بھیما کورے گاوں: عقب میں حادثۂ صبح و شام کے عفریت

ڈاکٹر سلیم خان

بھیما کورے گاوں کی فسطائی  سازش اگر کامیاب ہوجاتی تو امیت شاہ  کو سرجھکا کراور دیویندرفرنویس کو ناک کٹوا کرکی ادھو ٹھاکرے کی چوکھٹ پر جانے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ حکمت عملی کے الٹ جانے سے مراٹھے تو مراٹھے  دلت بھی ہاتھ سے گئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ  جنگی  چال کی کامیابی یا ناکامی  کا  دارومدار مخالف کی جوابی کارروائی پر ہوتا ہے۔ پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی نےیہ سوچ کر  ہاتھی آگے رکھے کہ اسے دیوہیکل جانور کو دیکھ کر بابر کی فوج ڈر جائے گی اسے اندازہ نہیں تھا کہ   جب سامنے سے توپ گولے برسانے لگے  لگی تو یہی ہاتھی خود  اپنی ہی فوج کو روند ڈالیں گے۔ احمد شاہ ابدالی کے مقابلے مراٹھوں کو بھی اپنی ناقص حکمت عملی کی وہ قیمت چکانی پڑی کہ پانی پت  ان کے لیے ضرب المثل بن گیا۔ ایسا ہی کچھ  امسال یکم جنوری کو بھیما کورے گاوں میں ہوا۔

بھیماکورے گاوں میں ویسے تو ہرسال یلغار پریشد ہوتی ہے جس میں پیشوائی کے خلاف دلتوں  کی فتح کا جشن منایا جاتاہے۔ یہ ایک علامتی پروگرام ہے اس سال چونکہ اس واقعہ کو ۲۰۰ سال مکمل ہوئے  تھے اس لیے تیاری کچھ زیادہ تھی۔ دہلی سے عمرخالد اور گجرات سے جگنیش میوانی وغیرہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ گوناگوں وجوہات کی بناء پر قومی  ذرائع ابلاغ اس کو خاص اہمیت نہیں دیتا ہے، ایسے میں حکومت بھی  اگر نظر انداز کردیتی تو یہ ہرسال کی طرح ایک معمولی واقعہ کی طرح گذر جاتا۔ عام لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہاں کیا کچھ ہوا ہے۔ صوبائی حکومت اگر اس جشن میں شریک ہونے والوں کی خدمت میں سہولیات فراہم کرتی تو ممکن ہے رام داس اٹھاولے جیسے رہنماوں کو دلتوں کی رائے عامہ بی جے پی کے حق میں ہموار کرنے میں مدد ملتی۔ لوگوں کو اس خیرسگالی آڑ  میں کمل کا پھول پکڑادیا جاتا۔ لیکن اس بار سرکار بڑا فائدہ اٹھانے کے چکر میں پھنس گئی۔

شیوسینا فی الحال متحدہ قومی محاذ میں شامل تو ہے لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب اس کا اخبار سامنایا اس کے مدیر عام سنجئے راوت بی جے پی اور مرکزی و صوبائی حکومت کے خلاف زہر نہ اگلتے ہوں۔ اس کے باوجود شیوسینا کے ساتھ  نباہ کرنا بی جے پی کی مجبوری ہے۔ اس سے نجات کی واحد صورت یہ ہے شیوسینا کو اس کی اپنی حیثیت دکھا دی جائے اور خود اپنے بل بوتے پر انتخابی کامیابی حاصل کی جائے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب این سی پی اور کانگریس بھی متحد ہوکر انتخاب نہ لڑیں ۔ ؁۲۰۱۴ کے صوبائی انتخاب میں تو شرد پوار کو ڈرا دھمکا کر اس پر راضی کرلیا گیا لیکن اب وہ دھاک ختم ہوچکی ہے اور دونوں مخالفین نے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کا من بنالیا ہے۔ کانگریس اور این سی پی اتحاد کا ایک نمونہ گڈچرولی کے ضمنی انتخاب میں سامنے آیا جہاں نکسلوادیوں کے خلاف فرضی  مڈبھیڑ کا کارنامہ بھی بی جے پی کو شکست فاش سے نہیں بچا سکا۔

  شیوسینا کسی طرح قابو میں نہیں آرہی ہے۔ پالگھر  کے ضمنی انتخاب میں تو اس نے حد کردی۔ بی جے پی کی محفوظ سمجھی جانے والی  نشست پر سیندھ مارنے کے لیےسینا نے متوفی رکن پارلیمان کے بیٹے کو اپنا امیدوار بناکر بی جے پی  کے خلاف میدان میں اتار دیا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بی جے پی کو آرایس ایس کے بجائےکانگریس  سے امیدوار درآمد کرنا پڑا۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کو اتر پردیش سے مہم چلانے کے لیے بلانا پڑا۔ یوگی  جی نے  شیوسینا پر نمک حرامی کا الزام لگا کر اسے شیواجی کے بجائے افضل خان کا پیروکار قرار دے  دیا حالانکہ افضل خان نے نہیں بلکہ خود شیواجی نے پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ خیر سنگھ کے لوگ یا تو تاریخ جانتے ہی نہیں یا پھر اس کو مسخ کرکے پیش کرنے کے عادی ہیں۔ اس کے بعد شیواجی کے مجسمہ کو ہار پہناتے وقت یوگی نے چپل نہیں اتارے تو شیوسینا نے اس کو شیواجی کی توہین کے سبب یوگی کوسرِ عام  چپل سے مارنے کی دھمکی دی۔

 وزیراعلیٰ  دیویندر فردنویس نے سام ، دنڈ اور بھید (دولت ، سزا اور انتشار)  کے  سرکاری استعمال کو جائز قرار دے دیا   اس کے باوجود بی جے پی کے ووٹ  ۵ لاکھ ۳۲ ہزار سے گھٹ کر ۲ لاکھ ۷۲ہزار پر پہنچ گئے اور شیوسینا نے ۲ لاکھ ۴۳ ہزار پر اپنا حق جمالیا۔ وہ تو خیر وکاس اگاڑی کی بدولت بی جے پی نے یہ سیٹ بچائی ورنہ یہاں بھی کمل مرجھا جاتا۔بی جے پی کو اس حقیقت کا علم پچھلے سال نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد ہوچکا تھا اس لیے اس نے حزب اختلاف کے رائے دہندگان  کو توڑ کر اپنے نرغے میں لینے کا ایک نادرِ روزگار منصوبہ بنایا۔ اس نے سوچا اگر دلتوں سے مراٹھوں کو لڑا دیا جائے تو لازماً کانگریس کودلتوں کی دلجوئی کرنی پڑے گی اور وہ مراٹھا سماج کو کانگریس و این سی پی سے الگ کرکے اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر کانگریس مراٹھوں کا ساتھ دیتی ہے تو سارے دلت ساتھ آجائیں گے۔ اس طرح ہر دو صورت میں بی جے پی کا سیاسی فائدہ ہوگا۔ اسی لیے سنگھ کے دو مراٹھا چہروں سمبھاجی بھیڈے اور ملند ایکبوٹے کے ذریعہ کورے گاوں میں آنے والے مظاہرین پر حملہ کرایا گیا  اور اس کو فساد کا نام دیا گیا۔

مراٹھے اور دلت رہنما براہمنوں  کی اس سازش کو بھانپ گئے۔ انہوں نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھیڈے اور ایکبوٹے کو مراٹھوں کا نمائندہ تسلیم کرنے کے بجائے سنگھ کا مہرہ قرار دے دیا اور ذات پات کی بنیاد پر لگائی جانے والی ایک بڑی آگ کو بجھا دیا۔ سارے لوگوں نے مل کر بلاتفریق ذات پات ان دونوں فسادیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔ یہیں سےبی جے پی کی مشکلات کا آغاز ہوا  اس لیے کہدلت تو ویسے بھی ہاتھ سے نکل گئےاب  اگر بھیڈے اور ایکبوٹے کو حراست کے نتیجے میں  بڑی مشکل سے جن مراٹھوں کو اتنے سالوں کی محنت سے قریب لایا گیا وہ بھی ہاتھ سے جاتے ہیں۔ اس لیے ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیاجانے لگا لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی فروری تک یہ معاملہ پونے کی گلی سے نکل کر دلی کے  سپریم کورٹ میں جا  پہنچا۔

ایک بوٹے کے خلاف پونے دیہی پولس تھانے میں  آئین کی دفع ۳۰۷، ۱۴۳، ۱۴۸ آئی پی سی کی دفع ۲۹۵ کے تحت بھی  شکایت درج کی۔ اس کے علاوہ پسماندہ ذاتوں اور طبقات کے خلاف مظالم کے روک تھام کی  ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس سے گھبرا کر۲۲ جنوری کو  ملند ایک بوٹے نے پونے کے سیشن کورٹ میں پیشگی ضمانت کی درخواست دی جسے ٹھکرا کر اس کے خلاف وارنٹ جاری کردیا۔ اب  وہ نام نہاد مراٹھاشیر ممبئی ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچا لیکن وہاں بھی کامیابی ہاتھ نہیں آئی تو سپریم کورٹ کے در پر دستک دے دی جس نے اس کو عارضی ضمانت دے دی۔   مراٹھا  اپنی قوم کے ملزم  کی گرفتاری کو بھی  توہین سمجھتے ہیں اس لیے عدالت کی جانب سے ایکبوٹے کو  دی گئی پیشگی ضمانت کے باوجود اس کو گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا۔۲۰ فروری کو عدالت عالیہ نے مہاراشٹر پولس کو زبردست پھٹکار لگائی ۔

جسٹس کورین جوزف اور موہن شنتناگودر نےسمست  ہندو اگاڑی کے سربراہ  ملند ایکبوٹے سے متعلق سرکاری وکیل سے  صاف الفاظ میں کہا  ’’اپنا کام کرو ، اسے گرفتار کرکے تفتیش کرو اور ہمیں بتاو‘‘۔پولس نے بتایا کہ ہم نے ۵ مرتبہ سمن جاری کیا لیکن وہ تعاون نہیں کرتا۔ اس نے یہ کہہ کر ااپنا فون دینے سے نکار کردیا کہ کھو گیا ہے۔عدالت نے سوال کیا کہ ’’ہمارے حکم اور اس کی موجودگی کے باوجود تم نے اسے گرفتار نہیں کیا بلکہ ایک کوشش تک نہیں کی۔ تو کیا اب ہم تفتیش کریں؟ ‘‘پاپ کا گھڑا بھرتا چلا گیا یہاں تک کہ عدالت عالیہ نے اس کی عارضی ضمانت بھی مسترد کردی   اور صوبائی حکومت کو مجبوراً  ۱۴ مارچ کے دن  ملند ایکبوٹے کی گرفتارکرنا پڑا۔ ضمنی انتخابات سامنے تھے لیکن اتفاق سے دونوں مقامات پر مراٹھوں یا دلتوں کی قابل قدر آبادی نہیں تھی بلکہ وہ پسماندہ قبائل کے علاقے تھے اس لیے حکومت نے نکسلواد کا کارڈ کھیلا۔

اس دوران   ۲۲ اپریل کو بھیماکورے گاوں فساد کی اکلوتی گواہ ۱۹سالہ پوجا ساکٹ کو لاش برآمد ہوئی۔ اس کی بابت پوجا کے اہل خانہ اور پرکاش امبیڈکر کا خیال ہے کہ وہ منصوبہ بند قتل ہے لیکن پولس کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی پتہ چلے گا آیا یہ خودکشی ہے یا قتل ؟  پوجا کے والد سریش ہندو فسطائیوں کے پرانے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ بھیما کورے گاوں کے جشن کے موقع پر ایکبوٹے وغیرہ نے بند کی دھمکی دی تھی لیکن سریش نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے بیداری مہم اور خون کے عطیے کا کیمپ لگوایا۔ اسی سبب سے ان کا گھر جلادیا گیا۔ اس تعمیر نوکے وقت اور بعد میں انہیں دھمکیاں ملتی رہیں لیکن ایکبوٹے اور بھیڈے کی حفاظت کرنے والی حکومت نے اس دلت خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ پوجا کے بھائی کی شکایت کو نظر انداز کردیا گیا۔ ماتنگ سماج سے تعلق رکھنے والے سریش اور ان کے اہل خانہ پر گاوں کو بدنام کرنے کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔

اس  سے قبل کہ ذرائع ابلاغ میں یہ ظلم موضوع بحث بنتا۲۳ اپریل کو گڈچرولی کے علاقہ میں ایک مڈ بھیڑ کے اندر ۴۰نکسلیوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا۔ اسی کے ساتھ حفاظتی دستوں کے ذریعہ لاشوں پر جشن منانے اور ناچنے گانے کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی۔ پولس کے مطابق یہ مڈبھیڑ دو قسطوں میں ہوئی ان میں سے ایک میں ۳۴ لوگوں کو ہلاک کیا گیا جن میں سے ۱۶ جائے واردات پر مارے گئے اور ۱۸ پدماوتی ندی میں کود گئے۔ ان میں وہ ۵نوعمر بچیاں اور ۳ بچے شامل تھے۔ گاوں والوں کو اس ندی سے لاشوں کو نکالنے پر مجبور کیا گیا جس کا پانی وہ پینے اور دیگر ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے انکار پر انہیں انتطامیہ کی جانب ڈرایا دھمکایا گیا۔ ایک اور واقعہ میں ۶ لوگ مارے گئے اس طرح جملہ ۴۰ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا لیکن ان میں کتنے واقعی نکسلوادی تھے اور کتنے عام لوگ تھے؟  یہ سوال ہنوز قائم ہے۔

اس مڈبھیڑ پرطرح طرح کے سوالات ذرائع ابلاغ میں  جنم لینے لگے۔ اتنے سارے نکسلی رہنماوں کی ایک شادی میں شرکت کرنا  اس پر ۸ بچوں کی پراسرار گمشدگی نے مزید سوالات پیدا کردیئے جوگٹے پڈی گاوں سے شادی میں شرکت کے لیے روانہ ہونے والے ۸ بچے اپنی منزل پر نہیں  پہنچے۔ ان کے اہل خانہ جب اپنےنو نہالوں  کی معلومات کے لیے ۱۴۰ کلومیٹر کاطویل سفر کرکے جائے حادثہ پر پہنچے تو ان کو نام بتانے کے بجائے سیدھے ہلاک شدگان کی مسخ شدہ لاشوں  کے سامنے کھڑا کرکےکہا گیا اپنے رشتے داروں کو پہچان لو؟مہذب معاشرے میں اس طرح کی سفاکی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن جب اس حقیقت  کا برملا اظہار ارون دھتی رائے بی بی سی پر کردیتی ہیں تو قوم پرست جل بھن جاتے ہیں اور پاکستان سے موازنہ پر تو جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ کسی شاعر نے اس کی کیا خوب منظر کشی کی ہے؎

ظلم کے عفریت نے شہروں کو ویراں کر دیا  

 یوں تو بربادی جہاں میں ابتدا سے کم نہ تھی

پولس افسر ابھینودیشمکھ  نے ان بے قصور بچوں کی ہلاکت کو جائز ٹھہراتے ہوئے  کہا وہ متوفی رہنما سائی ناتھ کے رابطے میں تھے۔ ممکن  وہ ان کے ساتھ سفر کررہا ہو؟ ہوسکتا ہے آگے چل کر وہ تربیت حاصل کرکے دہشت گرد بن جاتے ؟ تو کیا ایسے اندیشوں کے تحت معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا یا جاسکتا ہے؟ یہ کس جنگل کا قانون ہے؟  بچوں کے والدین نے ان سارے الزامات کی تردید کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس طرح کے واقعات کی تفتیش کے لیے بہت ہی تفصیلی ہدایات دے رکھی ہیں۔ پی یو سی ایل کے ایک مقدمہ میں عدالت عالیہ نے حکومت مہاراشٹر کو تلقین کی تھی پولس مڈبھیڑ کی موثر تفتیش کے لیےآزاد ایجنسی کے ذریعہ معیاری طریقۂ کار کے مطابق  تحقیق کرائے۔ سی پی ایم کی سابقہ رکن پارلیمان برندا کرت کے مطابق حکومت مہاراشٹر نے ان میں کسی  بھی ہدایت پر عمل در آمد نہیں کیا۔

یہ فردنویس حکومت کا دوسرا مایا جال تھا جس میں وہ از خود گرفتار ہوگئی اور اس سے نکلنے کے لیے نیا شوشہ چھوڑا گیا۔ بھیما  کورے گاوں کے فسادیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے یلغار پریشد کا اہتمام کرنے والوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی اور۶ دلت اور دائیں بازو کے حامی  سماجی کارکنان کو ممبئی، ناگپور اور دہلی سے حراست میں لے لیا  گیا۔ ان میں جے این یو کے رعنا ولسن ، سدھیر ڈھولے ( یلغار پریشد) شوما سین، ، مہیش راوت اور سریندر گاڈلنگ کا نام شامل ہے۔ اس اقدام کے حق میں وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ ہنس راج اہیر نے فرمایاکہ ’’ یہ سبھی جانتے ہیں بھیما کورے گاوں  حکومت مہاراشٹر اور مرکزی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش تھی۔ پولس کی تفتیش سے ثابت ہوگیا  ہے کہ شہری نکسلواد کو فروغ دینے والی تنظیموں نے اس کو تشدد پر آمادہ کیا۔ اس طرح گویا ایک بوٹے اور بھیڈے بے قصور ہوگئے اور وزیراعلیٰ کا بیان سچ ہوگیا کہ گروجی معصوم ہے۔

حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کی مہذب سماج نے جم کر مخالفت کی۔ پرشانت بھوشن نے کہا فسادیوں کو چھوڑ کر دلت اور دیگر دانشوروں کو گرفتار  کرنا  غیر قانونی اور بدنیتی ہے۔ مودی حکومت اس فسطائی حرکت کی بھاری قیمت چکائے گی۔ شرد پوار نے بھی ان گرفتاریوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مذکورہ  تشدد سے کوئی واسطہ  نہیں ہے۔ پرکاش امبیڈکر نے پریس کانفرنس لے کر الزام لگایا کہ مودی حکومت ایمرجنسی نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور دلتوں کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اس دوران ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ رعنا ولسن کے پاس ایک خط برآمد ہوا  ہےجس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے قتل کی بات کی گئی تھی۔ اس بین الاقوامی  سازش میں راجیو گاندھی کی مانند ان رہنماوں کے قتل کی جانب اشارہ ہے۔ شرد پوار نے کہا ایسے خطوط ذرائع ابلاغ میں نہیں دیئے جاتے اس لیے یہ ہمدردیاں بٹورنے کی گھٹیا کوشش ہے۔ اس خط میں کسی پرکاش کا ذکر ہے اس سے متعلق پولس کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ  پرکاش امبیڈکر ہی ہوں۔

ایک طرف تو بھیم سینا کے لیڈر  چندر شیکھر راون کی گرفتاری کو ایک سال کا عرصہ پورا ہوگیا اور دوسری جانب دیگر دلت حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ حکومت کے اس رویہ سے پونہ میں دلتوں کے خلاف مظالم کے اندر ایک سال میں ۸۰ فیصد اور سانگلی میں ۱۰۸ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود یوگی اور مودی جی چاہتے ہیں کہ دلت بی جے پی کو ووٹ دیں۔وزیراعظم نریندر مودی کے ایک عظیم کارنامے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انہوں نے اپنے ہم سایہ پاکستان کے ساتھ اس قدر گہرے مراسم پیدا کرلیے کہ اس نے  دہشت گرد بھیجنا بند کردیئے۔وہ جب وزیراعلیٰ گجرات ہوا کرتے تھے تو ان کا قتل کرنے کے لیے پاکستان سے دہشت گرد آتے تھے مگر وہ سلسلہ بند ہوگیا ۔  اب ہندوستان کے  نکسلیوں کے ذہن میں یہ  سودا سماگیا۔  پہلے مسلمانوں کو بلا قصور گرفتار کیا جاتا تھا اب ہندو اور اشتراکی  بھی نشانے پر ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بودھ گیا کے دھماکے میں سزا پانے والوں کا تعلق بھی جمیۃ المجاہدین بنگلا دیش سے ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک کے سارے انصاف پسند متحد ہوکر حکومت کو بے  نقاب کریں اور مظلومین کےساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں۔بھیما کورے گاوں کے فسادیوں کے ساتھ ساتھ ان کی حامی حکومت کو بھی سبق سکھائیں۔ اس میں شک نہیں یہ عفریت حکومت کے لیے وبال جان بنتا جارہا ہے۔ بقول شاعر؎

خوف کا عفریت سانسیں لے رہا تھا دشت میں 

رات کے چہرے پہ سناٹے کی دہشت چھائی تھی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔