ایک ایسا حملہ، جو پاکستان سچ بولنے پر مجبور ہوجائے

حفیظ نعمانی

وزیراعظم نریندر مودی نے پلوامہ قتل عام کے غم میں جو سوگ منانے کے لئے کالے یا ہلکے کالے کپڑے پہنے تھے یا شال کاندھوں پر ڈالی تھی اسے آج راجستھان میں اتارکر فتح کے رنگ کی سرخ پگڑی باندھی اور دس دن کے بعد پورے دانت دکھانے والی ہنسی کے ساتھ کہا کہ جو تمہارے دل میں ہے وہی میں بھی سوچ رہا ہوں۔ ہندوستانی فضائیہ کے میراج طیاروں نے ساڑھے تین بجے اُڑان بھری اور چار بج کر چھ منٹ پر مقبوضہ کشمیر کے تاریخی مقام بالا کوٹ میں مسعود اظہر کے دہشت گردی کی تربیت دینے والے کیمپوں کو تباہ کرکے واپس آگئے جس میں کہا جاتا ہے کہ 350  سے زیادہ تربیت پانے والے موت کی نیند سوگئے۔

جیسے جیسے خبر عام ہوتی گئی ملک کے ہر شہر میں جشن منایا جانے لگا سڑکوں پر آتش بازی ڈھول بجاتے ہوئے نوجوان اور فتح کی خبر سے خوش ہونے والے دُکانداروں نے مٹھائی کے ڈبے کھول دیے۔ حکومت نے آل پارٹی میٹنگ بلائی اور تمام لیڈروں کو وزیر خارجہ مسز سوشما سوراج نے اس کامیاب جوابی حملہ کی پوری تفصیل بتائی جس پر ہر پارٹی کے لیڈر نے اپنی فوج کے جانبازوں کو سلام کیا اور کامیابی پر مبارکباد دی۔

بالاکوٹ ایک زمانہ میں حضرت سید احمد شہیدؒ کا مرکز تھا جہاں حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ اور جہاد کے لیے سر سے کفن باندھ کر آنے والے سیکڑوں مسلمان تھے اور یہ بالاکوٹ ہی تھا جہاں حضرت سید احمد شہیدؒ کو شہید کیا گیا اور ان کا جسد خاکی وہاں سے غائب ہوگیا جس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ مشہور شاعر مولانا ماہر القادری نے بالاکوٹ سے سوال کیا تھا؎

اے خاکِ بالاکوٹ کے ذرّو جواب دو

آکر تمہاری گود میں یاروں کو کیا ہوا؟

افسوس ہے کہ وہ مبارک سرزمین آج اظہر مسعود کے قبضہ میں ہے جو وہاں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ چلا رہے ہیں۔

ایک بات دو سال پرانی یاد ہوگی کہ ہندوستان سے مقبوضہ کشمیر کے ہی ایک حصہ میں ایک کیمپ کو ختم کرنے کے لیے سرجیکل اسٹرائک کیا تھا جس کے بارے میں پاکستان نے سب کو دعوت دی تھی کہ سب آکر دیکھ لیں کہ ہمارے کشمیر کے کسی حصہ میں بھی کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کا اثر نہیں ہے اور اس بات کو ہر کسی سے کہا تھا۔ منگل کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ پر جیسی بھیانک بمباری کی ہے اور اظہر مسعود کے کئی تربیتی کیمپ پوری طرح تباہ کئے ہیں اور بارہ میراج کے ذریعہ ایک ہزار کلو کے بم گرائے ہیں جن سے ساڑھے تین سو سے زیادہ تربیت پانے والے ٹکڑوں میں اُڑگئے ہوں گے۔ اور کامیاب آپریشن کے بعد فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ پہلے سرجیکل اسٹرائک کو تو فرضی کہانی بتایا تھا۔ ذرا اب اسے فرضی بتائیں تو جانیں؟ اور ہم نے ایک موبائل پر پاکستانی ٹی وی کے نیوز ریڈر کے منھ سے یہ سنا کہ ہندوستان گھبراہٹ میں چار بم پھینک کر بھاگ گیا جس سے ہمارے چار پیڑ ٹوٹ گئے۔ مزید کہا کہ تصویر دیکھ لیں۔

آج کے اخبارات میں پاکستانی فوج کے ترجمان کے بیان کو سب نے ہی چھاپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ- ہندوستانی فوج کے فضائیہ کے طیارے اس کے قبضہ والے کشمیر میں گھس گئے تھے لیکن انہیں بھگا دیا گیا۔ پاکستانی فوج نے اس کی تصدیق کی کہ ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں نے خالی جگہ پر بمباری کی جس سے کسی قسم کے جان و مال کا نقصان نہیں ہوا۔ پورے بالاکوٹ میں نہ کہیں عمارتوں کا ملبہ ہے اور نہ لاشیں۔ اس بار ہندوستان نے اتنے بڑے پیمانے پر حملہ کیا تھا تاکہ پاکستان جھٹلا نہ سکے ہماری فوج کا خیال تھا کہ پاکستان اتنی زور سے روئے گا کہ آدھی دنیا اسے دیکھنے لگے گی لیکن حیرت ہے کہ پاکستان نے 350  لاشیں اور کئی عمارتوں کے ملبہ پر پردہ ڈال دیا اور کہہ دیا کہ ہم تو ہر وقت اس کے لئے تیار تھے اور جانتے تھے کہ ہندوستان کے وزیراعظم الیکشن جیتنے کیلئے کوئی بھی ڈرامہ کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی فضائیہ کو جب اندازہ ہوگیا کہ ہم دیکھ رہے ہیں تو وہ بم پھینک کر بھاگ گئے۔

سرجیکل اسٹرائک ہمارا میدان نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ جب پاکستان پر کئے گئے حملہ کو نہ اپنے لوگوں سے چھپانا ہے نہ پاکستان اور دنیا کے سامنے تردید کرنا ہے تو رات کے آخری پہر میں جو وقت گہری نیند کا ہوتا ہے حملہ کرنے کے بجائے دن میں کیوں نہ کیا جائے؟ جیسے پلوامہ میں ہمارے اوپر ہوا تاکہ نہ ملبہ چھپا سکیں اور نہ لاشیں پردہ میں کرسکیں اور جو کچھ کریں دن کی روشنی میں کریں اور اعلان کریں کہ تم نے 40  تابوت ہم سے بنوائے تھے اب 350  تابوت تم بنائو۔ پاکستان سے اختلاف اب اپنی آخری منزل پر ہے صرف سفارتی تعلق باقی ہے اس کی بھی اب ضرورت نہیں ہندوستان جو کچھ اس سے خریدتا تھا وہ بند ہوگیا اور جو وہ خریدتا تھا اسے اپنا دوسرا انتظام کرلینا چاہئے ایسا تعلق کہ دوستی بھی ہے اور دشمنی بھی یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کا کوئی وزیراعظم مسعود اظہر اور حافظ سعید کو دور نہیں کرتا اور جب تک یہ اور ان جیسے دوسرے اپنی حکومت کے دلارے رہیں گے ہندوستان سے تعلقات اچھے نہیں رہ سکتے۔

ہندوستان کے رپورٹر دیپک چورسیا سے حافظ سعید نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے نہ حکومت کے کہنے سے بندوق اٹھائی ہے اور نہ ان کے کہنے سے بندوق رکھیں گے۔ ایک ذمہ دار حکومت کے ہوتے ہوئے اپنی مرضی سے بندوق اٹھانے والوں کی کیسے یہ ہمت ہوئی کہ وہ بندوق اٹھالیں یعنی حکومت کے اندر اپنی حکومت قائم کرلیں اور صرف ہندوستان سے ہر دن دشمنی دکھائیں ہندوستان کا وزیراعظم جو بھی ہو اسے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان کی حکومت ان اندرونی حکومت والوں کو اتنی ہی آزادی دے گی تو اسے دور سے سلام۔ اس لیے کہ ان کی زندگی اور ان کے وجود کا مقصد صرف ہندوستان دشمنی ہے اور پاکستان سے ملنے والی پوری سرحد پر ہر دن جو دو آتنکی ڈھیر اور چار آتنکی ڈھیر کا سبق سنایا جاتا ہے وہ صرف ان لوگوں کی حرکت ہے اب جو دوستی کے لیے ہاتھ بڑھائے وہ پہلے ان دہشت گردوں کو عمرقید کی سزا دے کر ہاتھ بڑھائے نہیں تو وعلیکم السلام۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔