فائدے گناؤ اور ٹکٹ کے امیدواروں سے کہہ رہے ہیں کہ پریورتن ریلی میں بھیڑ لاؤ اور وہ کہہ رہے ہیں کہ بڑے میاں کی آج بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ انھوں نے ہمارے سروں پر جوتے لگوانے کا کام کیا ہے۔ جس نس بندی کی سزا میں اندرا گاندھی کو سڑک پر کھڑا کردیا تھا وہ نس بندی مودی کے ایک بار بھی کہے بغیر ہورہی ہے صرف اس لیے کہ دو ہزار کا ایک نیلا نوٹ مل رہا ہے اور اگر اس مجبوری نے زور پکڑا او ر گاؤں گاؤں نس بندی کرائی جانے لگی تو پھر پریورتن ریلی کا نام لینے والے بھی جوتوں سے دوڑا دوڑا کر مارے جائیں گے۔
فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’چوں قضا آید حکیم ابلا شود‘‘ جب موت آجاتی ہے تو حکیم ہوں یا ڈاکٹر کسی کی سمجھ میں نہ مرض آتا ہے نہ دوا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ منزل آگئی ہے یا نہیں لیکن مودی جی کو اپنی دہلی، بہار، بنگال، تمل ناڈو اور کیرالا کی ریلیاں ، ان کی بھیڑ اور ان پر ہونے والا خرچ اور ان کا انجام یاد کرکے ایسی خریدی ہوئی بھیڑ کی خودمخالفت کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ صرف پوسٹر لگاؤ اور صرف لاؤڈسپیکر سے اعلان کرو تاکہ میں دیکھوں کہ میں نے جو کیا ہے اور جو غریبوں کے لیے کیا ہے اسے انھوں نے سمجھا یا نہیں؟ اور اس کے بعد 3؍ جنوری کو لکھنؤ کی ریلی میں یا اپنے کوشاباشی دیتے یا معافی مانگ کر تلافی کی تفصیل بتاتے۔
بی جے پی کے سنجیدہ لیڈر اس پر متفق نہیں کہ مودی جی نے 300 امیدواروں کے جیتنے والے الیکشن کو ضمانت پر لا کر کھڑا کردیا۔ بی جے پی کی مقبولیت، یادو خاندان کا اختلاف، مایاوتی کی پانچ کروڑ میں ٹکٹ دینے کی شہرت اور سرجیکل اسٹرائک سب پر بینکوں کی لائن کی ذلت نے پانی پھیر دیا۔ اس کے باوجود من کی بات میں بڑوں کو بڑی تکلیف اور چھوٹوں کو کم تکلیف بیان کرنے پر اور ایک بھی بڑے کو لائن میں ذلیل ہوتا نہ دیکھ کر چھوٹوں کا غصہ آسمان پر ہے۔ ہر کاروباری جانتا ہے کہ جتنے بڑے تھے انھوں نے بینک کے ذمہ داروں سے سودا کرلیا اور گھر پر نئے نوٹ آگئے اور پرانے وہ خود سر پر رکھ کر لے گئے۔ لکھنؤ میں سیکڑوں ڈاکٹروں کی آمدنی لاکھوں روپے روز ہے۔ 500 تو عام فیس ہے ،8سو بھی ہے ہزار بھی، کیا کوئی لائن میں نظر آیا ؟ رکشے والا اور مزدور بھی کہہ رہا ہے کہ مودی بری طرح فیل ہوگئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔