جسٹس سچر کو قیادت کے لیے آمادہ کیا جائے

حفیظ نعمانی

وزیر اعظم مودی نے اڑیسہ میں ایک دن پہلے مسلمانوں سے جڑنے کے لیے زمینی سطح پر کام کرنے کی طرف اشارہ کیا تھا جس سے توقع تھی کہ وزیر اعظم صرف تین طلاق والی تفریح باز مسلم خواتین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ مسلم سماج کے پسماندہ طبقہ کے لیے بھی سنجیدہ ہورہے ہیں ۔ حالاں کہ ریاست الور میں گائیں لے جانے کے جرم میں جسے پیٹ پیٹ کر مارا گیا یا تین دن پہلے دو اونٹ لے جانے والوں کو راستہ روک کر مارا وہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح کی سیکڑوں حرکتیں ان تین برسوں میں ہوچکی ہیں جن میں مودی سرکار کا اقتدار تھا۔ لیکن کل نہیں تو آج اگر خیال آیا تو ہم بدگمانی کرنے والے کون ہیں ؟ لیکن جسٹس راجندر سچر جنھوں نے انتہائی عرق ریزی سے مسلمانوں کی پسماندگی کی برسوں کی محنت کے بعد رپورٹ تیار کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں اب دلتوں سے بھی ز یادہ پسماندہ مسلمان ہیں اور اس کے بعد انہیں اپنی سفارشات پر عمل نہ کرنے کی ا نتہائی تکلیف ہے۔ انھوں نے خطرہ کی بو سونگھ کرکہا ہے کہ آر ایس ایس 2019کے الیکشن کو جیت کر ملک کو ہندو راشٹر بنادے گا۔

جسٹس سچر نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ سب سے زیادہ خطرناک اشارہ یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بنانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ مودی صرف چہرہ ہیں ۔ جسٹس سچر نے کہا کہ سارے ہندوئوں کا آر ایس ایس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہندوئوں کی مختلف ثقافت اور کھانے پینے کی عادات ہیں ۔ جسٹس سچر کا خیال ہے کہ سنگھ پریوار اپنے مقصد میں اس لیے کامیاب نہیں ہوگا کیوں کہ اس کی مخالفت میں بڑی تعداد میں ہندو سامنے آجائیں گے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے تمام مخالف پارٹیوں کو ایک ساتھ آجانا چاہیے۔

ہندو راشٹر کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں سکھ عیسائی جین اور ان ہندئووں کی بہت بڑی تعداد کرے گی جو ہندو تو ہیں مگر بس راشن کارڈ، ووٹر لسٹ اور بھولے بھٹکے مندر کو سلام کرنے تک محدود ہیں ۔ تین دن پہلے جن لڑکوں کو اونٹ لے جاتے ہوئے اس لیے پیٹا کہ وہ کاٹنے کے لیے لے جارہے ہیں ، ان ہندوئوں کا اونٹ سے کیا تعلق ؟ بلکہ اونٹ تو کھجور کے پیڑ کی طرح مسلمانوں کے حساب میں دکھایا جاتا ہے اور مسلم مجلس نے اپنا انتخابی نشان ہاتھی کے جواب میں اونٹ رکھا تھا۔ اب غنڈوں اور بدمعاشوں نے اس کا رشتہ بھی گائے سے جوڑ دیا۔

جسٹس سچر نے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس مسلمانوں کو ملک کی اقلیت نہیں رکھے گی اور اگر ایسا ہوا تو ہندوستان اقوام متحدہ کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ اورعالمی برادری ہندوستان کابائیکاٹ کردے گی۔ اقوام متحدہ مائنارٹی کمیشن نے یہ بات کہہ رکھی ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے واسطے ایک خصوصی کمیشن قائم کیا جانا چاہیے۔

ہندوستان نے دنیا کے اکیلے ہندو ملک نیپال کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہاں جو بغاوت ہوئی وہ نہ فوج نے کی نہ قوم نے بلکہ مائو وادیوں نے ہی سیکڑوں برس کی شاہی حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور محلوں میں رہنے والے شاہ زادوں اور شاہ زادیوں کو محلوں سے نکال کر بیرک میں رہنے پر مجبور کردیا۔ آج کے زمانے میں جو تعداد کے اعتبار سے بڑے مذہب ہیں بودھ اور عیسائی یا مسلمان، وہ بھی کہیں مذہبی حکومت قائم نہ کرسکے تو سب سے چھوٹا دھرم ہندو یا سناتن اس کی مذہبی حکومت کون قائم کرنے دے گا اور کرلی تو اسے کون چلنے دے گا۔؟

مذہبی حکومت کے لیے مذہبی سماج ضروری ہے۔ ہندو سماج کا یہ حال ہے کہ کروڑوں وہ ہندو ہیں جو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور وہ ہندو بھی لاکھوں ہیں جو زندہ گایوں کو کاٹنے کے لیے فروخت کرتے ہیں اور لاکھوں وہ ہیں جو گائے کے گوشت کا کاروبار کررہے ہیں اور کروڑوں وہ ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ وہ گائے کا گوشت ہے۔ ہندو راشٹر تو تب بن سکتا ہے جبکہ ہر ہندوستانی گائے کے پیشاب اور گوبر کو شفاء الناس سمجھنے لگے۔ آج تو یہ حالت ہے کہ رام دیو یادو کی بنائی ہوئی کسی چیز کو مسلمان ہاتھ بھی نہیں لگاتے کہ اس میں گائے کا موت ہے۔ اور انھوں نے بھی مشہور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے کہ وہ گائے کے پیشاب تمام چیزوں میں ملاتے ہیں ۔ موہن بھاگوت صا حب نے کہا ہے کہ دنیا کے سائنس داں اس کے پیشاب ا ور گوبر کے بارے میں جان چکے ہیں کہ وہ کتنی بیماریوں کا علاج ہے۔ لیکن اسلام میں پیشاب ہر کسی کا ناپاک ہے۔ ایک بار مدینہ میں ایک وبا پھوٹ پڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ لے جائو اور جنگل میں ان کے ساتھ رہو ان کے پیشاب سے یہ بیماری دور ہوگی ۔لیکن اونٹ کا پیشاب ناپاک تھا اور ناپاک آج بھی ہے۔

جسٹس راجندر سچر ملک کی ان چند شخصیتوں میں ہیں جن کا پورا ملک احترام کرتا ہے۔ کانگریس نے ان کے سپرد مسلمانوں کی حالت جاننے کے لیے رپورٹ تیار کرائی تھی۔ لیکن سب کو شکایت ہے کہ کانگریس نے کیا کچھ نہیں اور کانگریس بھی زبان بند کیے بیٹھی ہے۔ جبکہ ہر پارٹی اس کی طرف انگلی اٹھاتی رہی۔ اب سچر صاحب نے ہی تمام غیر بی جے پی پارٹیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 2019کا الیکشن مل کر لڑیں اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے خواب کو چور چور کردیں ۔ یہ یا اس سے ملتا ہوا جذبہ ہر پارٹی کے اندر پیدا ہورہا ہے۔ صرف ملائم سنگھ کی ایک آواز آئی ہے کہ ہم کسی سے اتحاد نہیں کریں گے۔ اس وقت سیاست نے ان دونوں بھائیوں کو ایک کنارے پر بٹھادیا ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی اب اکھلیش کے پاس ہے۔ ملائم سنگھ ا گر شامل ہونے کی بات بھی کرتے تو سب سے پہلے الگ ہونے والے بھی وہی ہوتے۔

اب ہماری حقیر رائے ہے کہ تمام پارٹیاں جسٹس راجندر سچر کو ہی اس پر آمادہ کریں کہ وہ ہمیشہ کے لیے نہیں صرف 2019کے الیکشن کی قیادت قبول کرلیں یہ ایک نام ایسا ہے کہ کیرالا سے لے کر پنجاب تک کسی کو ان کے پیچھے کھڑے ہونے میں تکلف نہیں ہوگا۔ اور وہ صرف ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی مخالفت کا نعرہ دیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔