خاندانی جھگڑے سے سماج وادی پارٹی کی تقسیم

گزشتہ کئی ماہ سے اتر پردیش کی حکمراں  جماعت سماج وادی پارٹی میں  جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز آخرکار پارٹی دو حصوں  میں  تقسیم ہوگئی جس نے پارٹی بنائی تھی اور اپنے بیٹے کو 2012ء میں  تخت پر بٹھایا تھا اس کی کراری ہار ہوگئی اور اب وہ ہاری ہوئی جنگ کو جیتنے کی کوشش کر رہا ہے۔  اس کا نام ملائم سنگھ یادو ہے جو نہ صرف اتر پردیش کی ریاست میں  ایک عرصہ سے چھایا رہا بلکہ قومی سیاست میں  بھی اپنی چھاپ چھوڑنے میں  کامیاب رہا۔ ملک کے وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالا اور جب یوپی اے 2 کا بایاں  محاذ نے ساتھ چھوڑ دیا تو ملائم سنگھ نے یوپی اے سرکار کو زندگی بخشی اور اس طرح ملائم سنگھ یادو کی مدد سے کانگریس کی سربراہی میں  یوپی اے سرکار پانچ سال جیسے تیسے حکومت کرنے میں  کامیاب ہوئی مگر اس قدر گھوٹالے ہوئے اور بدعنوانی کا بول بالا ہوا کہ کانگریس 2014ء کے الیکشن میں  لوک سبھا کی 44سیٹوں  میں  سمٹ کر رہ گئی۔

باپ نے بیٹے کو حکومت 2012ء میں  سونپی تھی مگر اتر پردیش میں  2012ء تا 2016ء جو حکومت اکھلیش کی سرکردگی میں  ہوئی وہ یو پی کی سب سے بدتر حکومت کہلانے کی حقدار ہے۔ 250 سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں  مظفر نگر کا فساد اس قدر ہولناک ہوا کہ مسلمانوں  کے بتیس گاؤں  نیست و نابود کر دیئے۔ ان سب کے باوجود سماج وادی پارٹی کے مسلم ایم ایل اے اور ایم پی سب کے سب سماج وادی پارٹی یا اقتدار سے چمٹے رہے۔ کسی ایک نے بھی نہ استعفیٰ دیا اور نہ کسی ایک نے سماج وادی پارٹی کی مسلم دشمنی کے خلاف آواز بلند کی، سب کے سب اقتدار کے نشے میں  مست رہے اور اقتدار کا مزا لوٹتے رہے۔ اب جبکہ باپ بیٹے دونوں  پر قہر خداوندی کا عذاب ٹوٹ پڑا ہے تو یہی مسلمان ایم ایل اے اور ایم پی حق و باطل کے بجائے ایک ہی چیز دیکھنے میں  لگے ہوئے ہیں  کہ اقتدار کس کے پاس ہے طاقت او ر قوت کس کے پاس زیادہ ہے۔ اکھلیش کو میڈیا والے صاف ستھرے کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں  مگر اتر پردیش میں  جو بدتر حکمرانی اکھلیش کی سرکردگی میں  ہوئی جس میں  ہزاروں  مسلمان مارے گئے اور لاکھوں  مسلمان بے گھر اور بے یارو مددگار ہوگئے۔ اس کا الزام باپ اور چچا کی گردن پر رکھ دیا جارہا ہے تاکہ اکھلیش کی نام نہاد سفیدی میں  اور چمک پیدا ہوجائے۔ اکھلیش نے اپنی حکمرانی میں  پارٹی کی طرف سے مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود کیلئے جو وعدے کئے تھے اسے بھی پورا نہیں  کیا۔

 اتر پردیش کے مسلمانوں  نے قریب قریب سوچ لیا تھا کہ اس بار مایا وتی کی حمایت کی جائے کیونکہ مایا وتی نے کرپشن کو ضرور بڑھایا تھا لیکن غنڈہ گردی اور فرقہ وارنہ فسادات کو حتی الامکان کم کرنے کی کوشش کی تھی جس میں  اسے کامیابی ہوئی تھی۔ بدعنوانی اور فرقہ پرستی میں  اگر مقابلہ کیا جائے تو فرقہ پرستی جان و مال لیتی ہے جبکہ بدعنوانی صرف مال لیتی ہے۔ اس لحاظ سے فرقہ پرستی زیادہ خطرناک ہے۔ باپ بیٹے نے فرقہ وارانہ طاقتوں  کو یوپی میں  بڑھا وا دیا ا ور بی جے پی سے ساز باز رکھا۔ محمد اخلاق کا گھر ہو یا ڈپٹی ایس پی ضیاء الحق کا خاندان ہو باپ بیٹے کے جھگڑے یا حکومت میں  برباد ہوا ایسے لوگوں  کو پھر سے حمایت دینا اور پھر سے تخت پر بٹھانا جہالت اور نادانی ہوگی کیونکہ آزمودہ را آزمودن جہل است (آزمائے ہوئے کو پھر آزمانا جہالت ہے)۔

   اس وقت اتر پردیش کی سیاست ایک تصویر تو یہ ہے،  دوسری تصویر یہ ہے کہ بھاجپا نہ صرف 2017ء کے اسمبلی الیکشن کی تیاری میں  مصروف ہے بلکہ 2019ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں  دوبارہ کامیابی کیلئے بھی ہاتھ پاؤں  مار رہی ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں  کی یقینا یہ حکمت عملی ہونی چاہئے کہ بھاجپا کی جیت اتر پردیش میں  نہ ہونے پائے۔

 تیسری تصویر یہ ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ اکھلیش اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے اور مسلمانوں  کو پھر سے اپنے قریب لانے کیلئے بہار کے طرز پر اتحاد کیلئے کوشاں  ہیں  اور کانگریس بھی اکھلیش کی تجویز کو پسند کر رہی ہے۔ اگر بہار کے طرز پر مہا گٹھ بندھن یا عظیم اتحاد ہوتا ہے تو کانگریس اور دوسری پارٹیوں  کے اتحاد سے بھاجپا کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سہ رخی لڑائی ہوسکتی ہے جس میں  بھاجپا کو زیادہ سیٹیں  نہ ملیں  اس کا زیادہ امکان ہے۔ اس سے یہ پورا امکان ہے کہ یوپی میں  مخلوط حکومت بن سکتی ہے۔ اگر مایا وتی بھی عظیم اتحاد کا حصہ بن سکتیں  تو کام اور آسان ہوجاتا،  جس کا امکان بہت کم ہے۔

  بہر حال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ بھاجپا کی حکومت نہ ہونے پائے چاہے جس کی بھی حکومت ہو کیونکہ Lesserevil (کم خرابی) کو ایسے ہی موقع پر زیادہ خرابی کے مقابلے میں  قبول کرنی پڑتی ہے۔ یہی حکمت کا بھی تقاضا ہے اور سیاست بھی یہی کہتی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو سماج وادی پارٹی کے شر سے خیر کا پہلو نکل سکتا ہے کیونکہ ملائم سنگھ بہار الیکشن کے موقع پر بھی اتحاد کے خلاف تھے اور اتر پردیش کے الیکشن میں  بھی اتحاد پر راضی نہیں  تھے جبکہ مصلحتاً ہی سہی اکھلیش راضی تھے۔ اب جبکہ پارٹی کے لیڈروں  اور اسمبلی کے ممبروں  کی اکثریت اکھلیش کے حق میں  ہوگئی ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے سابقہ وعدہ یا بات پر قائم رہتے ہیں  یا نہیں ۔ ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ رام گوپال یادو جو اس وقت اکھلیش سے سب سے زیادہ قریب ہیں  وہ سی بی آئی سے اپنی چمڑی بچانے کیلئے کانگریس سے دور اور بی جے پی سے قریب رہنا چاہتے ہیں ۔ دو چار دنوں  میں  بات بالکل صاف ہوجائے گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

 فی الحال اعظم خان کس کے ساتھ ہیں  یہ تصویر صاف نہیں  ہے۔ چند دنوں  سے تو وہ پارٹی میں  اتحاد کے خواہاں  تھے، باپ بیٹے کو یکجا کرنے میں  بظاہر کامیاب ہوئے تھے مگر پھٹے ہوئے دل مل نہ سکے۔ اعظم خان پیس میکر یا صلح صفائی کرنے والے کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ دیکھنا ہے کہ اعظم خان کا آگے کیا رول ہوتا ہے۔ لکھنؤ میں  مسلمانوں  کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں  کا بھی اتحاد ہواہے اور اسد الدین اویسی صاحب کی ایم آئی ایم بھی ہاتھ پاؤں  مار رہی ہے۔ ایم آئی ایم کا کردار بہار کے الیکشن کے موقع پر جو تھا اگر وہی رہا تو اسے پھر منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس کا کردار تھا کہ بھاجپا چاہے جیتے یا ہارے اسے دس پانچ سیٹیں  نکالنا ہے۔ اپنا وجود قائم کرنا ہے۔ ایم آئی ایم اپنی اس کوشش میں  کامیاب نہیں  ہوئی۔ بہار کے مسلمانوں  نے ایم آئی ایم کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ اتر پردیش میں  بھی مسلمان بہار کے مسلمانوں  کے نقش قدم پر امید ہے چلیں  گے۔

جہاں  تک مسلمانوں  کی چھوٹی بڑی پارٹیوں  کے اتحاد کی بات ہے تو اسے ایم آئی ایم کے راستہ پر ہر گز نہیں  چلنا چاہئے۔ اسے چند سیٹوں  کے نکالنے سے کہیں  زیادہ اس کی فکر ہونی چاہئے کہ بھاجپا کی ہار کیسے ہو اور مسلمانوں  کا کیا طرز عمل ہو کہ بھاجپا کامیابی سے کسی صورت میں  ہمکنار نہ ہو۔ مسلمانوں  کی سیاسی پارٹیوں  کے اتحاد کی یہی جیت ہوگی۔ رہا دو چار سیٹوں  یا دس پندرہ سیٹوں  پر مسلم پارٹیوں  کی کامیابی تو اس کیلئے بھی حکمت عملی اپنائیں  کہ کسی صورت یا کسی حکمت عملی سے عظیم اتحاد کے اندر رہ کر اس مقصد کو بھی حاصل کرنے میں  کامیاب ہوں  مگر پہلا مقصد بھاجپا کو ہرانا ہی ہونا چاہئے۔ یہی مسلمانوں  کی اصل حکمت عملی اور اصل مقصد ہوگا جب ہی بھاجپا ہار سے دو چار ہوسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔