تیلنی پاڑہ کے حالیہ فرقہ وارانہ فساد کے اسباب وعلل

عبد العزیز

گزشتہ 7 اپریل 2017ء کو تیلنی پاڑہ میں جس طرح فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا اس میں سنگھ پریوار کے تیار کردہ خاکہ میں مقامی پولس نے ڈھٹائی  اور بے شرمی کے ساتھ رنگ بھرا۔ ریاستی حکومت کے وزیر اعلیٰ اور وزراء نے چشم پوشی سے کام لیا۔ ایسا لگا جیسے حکومت نے سنگھ پریوار کے رام نومی کے فرقہ پرستانہ جلوس کو واک اوور دے دیا گیا۔

  کلکتہ کے ایک مسلم وفد کے ارکان سے مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب مقامی مسلم لیڈروں نے جلوس کو مسلم علاقوں کے اندر سے گزرنے پر اعتراض کیا تو بھدیشور تھانہ کے اوسی مجمدار اور ہگلی ضلع کے ایس پی نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ ایس پی نے کہاکہ راستہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا۔ مقامی مسلم لیڈروں نے کہاکہ ایس ڈی او (SDO) اور ایڈیشنل ایس پی (Add SP) نے پیس کمیٹی کی میٹنگ میں طے کیا تھا کہ جلوس پہلے جس راستہ سے جاتا تھا اسی راستہ سے جائے گا۔ کسی اور راستہ سے ہر گز نہیں جائے گا۔ پھر آج کیوں تبدیلی یا ردو بدل کی بات ہورہی ہے؟ مسلم لیڈروں نے ایس پی سے پانچ منٹ کا وقت مانگا کہ وہ صلاح و مشورہ کے بعد اپنا فیصلہ یا مشورہ بتائیں گے۔ پانچ منٹ گزرا بھی نہ تھا کہ بم دھماکہ ہونے لگا۔ دیکھتے دیکھتے مسلمانوں کے کئی مکانات تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ چند مکانات کو لوٹ پاٹ کر دیا گیا۔

غیر مسلم محلہ میں چند مسلمانوں نے ایک نئی عمارت میں چند فلیٹ بک کرایا ہے۔ چند مسلمان رہنے بھی لگے ہیں ۔ ان پر بھی آناً فاناً حملہ کر دیا گیا۔ دو مسجدوں کی عمارت کو بھی فسادیوں نے نقصان پہنچایا۔ چند نادان مسلم نوجواں نے بھی غلط رد عمل کا اظہار کیا۔ غیر مسلم بھائیوں کے چند مکانات کو نقصان پہنچایا جسے مقامی مسلم لیڈروں نے ناپسند کیا۔ فساد کے دوسرے دن راقم کے پاس فون آنے لگے اور لوگ حالات کی سنگینی بتانے لگے۔ ایک صاحب نے فون کیا کہ بدھیشور تھانے مقصود ماسٹر اپنے گھر کی تباہی اور لوٹ پاٹ کی شکایت درج کرانے گئے تھے او سی نے ان کے شکایت نامہ کو لے کر پھاڑ دیا اور انھیں تھانہ میں روک لیا ہے۔ اوسی سے جب میں نے فون پر بات کی تو اس نے واقعہ سے انکار کیا جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ مقصود کو بیٹھایا گیا تھا مگر وہ بغیر پوچھے چلا گیا۔ جب ہم نے مقصود سے فون پر بات کی تو اس نے کہاکہ مجھے تو اسی تھانہ میں detain (روک) کر رکھا ہے اور میرے شکایت نامہ کو پھاڑ دیا۔ اس پر ہم نے ہگلی کے ایس پی سے بات کی کہ بھدیشور تھانہ میں مظلوموں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایس پی نے کہاکہ وہ چھان بین کرتے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایس پی کی مداخلت سے مقصود کو چھوڑ دیا گیا مگر ان کی شکایت (Complaint) درج نہیں کی گئی بلکہ ان کے شکایت نامہ کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔

 جب ہم نے تیلنی پاڑہ کے چند لوگوں سے بات کی وہ بیس تیس کی تعداد میں تھانے میں جاکر شکایت کرائیں تو سب کا جواب تھا کہ جو بھی جائے گا اسے گرفتار کرلیا جائے گا کیونکہ جو لوگ بیباکی سے بات چیت کرسکتے تھے سب کے ہاتھ باندھ دیئے گئے تھے۔ سب کے خلاف ایف آئی آر پولس نے درج کیا ہے تاکہ کوئی مسلم لیڈر تھانہ آنے کی ہمت نہ کرے۔ سی پی ایم کے کونسلر محمد شاہد، کانگریس کے سابق کونسلر شاہد مکرم، ترنمول کانگریس کے لیڈر فیروز خان کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا تاکہ یہ لوگ تھانہ سے دور رہیں اور مظلوموں کی مدد تک نہ کرسکیں ۔ اس کے برعکس پنا لال جو بی جے پی کا کونسلر ہے اسے پوری چھوٹ دی گئی۔ بھدیشور میونسپلٹی کے چیئر مین اپادھیائے ہیں جو ہیں تو ترنمول کانگریس میں مگروہ کام آر ایس ایس اور بی جے پی کا کرتے ہیں ۔ موصوف آر ایس ایس سے ترنمول کانگریس میں شامل ہوئے ہیں ۔ان کے بارے میں ترنمول کانگریس کے مقامی لیڈروں کی شکایت ترنمول کانگریس کے مقامی لیڈروں سے آج سے نہیں کئی سال سے یہی ہے کہ پارٹی کیلئے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے لئے کام کرتے ہیں مگر ترنمول کے بڑے لیڈران ایسی باتوں کو ان سنی کر دیتے ہیں ۔ فساد کے بعد ترنمول کانگریس کے تقریباً آٹھ دس مسلمان فرہاد حکیم سے شکایت کرنے گئے تھے کہ پولس اور بی جے پی کی ملت بھگت سے فساد برپا ہوا۔ فرہاد حکیم نے فوراً کہا یہ بالکل غلط ہے۔ وہاں ایم آئی ایم نے فساد کرایا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ تیلنی پاڑہ میں ایم آئی ایم کا کوئی وجود نہیں ہے تو وہ خاموش رہے۔

 عام طور پر پورے ملک میں جہاں بھی فسادات ہوتے ہیں اس میں حکومت کی نا اہلی اور کوتاہی یا فرقہ پرستوں سے ساز باز کی وجہ سے ہوتے ہیں ، جہاں حکومت فرقہ پرستی یا فرقہ وارانہ فساد کے سخت مخالف ہوتی ہے اور پولس کا محکمہ اوپر سے نیچے تک حکومت کے سربراہ اور ان کے ماتحتین کے اشارے کو خوب سمجھتا ہے اور سرمو برابر بھی انحراف سے گریز کرتا ہے۔ وہاں فسادات نہیں ہوتے اور خدانخواستہ ایسی جگہ معمولی جھڑپ بھی ہوتی ہے تو اسے حکومت کے کارندے فوراً اس پر قابو پالیتے ہیں ۔

مغربی بنگال کی سابقہ حکومت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود فسادات کی سخت مخالف تھی جس کی وجہ سے نیچے سے اوپر تک محکمہ پولس کے افسران حکومت کے مزاج اور منشاء سے ذرا بھی انحراف نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے فسادیوں کو ڈر ہوتا تھا اور فساد کرنے یا کرانے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ محترمہ ممتا بنرجی کی حکومت کا پس منظر مارکسی حکومت کے پس منظر سے مختلف ہے۔ محترمہ کانگریس کلچر سے وابستہ تھیں پھر وہ تنہا ہوگئیں ۔ کچھ دنوں کے بعد بی جے پی کے این ڈی اے کا حصہ بن گئیں جس کی وجہ سے ترنمول کانگریس میں سنگھ پریوار کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہوگئے۔ آج اگر چہ ترنمول کانگریس بعض وجوہ سے سنگھ پریوار سے نبرد آزما ہے مگر پارٹی میں شامل جن سنگھی ترنمول کے بجائے بی جے پی اور آر ایس ایس کے وفادار ہیں ۔ ایسے لوگ پولس محکمہ کو بھی آسانی سے اپنے زیر اثر کرلیتے ہیں ۔

بھدیشور میونسپلٹی (تیلنی پاڑہ) کے چیئر مین منوج اپادھیائے کے بارے میں تیلنی پاڑہ کے مسلمانوں کی ترنمول کانگریس سے یہ شکایت برسوں سے چلی آرہی ہے کہ منوج اپادھیائے ہیں تو ترنمول میں لیکن ان کی ذہنیت پورے طور پر جن سنگھی ہے اور وہ آر ایس ایس کیلئے در پردہ کام کرتے ہیں ۔ ترنمول کانگریس کے مسلمان بھی جب ترنمول کے لیڈروں سے شکایت کرتے ہیں تو وہ اسے آسانی سے نظر انداز کردیتے ہیں ۔

  آج سے آٹھ دس ماہ پہلے مارواڑی کل، نئی ہٹی وغیرہ میں جو فسادات بڑے پیمانے پر ہوئے اس میں بھی پولس کا رویہ صحیح نہیں تھا۔ مسلمان محرم کا اکھاڑہ یا جلوس بالکل نہیں نکالنا چاہتے تھے۔ پولس نے مسلم نوجوانوں کو طیش دلایا کہ وہ کیوں ڈر گئے ، پولس تو موجود رہے گی لیکن جب فساد کئی دنوں تک جاری رہا تو پولس تماشائی بنی رہی۔ مسلم مجلس مشاورت کے وفد نے وہاں کے فساد زدہ علاقے کا دورہ کیا۔ کم و بیش وہاں کی پولس نے بھی اسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو تیلنی پاڑہ میں ہگلی کی پولس نے کیا۔ وفد نے بارکپور کمشنری کے ایک بڑے مسلم افسر سے ملاقات کی تھی۔ اس نے بتایا کہ مسلم افسران کے اختیارات سلب کر لئے گئے ہیں ۔ وہ بے دست و پا ہیں ۔ انھیں کچھ کرنے نہیں دیاجاتا۔ تیلنی پاڑہ کے فساد زدہ علاقہ کا دورہ 19 اپریل 2017ء کو کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے ایک وفد نے کیا۔ وفد نے محسوس کیا کہ مسلم مقامی لیڈروں کو مقامی تھانہ نے سب کے خلاف غلط طریقہ سے ایف آئی آر کرکے انھیں بے دست و پا کر دیا ہے جو ایک خاص منصوبہ کے تحت ہوا ہے۔

 وفد نے بھدیشور تھانہ کے پولس افسر سے اس کی شکایت کی کہ پولس کا یہ طرز عمل قابل اعتراض ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اوسی مجمدار نے کہاکہ یہ کارروائی حالات کو قابو میں کرنے کیلئے کیا گیا۔ جب ان سے کہاگیا کہ آپ کا اور ایس پی صاحب کا رول اچھا نہیں تھا کیونکہ آپ دونوں نے نئے راستہ سے جلوس جانے کی وکالت کی۔ اس پر مسٹر مجمدار نے کہاکہ وہ وجلوس کی وکالت نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک گاڑی میں دس پندرہ آدمی تھے مسلمان لیڈران مسلم آبادی سے گزرنے کی بلا وجہ کی مخالفت کر رہے تھے جس کی وجہ سے میں نے اور ایس پی صاحب نے مسلم لیڈروں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسا نہ کریں ۔ مسٹر مجمدار فساد کے دوسرے روز جس طرح مقصود ماسٹر کو تھانے میں بیٹھاکر جھوٹ کا سہارا لے رہے تھے وفد کی موجودگی میں بھی اس طرح اپنے جھوٹ پر اڑے ہوئے تھے۔ آج تک فساد زدہ علاقے میں نہ کوئی وزیر گیا اور نہ ہی کوئی مقامی ایم ایل اے نے فساد زدہ علاقے میں جانا پسند کیا جبکہ مقامی ایم ایل اے نہ صرف ایم ایل اے ہیں بلکہ وزیر ثقافت بھی ہیں ۔ اس سے بڑی حکومت کی لاپرواہی اور حالات سے چشم پوشی کیا ہوسکتی ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔