بابری مسجد کی شہادت تاریخ ہند کا غمناک باب

عبدالعزیز

 بابری مسجد کا تنازعہ انگریز حکمرانوں کی دین ہے۔ انہوں نے ہندستان کی سرزمین پر حکمرانی کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں لڑائی، نفرت اور کدورت کی سیاست کو ضروری سمجھ کر اپنایا تھا۔ ہندوؤں کے اندر وہ طبقہ جو مسلمانوں سے بیر اور دشمنی رکھتا تھا اور جو تنظیمیں مثلاً آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر قائم کی گئی تھیں ان کو بھی ’’ہندو، ہندی اور ہندستان ‘‘کی حفاظت کیلئے یہی پالیسی بھلی اور پسندیدہ معلوم ہوئی۔

بابری مسجد کا قضیہ یا تنازعہ انگریزوں نے اپنے دور میں جان بوجھ کر کے اپنے گزیٹرس، تصنیفوں اور ایک دو مقدمات کے فیصلوں کے ریمارکس سے شروع کیا جسے فرقہ پرستوں نے اچک لیا تھا لیکن آزادی سے پہلے جو مقدمات درج کئے گئے اور حکومت کے سامنے جو مطالبات پیش کئے گئے یا جو درخواستیں دی گئیں ان سب کا ریکارڈ صاف بتاتا ہے کہ کبھی بھی بابری مسجد یا اس کی زمین کیلئے دعویٰ نہیں کیا گیاصرف مسجد کے احاطہ میں مسجد کے دروازہ سے قریب جو کسی کی غلط حرکتوں اور مسلمانوں کی چشم پوشی کی وجہ سے بنا لیا گیا اس کے سلسلے میں ایک دعویٰ یہ تھا کہ چبوترہ پر پوجا پاٹ ہوتا ہے مگر بارش اور گرمی کے زمانہ میں دشواریاں پیش آتی ہیں لہٰذا چبوترہ پر چھپر یا چھت بنانے کی اجازت دی جائے۔ دوسری مانگ یا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ چبوترہ پر ایک مندر بنانے کی اجازت دی جائے۔ یہ دونوں مطالبات حکومت نامنظور کردیتی تھی جج صاحبان یا مجسٹریٹ ایسی درخواستوں کو رد کردیتے تھے اور صاف طریقہ سے اپنے فیصلوں یا ریمارکس میں لکھتے تھے کہ چبوترہ کوپختہ بنانے یا مندر کی تعمیر کرنے سے لڑائی جھگڑے اور خون خرابہ کا اندیشہ ہے اس لئے یہ مطالبہ یا درخواست قابل اعتنا نہیں ہے۔

 اس طرح کے فیصلے اور باتیں 22دسمبر 1949 ء تک ہوتی رہیں لیکن 22 اور 23دسمبر کی درمیانی رات میں نماز عشاء کے بعد جب مسجد سنسان تھی ، چند شرپسندوں نے رام چندر کی مورتی رکھ دی۔ مسلمان یا امام صاحب چاہتے تو مسجد کے اندر سے مورتی ہٹادیتے مگر اجودھیا تھانہ کے ایک کانسٹبل نے شرپسندوں کیخلاف ایف آئی آر درج کرایا۔ اسی روز ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نائر کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔مسٹر نائر نے مسجد میں تالا لگانے کا حکم صادر کردیا۔ اس طرح فرقہ پرستوں نے پہلے مسجد کا دروازہ بند کیا۔ دروازہ بند ہونے کے بعد اترپردیش اسمبلی اور پارلیمنٹ کے مسلم ممبران کے علاوہ گاندھی جی کے چیلے اکشے برہمچاری نے زبردست کوششیں کیں کہ اس ناانصافی کو ختم کی جائے اور تالا کھول دیا جائے۔پنڈت جواہر لال نہرو سے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن نے بھی گزارش کی۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ پنتھ سے بھی کہا گیا۔یوپی کے اس وقت کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری سے بھی اپروچ کیا گیا مگر سب کی کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں ۔

 محترم اکھشے برہمچاری نے جو خطوط لکھے ہیں اس میں صاف طور پر آنے والے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس کے اندر کے کچھ لوگ فرقہ پرستوں کی مدد کررہے ہیں ۔ پنتھ کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ پرستوں سے اسی طرح ملے ہوئے تھے جس طرح نرسمہا راؤ ظاہراًکانگریس کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی سے ملے ہوئے تھے۔

  تالا کیسے کھولا گیا:مشہور صحافی کلدیپ نیر نے کلکتہ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سیمینار میں بتایا کہ وزارت داخلہ کے وزیر مملکت ارون نہرو کے مشورہ سے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے ذریعہ تالا کھولانے کی باتیں طے (Manage) کی گئیں ۔ ارو ن نہرو نے پہلے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو مشورہ دیا کہ شاہ بانو والے معاملے میں آڈیننس پاس کرکے مسلمانوں کو خوش کردیا جائے اور تالاکھول کر ہندوؤں کا دل جیت لیا جائے۔ اسی پالیسی کے مطابق تالا کھولا گیا۔

  یکم فروری 1986ء کو تالا کھولا گیا۔ اس وقت راقم روزنامہ اقراء کلکتہ کا ایڈیٹر تھا۔ اپنے وطن چھ یا سات ماہ کے بعدجب گیا تو ایک ضرورت سے فیض آباد جانا ہوا۔ فیض آباد کے مسٹر پانڈے جنہوں نے تمام اصولوں اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر مسجد کا تالا کھلوایا ان سے بڑی مشکلوں سے انٹرویو لینے پہنچا۔ عدالت کے کاموں سے فارغ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے فیض آباد کے تمام ججوں کو اپنے چیمبر میں بلایا لیا تھا۔ ان سے میں نے پوچھا کہ آپ نے جو فیصلہ بابری مسجد کے سلسلہ می کیا کیا اس کے دورس نتائج کو بھی پیش نظر رکھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ قانون کی آنکھیں نتائج سے بے پرواہوکر صحیح فیصلہ پر نظر رکھتی ہیں ۔

  حجت کے بجائے میں نے دوسرا سوال کیا کہ آپ نے قانون کی روشنی کے بجائے سراسر انتظامیہ کے دباؤ کے زیر اثر فیصلہ کیا کیونکہ آپ نے بابری مسجد کے وکلاء کو نہ تو بحث کرنے کی اجازت دی اورنہ عدالت میں آنے کی منظوری دی۔

   اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات غلط ہے کہ میں نے انتظامیہ کے دباؤ میں فیصلہ نہیں کیا۔

میں نے کہا کہ اگر یہ بات غلط ہے تو آپ کے فیصلہ سے پہلے دور درشن کے کیمرہ والے کیسے پہنچ گئے اور پوری عدالت و پولس چھاؤنی میں کیسے تبدیل کردی گئی اس کا صاف مطلب تھا کہ آپ کے فیصلہ سے پہلے حکومت کو آپ کا فیصلہ معلوم تھا ۔انہوں نے کہا یہ بات صحیح نہیں ہے۔

  آخری بات میں نے کہا کہ حضرت !میں فیض آباد کا ہوں ، آپ جونپور کے رہنے والے ہیں آپ نے اس علاقہ کابھی حق ادانہیں کیا، یہاں آپسی میل جول بھائی چارہ جو تھا اسے بھی داؤ پر لگادیا آپ نے اچھا نہیں کیا۔ اس پر وہ تھوڑی دیر خموش رہے آخر میں کہا کہ ’’میں کوئی اور بات کہنا نہیں چاہتا۔

  ریٹائرڈ ہونے کے بعد پانڈے صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کی زندگی بہت تلخ گذری اور ان کی موت بھی بھیانک طریقہ سے ہوئی۔بابری مسجد نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے آخری مرحلہ تک موذی مرض میں مبتلا رہے اور ان کی سڑی لاش کو بڑی مشکل سے جلاکر راکھ کیا گیا۔ بابری مسجد کے انہدام کرنے والوں میں سے ایسے کئی کردار ہیں جن کو ان حالات سے گذرنا پڑا جس میں ایک نوجوان جس نے سب سے پہلے انہدام میں ہاتھ لگایا۔ وہ پاگل ہوگیا اس کے ماں باپ نے مولانا کلیم الدین پھلت پور والے سے عا کرائی جس کے نتیجہ میں وہ اچھا ہوگیا اور بعد میں حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ ابھی کئی کردار زندہ ہیں ان کابھی کیا حال ہوتا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔

  بابری مسجد کے انہدام کے بعد:انہدام کے بعد پورے ملک میں صورت حال نازک ہوگئی۔ کوئی شہر کوئی قریہ ایسا نہیں تھا جہاں کے مسلمانوں نے غم و غصہ کا اظہار نہ کیا ہو کئی شہروں میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوگیا۔ ممبئی فساد کی آگ سے جل اٹھا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے۔ مسلمانوں کی اربوں کی املاک تباہ و برباد کردی گئی۔ چھ سات دنوں کے بعد ممبئی میں فوج آئی جبکہ ممبئی کئی دنوں تک فساد کی آگ سے جلتا اور جھلستا رہا شرد پاوار اس وقت وزیر دفاع تھے اور ان کے چیلے نائک مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تھے دونوں نے فرقہ پرستوں سے ساز باز کررکھا تھا کہ جب تک مسلمانوں کو مار مار کر بے دم نہ کردیا جائے فوج نہ طلب کی جائے۔ نرسمہا راؤ نے مسلمانوں کو جھانسہ دینے کیلئے اعلان کیا کہ مسجد وہیں تعمیرکی جائے گی جہاں پرگرائی گئی۔ کب بنے گی اور کیسے بنے گی؟ یہ سب باتیں پس پردہ تھیں ۔ جب کسی نے دریافت کیا تو ان کے چیلے چاپڑ نے کہا کہ پہلے ملبہ (Debris) اٹھایا جائیگا پھر کوئی بات۔ نرسمہا راؤ کا بھی حشر اچھا نہیں ہوا اپنی پارٹی میں معتوب تو ہوئے۔ مرنے سے پہلے ان کا حال بھی کم و بیش وہی ہوا جو فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر پانڈے کا ہوا۔ نرسمہا راؤ کی لاش بھی مرنے کے اس قدربدبو دار ہوگئی کہ ان کے لڑکوں نے بھی اپنے باپ کی لاش چھونا گوارا نہیں کیا۔ کرایہ کے آدمیوں سے لاش جلاکر راکھ کی گئی اس طرح وہ فی نار جہنم ہوا۔ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادمیں انتظامیہ خاص طور سے پولس نے بھر پور طریقہ سے حصہ لیا۔ پولس نے بلوائیوں سے ملکر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ گھروں اور دکانوں کو لوٹا اور نذر آتش کیا۔

  لبراہن کمیشن Liberhan Commission:لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا کہ جو لوگ بابری مسجد کے انہدام میں ملوث ہیں ان سب کو کڑی سے کڑی سزا دلائی جائے گی۔ کلیان سنگھ جو اس وقت یوپی کا وزیر اعلیٰ تھا نرسمہا راؤ کے بعد سب سے بڑا مجرم تھا اسے چند گھنٹوں کی سزا سپریم کورٹ نے دی اور چند روپے کا جرمانہ کیااس طرح مجرم کی آؤ بھگت ہوئی۔ سنگھ پریوار کے دیگر مجرمین، ایڈوانی، جوشی اس طرح کے چالیس پچاس مجرموں سے جرح ضرور ہوئی مگر ہوا کچھ بھی نہیں ۔

 مـقــدمـہ:لکھنؤ ہائی کورٹ کے الٰہ آباد منچ میں جو فیصلہ بابری مسجد کی ملکیت کا ہوا وہ انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ بیٹھ کر ججوں نے سنگھ پریوار کو خوش کرنے کیلئے زمین کا بٹوارہ کردیا۔ ہندستان کے اکثر و بیشترماہرین قانون کا کہنا تھا کہ عدل و انصاف کا گلا گھونٹا کیا گیاکوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ سابق وزیر اعلیٰ مغربی بنگال اور بابری مسجد کے وکیل سدھارتا شنکر رائے نے مسلمانوں کے ایک وفد سے جس میں راقم بھی شامل تھا کہا کہ ایسا فیصلہ دنیا کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ شواہدار ثبوتوں کو نظر انداز کرکے ایک پریوار کو خوش کرنے کیلئے فیصلہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح ہوگا اور مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ وہ کہتے تھے کہ انگریزی، فارسی یا اردو میں جو فیصلے آزادی سے پہلے کئے گئے ان سب کی نقلیں بابری مسجد کے مقدمہ کی مثل میں موجود ہیں ۔ فریق مخالف کے پاس کوئی ثبوت و سند نہیں ہے سوائے عقیدے اور زور زبردستی کے۔

 سنگھ پریوار کی سیاست اور جارحیت:سنگھ پریوار نے بابری مسجد کو آج تک وسواس اور عقیدہ کا مسئلہ بنا رکھا ہے کبھی تو ان کے لوگ بات چیت کے ذریعہ معاملہ کو طے کرنا چاہتے ہیں اور کبھی عدالت کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سب ان کی سیاست ہے وہ تو چاہتے ہیں کہ بابری مسجد کا مسئلہ باقی رہے تاکہ وہ الیکشن کی سیاست کرتے رہیں ۔ 2014ء کے الیکشن کیلئے امیت شاہ جو مودی کا چیلا ہے اور گجرات کا مجرم اسے جب اتر پردیش کے الیکشن کا انچارج بنایا گیا تو یوپی آتے ہی اس نے رام جنم بھومی اور رام مندر کا مسئلہ اٹھایا کہ مندر جلد بنایا جائیگا۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ ملائم سنگھ سے مل کر مظفر پور کے فساد کا شعلہ بھڑکایا۔ بابری مسجد کی سیاست سنگھ پریوار کیلئے ایک لازم و ملزوم چیز بن گئی ہے۔ اس ان کی ووٹ کی شرح بڑھتی ہے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی سیٹوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بار ان کو پورا یقین ہے کہ وہ فساد پھیلانے اور بابری مسجد کا مسئلہ اٹھانے سے یوپی میں زیادہ سیٹیں حاصل کرلیں گے اس سے وہ 270 کی سیٹوں کی گنتی پوری کرلی جائیگی اور مودی کو دہلی کے تخت پر بیٹھا دیا جائیگا۔

 مسلمانوں کو کیا کرنا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان سنگھ پریوار کے نشانے پر ہیں ، فساد کی آگ بھڑکا کر وہ مسلمانوں کے قتل و خون کے پیاسے ہیں ان کی سیاست کا مسلم مخالف ہے۔اس میں بابری مسجد یا یکسا سول کوڈ کی بات کرکے وہ ہندوؤں کو خوش کرتے ہیں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں کو سبق سکھانے کیلئے سنگھ پریوار کے ساتھ ہوگیا ہے۔ میڈیا اور کو آپریٹ ہاؤسز کو مودی اچھے لگنے لگے ہیں ۔

ایسی صورت میں مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے، مسلمانوں کی یہ پالیسی صحیح ہے کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا اس پر وہ سر تسلیم خم کردینگے خواہ ان کے حق میں ہو یا ان کے مخالف ہو۔ مسلمانوں کو اسی طرح فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے بھڑکاؤ باتوں یا تقریروں میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی اپنائیں گے جس سے ووٹوں کا Plurization (یکجائی) ہو او رمودی یا ان کی جماعت کو فائدہ ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمان سیکولرسٹوں اور صاف ذہن کے ہندوؤں سے مل کر سنگھ پریوار کے چالوں اور سازشوں کا پردہ فاش کریں ملک کے لوگوں کو بتائیں کہ ان کے بر سر اقتدار آنے سے نہ صرف مسلمانوں کا نقصان ہوگا بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوگا۔ فسطائیت دہشت گردی میں اضافہ ہوگا، خوشحالی تنگ حالی میں بدل جائے گی۔ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ مودی کی شرارت آمیز تقریریں یا باتیں ایک ایسا رخ متعین کرچکی ہیں جو بگاڑ اور فساد کی طرف دکھائی د ے رہا ہے۔ اس رخ کو موڑنے کیلئے ہندو مسلمان سب کو ساتھ لے کر کام کرنا ہوگا۔ ہندو مسلمان سب مل کر یہ کام کریں اگر مسلمانوں کو کوئی نہ ملے تو اس فریضہ کو انہی ہر حال میں ادا کرنا ہے۔

 حرف آخر:بابری مسجد کی شہادت نے ہندستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم تو نہیں کیا مگر ملک کے افراد دو حصوں میں بٹ گئے۔ فرقہ پرستوں کا ٹولہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگیا۔ اس طرح فرقہ پرستوں کا ایک گروہ بن گیا جو بابری مسجد کے انہدام کو صحیح سمجھتا ہے اور اس پر فخر جتاتا ہے۔ دوسرا گروہ اس واقعہ کو شرمناک سمجھتا ہے، جمہوریت اور انصاف کا قتل بتاتا ہے۔ تقسیم ہند اور قتل گاندھی کے بعد سب سے اندوہناک واقعہ شمار کرتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔