امت شاہ نے بچھائی 2019 ء کے عام انتخابات کی بساط

 ڈاکٹر سیّد احمد قادری

اس وقت بھارت کا سیاسی منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔  خاص طور پر ادھر سپریم کورٹ کے دو فیصلوں اور سی بی آئی کی ایک عدالت کے ایک فیصلہ نے پورے ملک کو ایک عجیب دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔   اب جبکہ لوک سبھا کے عام انتخابات میں صرف ایک سال،  نو ماہ اور کچھ دن رہ گئے ہیں۔  ایسے میں بھارتیہ جنتا پارٹی  حکومت کی پئے در پئے ناکامیوں کے باعث چھٹپٹاہٹ اور بے چینی بہت بڑھ گئی ہے۔ چونکہ گزشتہ لوک سبھا کے عام ا نتخابات میں بھی بھاجپا کی کارکردگی543 میں 281 سیٹیں لانے کے باوجود ووٹ کے تناسب کے لحاظ سے 31 فی صد ہی پر محدود ہو گئی تھی اور دیگر پارٹیوں کے ووٹ کا تناسب 69 فی صد رہا تھا،  لیکن ان ووٹوں کے مختلف پارٹیوں کے درمیان منقسم ہونے یا یوں کہا جائے کہ ان ووٹوں کے بکھراؤ  کی وجہ کر بھاجپا کو بڑا فائدہ ہوا تھا۔  اس لئے اگلے عام انتخابات 2019 ء  میں کامیابی کو لے کر بھاجپا کی تشویش فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت شاہ نے گزشتہ روز دہلی میں ’’ مشن  2019 ء۔ ۔۔ 350+‘‘ کا آغاز کیا اور بڑے پیمانے پر اپنی کامیابی کے لئے لائحہ عمل تیار کیا ہے۔  اس کے لئے اب وہ خیر سے راجیہ سبھا کے رکن بھی ہو گئے ہیں اور رکنیت کا حلف بھی  لے لیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھاجپا کی موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا،  جن پر وہ ناز کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے جا ئے۔

غربت، افلاس، بھوک، بے روزگاری، مہنگائی، صحت، تعلیم، تحفظ، رواداری، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی انصاف، جمہوری قدروں کی حرمت اور آئین و دستور کی اہمیت کو، اس حکومت اور پارٹی نے کبھی بھی مسئلہ سمجھا ہی نہیں۔  یہ سب کے سب حاشیہ پر رہے۔ مسئلہ رہا تو بس یہ کہ کیسے ظلم وستم،  بربریت،  تشدد، خوف و سراسیمگی پھیلا کر ـ ’ ہندوتوا‘ کے اپنے نظریہ اور ایجینڈے کو نافذ کیا جائے۔  غریبوں،  مفلسوں،  کسانوں،  دلتوں اور اقلیتوں پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انسانی ہمدردی سے بے نیازاس حکومت کا عالم یہ ہے کہ تغزیہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے،  لیکن اس حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔  گورکھپور کے بابا راگھوداس میڈیکل اسپتال سے ساٹھ سے زائد پھول جیسے بچوں کا جنازہ نکل گیا،  انسانیت چیختی اور کراہتی رہی اور ملک کے وزیر اعظم اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی،  بلکہ یوگی آدیتیہ ناتھ کی حکومت کے ایک وزیر نے یہ کہہ کر اپنی حیوانیت کا ثبوت دیا کہ اگست میں تو بچے مرتے ہی ہیں۔  بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ نے ایک قدم مذید آگے بڑھتے ہوئے اپنے غیر انسانی جذبات کا  اس طرح اظہار کیا کہ ’ملک میں پہلی بار نہیں ہوا ہے ایسا حادثہ ‘۔  اب انھیں کون بتائے کہ جن ماؤں کی گود اجڑ گئی،  ان کے آنسو تھم نہیں رہے ہیں او ران کا غم بانٹنے کی بجائے مذید ان  کے زخموں پرپر نمک پاشی تو نہ کرو۔ اس سانحہ پر بہت ساری اہم شخصیات،  سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ واشنگٹن پوسٹ  وغیرہ نے  ان معصوم بچوں کی اموات کو قتل عام کا نام دیا ہے۔ ملک  کے مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں پر گائے کے نام پر جس طرح تشدد اور ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

یہ در حقیقت گائے سے مذہبی عقیدہ کی بنا پر نہیں ہو رہا ہے،  بلکہ ان پُر تشدد ہجومی حرکات سے ملک کے اندر انتشار اور خلفشار پھیلا کر ان طبقات کے اندر خوف وہراس اور دہشت میں مبتلا کر ان کے اندر مایوسی اور گھٹن کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں،  کہ یہ لوگ اس قدر خوف اور دہشت میں مبتلا ہو جائیں کہ ہر ظلم  وستم پر خاموش تماشائی بنے رہیں۔  اگر ان نام نہاد گؤ رکشکوں کو واقعی گائے سے اتنا ہی مذہبی اور جزباتی  عقیدت ہوتی تو آئے دن جس طرح شہروں اور گاؤں کے مختلف علاقاں میں گائے بھوک، پیاس کی شدت سے بے موت مر رہی ہے،  یہ نہ ہوتا۔  ابھی ابھی ریاست چھتیس گڑھ سے،  جہاں کے وزیر اعلیٰ رمن سنگھ یہ فرما چکے ہیں گائے کو ذبح کئے جانے والے کو پھانسی دی جانی چاہئے،  وہاں رمن سنگھ کے ایک وزیر زراعت کے رشتہ دار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتا ہریش ورما کے قائم کردہ ’ شگون گؤ شالہ ‘ میں چند دنوں کے اندر دو سو سے زائد گائے بھوک، پیاس کی شدت او رلاپرواہی کے سبب مر گیئں۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گؤ شالہ میں گایوں کی دیکھ ریکھ، بھاجپا لیڈرہریش ورما اپنے ذاتی خرچ پر نہیں کر رہا تھا،  بلکہ رمن حکومت نے اس گؤ شالہ کے نام پر پچاس لاکھ روپئے کی گرانٹ بھی دے رکھی ہے ،  اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں اس گؤ شالہ میں بھوک،  پیاس سے گایوں کی موت ہو جاتی ہے۔  لیکن افسوس کہ بھاجپا کے اس  رہنما نے گائے کی بجائے حکومت کے ذریعہ دی گئی موٹی رقم سے ہی اپنی عقیدت کا مظاہرہ کیا۔  اب کیا رمن سنگھ او ردوسرے گؤ رکشک اس بھاجپا نیتا کو پھانسی دے کر یا ہجومی تشدد میں،  جان لینگے؟

مرکز ی حکومت کسانوں کے تئیں بھی بہت ہمدردانہ رویہ کا اظہار کرتی رہتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ اب تک ان کے سلسلے میں ایسی کوئی فلاحی اسکیم تیار یا نافذ نہیں کی گئی ہے،  کہ ان کی خودکشی کا سلسلہ رکے۔ ملک میں آئے دن کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں،  اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ کی ایک مثال دینا چاہینگے،  جہاں صرف سات ماہ میں 580 کسانوں نے خودکشی کر نہ صرف اپنی جان گنوائی بلکہ اپنے پورے خاندان کو غربت و افلاس کی زندگی جینے کے لئے چھوڑ دیا۔

 یہ چند مثالیں بھاجپا کی برسر اقتدار حکومت  کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت تقریباََ ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہے۔ ’نوٹ بندی‘ اور ’جی ایس ٹی‘ کے سلسلے میں حکومت لاکھ دعوے کر لے اور اپنی پیٹھ تھپتھپا لے،  لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں بھی اس حکومت کو ناکامیوں کا  ہی سامنا  کرنا پڑا ہے۔’نوٹ بندی‘  نے جس قدر بے روزگاری میں اضافہ کیا  ہے، اس پر بہت ساری رپورٹیں مختلف اداروں اور ماہرین کی آ چکی ہیں۔  اسی طرح ’جی ایس ٹی‘  نے بہت ساری اشیأ کو بازار سے دور کر دیا ہے،  جس کی وجہ کر مہنگائی اس وقت آسمان پر ہے۔ لیکن ان بڑھتی مہنگائی سے امیروں او راڈانی یا امبانی جیسے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔  فرق تو ان لوگوں کو پڑ رہا ہے،  جو پائی پائی جمع کر دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکلوں سے کھا پاتے ہیں۔  اڈانی اور امبانی جیسے لوگ تو اس بڑھتی مہنگائی سے بھی مالی منعفت اٹھا لیتے ہیں،  بلکہ یوں کہا جائے تو شائد غلط نہیں ہوگا کہ ایسی مہنگائی انھیں لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہی لا ئی جاتی ہے۔

 ملک کی جنگ آزادی میں جن لوگوں کا کو ئی رول نہیں رہا،  کوئی ایثار و قربانی نہیں رہی،  وہ اب برسراقتدار آ گئے ہیں اور انھیں حُب اوطنی کی بہت زیادہ فکر ستارہی ہے۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کو ایشو بنا کر زیادہ ہنگامے کر رہے ہیں۔ ’جَن گَن مَن‘  اور ’وندے ماترم‘ پر جس طرح زور زبردستی کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان نظاروں کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے،  جیسے اس ملک میں پہلی بار یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔  جس کے لئے حکومت کی جانب سے طرح طرح کے احکامات جاری کئے جا رہے ہیں۔  ایک بہت ہی افسوسناک لیکن دلچسپ تماشہ ایک دن ایک ٹی وی شو پر دیکھنے کو ملا۔  اس ٹی وی شو میں ساکچھی مہاراج کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر مملکت، اقلیتی فلاح، سردار بلدیو اولکھ موجود تھے، جو بہت گھن گھرج کے ساتھ یوگی ادیتیہ ناتھ کے ذریعہ اتر پردیش کے تمام مسلم اسکولوں کے لئے جاری کئے گئے حکم نامے کو ضروری قرار دے رہے تھے کہ ہر مسلم اسکول میں قومی پرچم لہرایا جائے اور قومی ترانہ گایا جائے۔  شو کے اینکر نے وزیر اولکھ سے یہ سوال کر دیا کہ آپ قومی ترانہ پر اس قدر زور دے رہے ہیں،  ذرا آپ صرف چار لائن اسے سنا دیں ؟ اب تو سردار اولکھ بغلیں جھانکنے لگے اور اینکر کی مسلسل گزارش پر بھی وہ قومی ترانہ کی دو لائن بھی نہیں سنا سکے،  یہ حال ہے،  اتر پردیش کے ایک وزیر کا،  جو مسلمانوں کو تو زبردستی قومی ترانہ گانے پر مصر ہوتا ہے،  لیکن خود اس ترانہ سے نا بلد ہے۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کی پارٹی کا جنگ آزادی میں کوئی رول رہا ہی نہیں،  کوئی ایثار و قربانی نہیں رہی، بلکہ بھارت کے لوگوں پر ظلم وتشددپر آمادہ انگریزوں کی ہمنوائی کرتے رہے اور اب جبکہ مرکز او رمختلف ریاستوں میں (جوڑ توڑ کر ہی سہی) برسر اقتدار آ گئے ہیں تو یہ لوگ اپنے ماتھے پر سے ملک دشمنی کے لگے داغ کو مٹانے کے لئے اپنی انتہا پسندی کو ثبوت دے رہے ہیں۔  گزشتہ سال پارلیامنٹ کی ایک بحث کے دوران غلام نبی آزاد نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہی کہا تھا کہ یہ لوگ نئے نئے مسلمان بنے ہیں،  اور مثل مشہور ہے کہ نیا مسلمان زیادہ پیاز کھاتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ خود کو حب الوطن ثابت کرنے کے لئے ہی اس طرح کے ہنگامے زیادہ کر رہے ہیں،  تاکہ لوگ انھیں زیادہ حب الوطن سمجھیں۔

  ان تمام صورت حال کے بعد اصل موضوع پر ایک نگاہ ڈالی جائے،  جس میں بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ اپنا مشن 2019 ء۔ ۔۔۔۔  350+  لے کر میدان مارنے اترے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت شاہ جس قدر جوڑ توڑ میں ماہر ہیں اور جس طرح سے انھوں نے اپنی کارستانی سے گزشتہ دنوں گوا اور منی پور سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں زبردستی بر سر اقتدار آئے ہیں۔  اس سے بظاہریہ اندازہ ہوتا ہے کہ امت شاہ کا مشن 2019ء کا جو ہدف  350+ کاہے،  وہ پورا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں جن 150 سیٹوں پر ان کی شکست ہوئی تھی،  ان پر ان کی نگاہ زیادہ ہے۔ بظاہر موجودہ صورت حال میں امت شاہ کی منظم منصوبہ بندی اور تمام تر لائحہ عمل سے انھیں کامیابی ملتی نظر آتی ہے۔ انھیں اس امر کا بھی احساس ہے کہ حزب مخالف اس وقت بکھرا ہوا ہے،  اس لئے ان کی کامیابی، یقینی ہے۔ ادھر اپوزیشن کے اتحاد کو پہلے ملائم سنگھ اور پھر نیتیش کما رنے جس طرح دھکّا پہنچایا،  اس سے یقینی طور ان کے اندر اداسی اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اچانک نیتیش کما رکے، بقول لالو یادو،  پلٹی مارنے اور شرد یادو کو اس مہم میں نظر انداز کئے جانے بعد، شرد یادو کے باغیانہ رویہ نے اپوزیشن میں نئی جان پھونک دی ہے۔  شرد یادو کے ذریعہ دلی کے کانسٹی ٹیو شن کلب میں جس طرح اتحاد کا مظاہرہ ہو ااور راہل گاندھی، منموہن سنگھ، فاروق عبداللہ، سیتا رام یچوری، طارق انور وغیرہ جیسے اہم لیڈران سمیت ملک کی تمام تر  18سیکولر پارٹیوں کے رہنماؤں نے اس میں حصہ لیا ۔

 اس سے اپوزیشن کے اتحاد کا راستہ ضرور ہموارہو گیاہے۔ اپنی ’مشترکہ وراثت بچاؤ‘ کانفرنس میں اتنی بڑی تعداد میں تمام اپوزیشن کے لوگوں کی موجودگی دیکھ کر خود شرد یادو کے حوصلے بھی کافی بلند نظر آ رہے ہیں او رانھیں لگ رہا ہے کہ انھوں نے برسراقتدار حکومت کی جانب سے وزارت کا عہدہ دئے جانے والے آفر کو ٹھکرا کر غلط نہیں کیا، کہ ممکن ہے ان کی رہنمائی میں حزب مخالف کا اتحاد مضبوط ہوتا ہے او راسی بینر تلے انتخاب میں اترتے ہیں تو 31 فی صد کے مقابلے 69 فی صد ووٹوں سے بھاجپا اور اس کے بہت کمزور اتحادیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔سونیا گاندھی کا بھی چند روز قبل ایک بیان آ چکا ہے کہ ’ نفرت پھیلانے والی طاقتوں کے خلاف متحد ہوں ‘۔ ادھر راہل گاندھی نے بھی شرد یادو کی کانفرنس میں بہت ہی واضح طور پر یہ کہا  تھاکہ ہمیں متحد ہو کر ہر سطح پر فرقہ پرستی سے مقابلہ کرنا ہوگا،  ورنہ ملک تباہ ہو جائگا۔ اس موقع پر شرد یادو کی تقریر بھی بہت ہی معنی خیز تھی کہ ہمیں ہجومی حملے میں الجھایا جا رہا ہے،  حملہ تو در اصل ملک کے آئین پر ہو رہا ہے اور ہمارا آئین ساجھی وراثت کا امین ہے۔غلام نبی آزاد نے بھی اس کانفرنس میں بڑی اچھی اور سچی بات کہی کہ ملک کے سیکولر ہندو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔  دابھولکر، پانسرے،  کلبرگی کے قاتل آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ پورے ملک کے اتحاد واتفاق او ربرسہا برس سے قائم گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کے در پئے ہیں،  لیکن اس ملک کے بڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے، جو ملک کے اندر پھیل رہی بد امنی،  انتشار اور خلفشار سے پریشان اور سراسیمہ ہیں او ریہی وہ لوگ ہیں جو آنے والے عام انتخاب میں فرقہ پرسوں کو دھول چٹا دینے کے لئے کافی ہیں۔  بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن، فرقہ پرستی کے خلا ف اٹھ کھڑے ہونے والی 18 سیاسی پارٹیوں کے اندرکے اتحاد کو برقرار رکھے او رمتحد اور محتاط ہو کر پوری توانائی کے ساتھ مٹھی بھر دشمنوں کا مقابلہ کرے،  تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اتحاد کو کامیابی نہ ملے۔  ابھی ابھی مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے جس طرح، میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں بی جے پی کو جس طرح دھول چٹایا ہے،  ا س سے بھی حوصلہ لینے کی ضرورت ہے۔

 گجرات میں بھی کانگریس نے  میونسپل انتکاب میں بی جے پی کے مقابلے بہت اچھی پوزیشن حاصل کی ہے۔  ادھر لالو یادو بھی پوری طرح ’بھاجپا بھگاؤ، ملک بچاؤ‘ کے نعرہ کے ساتھ دم ٹھونک کر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ کانگریس کو بھی جئے رام رمیش او رمنیش تیواری جیسے اہم اور سینیئر کانگریسی رہنماؤں کی باتوں پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر تے ہوئے ان کی ان باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جے پی سے عام طریقے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے لئے نئے ڈھنگ سے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

 اگر ان تمام امور پر بہت سنجیدگی سے عمل کیا جاتا ہے،  تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کی اپوزیشن پارٹی کل کو برسر اقتدار پارٹی بن کر سامنے آ سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔