جانوروں کو بچانے اور انسانوں کو مارنے کا سیاسی دھندا!

عبدالعزیز

 آر ایس ایس اور بھاجپا کو جو سیاسی کامیابی ملی ہے اس سے ان کا حوصلہ ہی نہیں بڑھا ہے بلکہ پاگل پن بھی عروج پر ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات پورے طور پر بیٹھ گئی ہے کہ اگر وہ جانوروں کی حفاظت کیلئے ہر طرح کی کوشش کریں گے تو ہندستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے میں بھر پور مدد ملے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ناگپور میں جو منصوبہ یا خاکہ طے ہے یا بنا ہے موجودہ حکومت اسی خاکہ میں رنگ بھرنے میں مشغول و مصروف ہے۔

 پہلے گائے کے ذبیحہ پر مختلف ریاستوں میں جہاں جہاں بھاجپا کی حکومت ہے پابندی عائد کردی گئی جس کے نتیجہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ گوشت کے شبہ میں اور جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے میں جس کو چاہا جب چاہا پریشان ہی نہیں کیا بلکہ اس کی جان لے لی۔ گائے کے رکشکوں نے مسلمانوں پر دھاوا بولا۔ پھر دلتوں اور کمزور طبقوں کو نشانہ بنایا ۔ مسلمان حالات کی نزاکت کے پیش نظر نہ سڑکوں پر اترے اور نہ ہی احتجاج کیا اور نہ جلسہ جلوس نکالنے کی ادنیٰ کوشش کی لیکن دلتوں پر جب گائے کے نام نہاد محافظوں نے جبر و ظلم کیا تو پورے ملک میں دلتوں نے کھل کر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں مودی کے منہ سے بھی گائے رکشکوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس میں 80 فیصد سے زائد غنڈے اور بدمعاش ہیں ۔ یہ بھی مودی جی نے کہاکہ ’’دلتوں کو مت مارو، مارنا ہے تو مجھے مارو‘‘۔ اس حکمت عملی سے یوپی کا الیکشن تو مودی جی یا ان کی پارٹی جیت گئی اور دلتوں اور مسلمانوں کا جو سب سے بڑا مخالف بھاجپا میں تھا جو ایم ایل اے بھی نہیں تھا ایم پی تھا اسے یوپی جیسی بڑی ریاست کی گدی سونپ دی گئی۔ یوگی کو کرسی ملتے ہی ذبیحہ خانہ پر پابندی سوجھی اور سب سے پہلا کام انھوں نے ریاست کی فلاح و ترقی کیلئے کیا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ یوپی جو گوشت ایکسپورٹ کرنے کی سب سے بڑی منڈی تھی وہ ماند پڑگئی۔

  اکھلیش یادوکی حکومت میں کہا جاتا تھا کہ غنڈوں کا راج ہے مگر اب اتر پردیش میں باقاعدہ غنڈوں کی باہنی بنی ہوئی ہے جس کے مکھیا ریاست کے مکھ منتری ہیں ۔ اب پورا اتر پردیش جل رہا ہے۔ دلتوں پر حملے ہورہے ہیں ۔ مسلمانوں کو خواہ مخواہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مہاراشٹر، ہریانہ، راجستھان جیسی ریاستوں میں جانوروں کو بچانے کیلئے سب کچھ کیا جارہا ہے۔ اب مرکزی حکومت نے بھی اپنا رنگ دکھایا۔مرکزی وزارت و محکمہ ماحولیات نے گائے، بھینس، بیل اور اونٹ کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پر ملک بھر میں خاص طور سے کیرالہ میں زبردست احتجاج ہورہا ہے۔ بھاجپا کے سوا ساری سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت اور مذمت کر رہی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کیرالہ مسٹر وجین نے صاف صاف کہاکہ کیرالہ میں کھانے کے مینو (Diet) دہلی اور ناگپورمیں نہیں طے ہوسکتا۔ ایسے قانون کی کیرالہ میں پابندی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ گوشت کھاتے ہیں ۔ خاص طور سے غریب اور کمزور طبقہ کی غذا گوشت ہے۔ سابق وزیر دفاع اور کیرالہ کے سابق وزیر اعلیٰ انٹونی نے کہا ہے کہ کیرالہ میں اس حکم کا حال کسی کاغذ کے ٹکڑے جیسا ہوگا اور اسے یہاں نافذ کرنا خطرناک ہوگا۔ اس حکم نامہ کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہئے۔

 کیرالہ جیسی صورت حال نارتھ ایسٹ کی ریاستوں اور گوا میں بھی ہے مگر یہاں کی حکومتیں بھاجپا کی ہیں جس کی وجہ سے خاموش ہیں لیکن آج نہیں تو کل اگر حکومتوں کا منہ بند رہے گا تو عوام کو منہ کھولنا پڑے گا اور جو کچھ اس وقت کیرالہ میں ہورہا ہے ان ریاستوں میں دیر یا سویر ہوگا۔ باقی ریاستوں میں جب حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے تو وہاں بھی صورت حال بگڑ سکتی ہے۔ زعفرانی حکومت کو شاید یہ غلط فہمی ہے کہ گوشت اور چمڑے کے کاروباری صرف مسلمان ہیں ۔ حالانکہ دونوں کاروبار میں ہندو مسلمان ہیں اور بڑے بڑے کاروباری جو ایکسپورٹ کے تاجر ہیں وہ زیادہ تر ہندو ہیں ۔ جس حکومت نے کام یا روزگار دینے کی بات کہی تھی اپنی بے وقوفی اور نادانی سے ہندوتو کو اجاگر کرنے کیلئے یہ سارے نوٹیفیکیشن یا قانون بنائے جارہے ہیں ۔ ان سب پالیسیوں سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ مودی حکومت کو جانوروں کو بچانے کی فکر زیادہ ہے، خواہ اس سے انسانوں کا جتنا بڑا بھی نقصان یا گھاٹا ہو اور جس قدر بھی بیکاری اوربے روزگاری بڑھے اس کی کوئی فکر نہیں ۔ یہ بات اس تناظر میں آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں حیوانوں کی یہ حکومت حیوانوں کے حق میں بھی سم قاتل سے کم نہیں ہے کیونکہ ہندستان میں لوگ موجودہ حالات کے پیش نظر گائے، بھینس وغیرہ پالنا بند کر دیں گے جس سے یہ جانور ملک میں ناپید ہوجائیں گے۔ دودھ اور مکھن باہر سے منگانے کی ضرورت پڑے گی۔

اس وقت ملک کی معیشت پر بہت برا اثر پڑے گا اور حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔ ایسے وقت میں اگر یہ حکومت باقی رہے گی تو ہندستان کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔ بھاجپا 2019ء کے الیکشن میں کامیابی کا خواب پورے طور پر دیکھ چکی ہے وہ 2024ء کے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے جس میں وزیر اعظم کے امیدوار مودی نہیں یوگی ہوں گے، کیونکہ آر ایس ایس نریندر مودی کو ضعیف العمری کی وجہ سے مارگ درشن منڈل کا سدس (ممبر) بنا دے گی۔ یہی سب آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب بھاجپا کیلئے ’شائننگ انڈیا‘ (Shining India) ثابت ہوگا یا کچھ اور ثابت ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔