خوداعتمادی کی نہیں تکبر اور غرور کی سزا ہے یہ

حفیظ نعمانی

14 مارچ کی تاریخ برسوں یاد کی جاتی رہے گی۔ 14 کو وہ ہوا جس کا ہم بھی اندازہ نہیں کرپا رہے تھے البتہ سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے ضرور کہا تھا کہ نتیجے چونکانے والے ہوں گے انہیں دونوں سیٹوں پر کامیابی کا یقین تھا۔ بی جے پی کو سبق سکھانے والے نتیجوں کے بعد وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے کہا ہے کہ ’’بہت زیادہ خود اعتمادی کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپا اور بی ایس پی کے اتحاد کو سمجھ ہی نہ سکے۔‘‘ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں کا ٹھیکرہ بی جے پی کے سر پر رکھ رہے ہیں۔ وہ غرور، تکبر، نخوت، گھمنڈ اور فرعونیت کے نشہ میںچور تھے انہوں نے اکھلیش یادو کے اُمیدواروں کو مس مایاوتی کی حمایت کو چھچھوندر کی حمایت کہا تھا۔ یہ ان کا ہی جملہ تھا کہ جب کوئی بہت بڑا طوفان آتا ہے تو اپنی اپنی جان بچانے کے لئے سانپ اور چھچھوندر ایک پیڑ پر پناہ لے لیتے ہیں۔

ان کے چھوٹے موریہ جنہوں نے پھول پور کی سیٹ چھوڑی تھی ان سے جب ایک رپورٹر نے کہا کہ اگر مایاوتی جی نے اپنے ووٹ ٹرانسفر کردیئے تو کیا ہوگا؟ تو ان کا جواب تھا کہ ووٹ ہوں گے تب ہی تو ٹرانسفر کریں گی؟ اور دوسرے رپورٹر سے کہا تھا کہ اب بہن جی کے اندر ووٹ ٹرانسفر کرانے کی طاقت نہیں رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یوگی سرکار کا چوہا چوہا شیر ہورہا ہے ہر کوئی دونوں کا مذاق بنا رہے تھے کوئی مایاوتی کو گیسٹ ہائوس کی یاد دلا رہا تھا اور کوئی ضمنی الیکشن میں ڈمپل یادو کے ہارنے کی۔ اور ہمارے دماغ میں پاک پروردگار کے یہ قرآنی فرمان گونج رہے تھے کہ ’’وَلاتمشِ فی الارضِ مرحاً۔ انّک لنَ تخرزالارضَ ولنَ بتلغ الجیالَ طوُلاَ‘‘ زمین پر اَکڑکر نہ چلو اس لئے کہ نہ تو تم دھرتی کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہونچ سکتے ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے فرعون تنکوں کی طرح اُڑ گئے مودی اور یوگی کیا چیز ہیں۔

بات صرف اتنی ہے کہ وزیراعلیٰ کا ہر کام زبان پر ہے وہ اٹھتے بیٹھتے مودی جی کا دیا ہوا منتر دہراتے رہتے ہیں کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ مودی جی بھی اس منتر کو پڑھتے رہتے ہیں کرتے کچھ نہیں اس لئے وہ بھی چار لاکھ نوکریاں دینے کی بات کرتے ہیں اور دیتے چار سو بھی نہیں۔ سنا ہے کہ وہ اپنے ایک سال کی کامیابیوں کا جشن منانے کی تیاری کررہے ہیں۔ اور ہم حیران ہیں کہ ان کی کامیابیوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ گولی کا جواب گولی سے دیا جائے گا اور بندوق کا جواب بندوق سے۔ اور انہوں نے لاشوں کے ڈھیر پولیس سے لگوادیئے اور چھوٹ دے دی کہ جو ٹیڑھا چلے اس کا انکاؤنٹر کردو۔ یوگی جی کو تجربہ ہے کہ پولیس کتنی بے لگام ہے اور یہ ان کی حکومت کی بات نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد کسی کی بھی حکومت رہی ہو سب نے پولیس کے بل پر حکومت کی ہے اور سب عوام کے دشمن ہیں۔ پولیس مینول 1860 ء کا بنا ہوا ہے جو انگریزوں نے ہم ہندوستانیوں پر ظلم کی چھوٹ دینے کے لئے بنایا تھا اسے بنے ہوئے 160  برس ہوگئے ملک کے پہلے وزیر داخلہ سے لے کر آج کے وزیر داخلہ تک کسی نے یہ ہمت نہیں کی کہ اسے پھاڑکر پھینک دے اور آزاد شہریوں کے لئے بنائے۔ یہ اسی مینول کی لعنت ہے کہ ایک معزز شہری کے ساتھ پولیس والا کچھ بھی کرے اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ یوگی کا انداز حکومت وہ ہے جو کسی ملک کو فتح کرنے والے کا ہوتا ہے۔ جمہوریت میں حکومت کی طاقت کیا ہے یہ اب تک ان کو نہیں معلوم تھی اب پروردگار نے انہیں دکھادی۔ اگر اب بھی وہ اسے اتفاق سمجھ رہے ہوں تو شری نرائن دت تیواری کو جاکر دیکھ لیں جو برسوں وزیراعلیٰ رہے مرکزی وزیر رہے اور پھر اپنے کرموں کی سزا میں چھوٹے سے اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ بنے پھر انہیں راجستھان کا گورنر بنا دیا اس بڑھاپے میں انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بدکردار تھے اور بدکرداری کی نشانی ایک بیٹا ہے اور ایک شریف عورت بھی ہے۔ تیواری جی کو اس عمر میں جو چتا پر جانے کی عمر ہے دولھا بننا پڑا اور خاتون کو بیوی اور لڑکے کو اپنا نام دینا پڑا۔ یہ تو کانگریس کے وزیر کی بات ہے۔ وہ کلیان سنگھ کو دیکھ لیں جو جب وزیراعلیٰ تھے تو اُن کی گردن سیدھی نہیں ہوتی تھی اڈوانی جی کو دیکھ لیں جنہوں نے مودی کی انگلی پکڑکر گجرات کی بڑی کرسی پر بٹھایا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے کسی خاص مقصد کے لئے انہیں وزیراعلیٰ بنایا ہے اور آج وہ مودی جی کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ ان کے ٹکڑوں پر زندگی گذار رہے ہیں۔

ہم شروع سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ پورے اُترپردیش کو بابا رگھو ناتھ مندر سمجھ رہے ہیں اور اس کی 22 کروڑ آبادی کو مندر کے پجاری، گورکھ پور کی دیہات والی چاروں اسمبلی سیٹوں کے رہنے والوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ مودی جی کے چار اور یوگی جی کے ایک برس میں جیسے تھے اس سے بدتر ہوگئے۔ اور وہ جو چند روز پہلے ہم نے لکھا تھا کہ جھوٹ کے پر ہوتے ہیں پیر نہیں یوگی جی اور موریہ نے اس کا نمونہ دیکھ لیا۔

وزیراعلیٰ یوگی نے ایک بات بہت ناگواری کے ساتھ کہی کہ گھٹیا قسم کی سودے بازی ہوئی ہے۔ الیکشن میں جیتنے کے لے ہر کام کیا جاتا ہے اس میں سودے بازی بھی ہے۔ وہ معاہدہ جس میں پیسہ درمیان میں آئے وہ گھٹیا ہے اور جس میں لو اور دو کا معاملہ ہو وہ گھٹیا نہیں ہے۔ اکھلیش یادو کے پاس راجیہ سبھا کی رکنیت کے کام آنے والے دس ووٹ بیکار تھے اور پھول پور اور گورکھ پور میں بسنے والے مایاوتی کے لاکھوں ووٹ بھی بیکار تھے دونوں نے اپنے کوڑے کا لین دین کرلیا۔ اسے کون گھٹیا سودا کہہ سکتا ہے؟

ایک سودے بازی وزیراعلیٰ، نائب وزیراعلیٰ اور دوسرے وزیروں نے کی ہے کہ کائونسل کے ممبروں سے کہا کہ استعفیٰ دے دو اور منھ مانگی رقم لے لو۔ انہوں نے حساب لگایا کہ کائونسل میں رکنیت ختم ہونے تک وہ کتنا کما سکتے ہیں۔ اس کا چار گنا یا دس گنا لے لیا اور اپنی رکنیت یوگی سرکار کے وزیراعلیٰ اور وزیروں کو دے دی یہ انتہائی گھٹیا سودا تھا جس کے بل پر حکومت چل رہی ہے۔ دوسرا سودا وہ امت شاہ کرتے ہیں جو ہرانے کے لئے ہزاروں کروڑ لٹاتے ہیں اور پھر ان روپیوں کے بدلہ میں ہزاروں کروڑ بینکوں سے نکال کر لے جانے والوں کی طرف سے آنکھ بند کرلیتے ہیں۔

امت شاہ جنہیں وزیراعظم ٹوٹی بانہہ کی طرح گلے میں لٹکائے رہتے ہیں ان کی مہارت صرف یہ ہے کہ وہ ووٹ کٹوا ڈھونڈتے ہیں اور پھر اس پر خزانہ لٹا دیتے ہیں وہ اس سے بس یہ کہتے ہیں کہ اپنی ذات کے ووٹ تم خود لے لو ہمارے مخالف کو نہ جانے دو اس کے لئے ایک مسلمان ووٹ کٹوے کو وہ 2014 ء سے اب تک سیکڑوں کروڑ دے چکے ہیں لیکن اب وہ بدنام ہوگیا تو پھول پور کے مسلم ووٹوں کے لئے پہلوان عتیق کو انہوں نے پکڑا جسے الہ آباد میں ہر ایک نے ووٹ کٹوا نام دیا اور اس نے کانگریس کے اُمیدوار سے زیادہ ووٹ پائے لیکن یہ وہ بتائیں گے کہ انہیں فائدہ ہوا یا نقصان  بہرحال امت شاہ کی گھٹیا سودے بازی بھی کام نہ آئی اور وہ ہوگیا جس نے منھ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔ رہے نام اللہ کا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔