ریزرویشن کا نیا قانون: سماجی نفرت کا آخری کھیل

صفدر امام قادری

اس ہفتے کی تمام سیاسی خبروں پر بھاری خبر اونچی برادریوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ تھا۔ نریندر مودی نے شب خونی انداز میں یہ فیصلہ کیا۔ ایک دن لوک سبھا میں اور دوسرے دن راجیہ سبھا میں بل کو منظوری دے کر صدرِ جمہوریہ کے پاس بھیج دیا گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ملک میں کوئی جنگ کی صورت حال ہو اور فوری طور پر نئے قانون بنائے بغیر مسئلے کا حل نکل نہیں سکتا ہے۔ پارلیامنٹ کے ایوانوں میں درجنوں مفادِ عامہ کے قوانین معرضِ التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ خواتین بل بھی ان میں سے ایک ہے مگر کئی کئی حکومتوں کو انھیں بہر طور منظور کرالینے کا جنون نہیں سمایا۔ مگر دس فی صد نئے ریزرویشن کے معاملے کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی حکومت نے اتنی اہمیت دی اور کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ ان کے سارے مخالفین بھی اس کی طرف داری میں ووٹنگ کرتے نظر آئے۔ چند جنوبی ہند کی پارٹیوں نے ایوان میں مخالفت نہ کی ہوتی تو کہیں یہ بل صد فی صد ووٹ کی سوغات کے ساتھ ایک تاریخ رقم کرسکتا تھا۔

جمہوریت میں پارلیامنٹ قانون بنانے کے ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ممبران عوام کے نمایندے ہوتے ہیں اور اس طور پر وہ پورے ملک یا قوم کی آواز کہے جاسکتے ہیں۔ جو کچھ ہوا اس سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ پورا ملک اس دس فی صد عمومی ریزرویشن کے لیے تیار ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی چھپے ہوئے کھیل ہیں جن کے سیاسی مقاصد پر غور کرنا ضروری ہے۔ خاص طور سے اس فیصلے کے وقت کو لے کر ہر طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ عین عمومی الیکشن کے پہلے کیا ایسا فیصلہ ہونا چاہیے جس کے بارے میں یہ سوچا جائے کہ انتخابات میں اس کے اثرات قائم ہوسکتے ہیں۔ مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کو ان باتوں کی کیا فکر؛ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے صد ر ہمیشہ اعتماد سے اس طرح لیس ہوتے ہیں کہ انھیں کون بتائے کہ ایسے فیصلے کبھی کبھی آگ میں گھی ڈالنے کا بھی کام کرتے ہیں اور نتائج ٹھیک الٹے آنے لگتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو بار شدید مات ایسے ہی مرحلے میں کھانی پڑی ہے۔ ۱۹۸۴ء میں رام مندر کے سوال پر کھلی فرقہ واریت کے امور سیاست کا حصہ بنائے جارہے تھے مگر اندراگاندھی کے قتل سے کانگریس نے ایک جارح دہشت مخالف رویہ اور قوم پرستی کا ایسا نیا شگوفہ چھوڑا جس سے بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیامنٹ کی دو سیٹوں تک سمٹ گئی تھی۔ اسی طرح انڈیا شائننگ کے طوفان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے طشت میں سجا کر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کی وہ کرسی پیش کردی جس کے لیے انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اور وہ دس برسوں تک کانگریس کی آخری اقتدار کو سرفراز کرتے رہے۔ اس ریزرویشن کے فیصلے سے آیندہ تین چار ماہ میں جو بھونچال کھڑا ہوگا، اس کے نتائج سے کہیں راہل گاندھی یا بھاجپا مخالف قیادت کو ایسا استحکام نہ مل جائے جس سے موجودہ حکومت کے سارے خواب چکنا چور ہوجائیں۔

        اس ملک کا یہ عجیب و غریب مقدر ہے کہ بڑے قوانین جن کا اطلاق عوامی سطح پر ہو، انھیں بنانے میں سب سے کم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آدھے ادھورے یا بے اثر ہوکر سماج تک پہنچتے ہیں اور پھر جو اہداف چند برسوں میں حاصل کرلینے تھے، ان کے لیے دہائیوں اور صدیوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اچھے کام کسی سازش یا نیتِ بد سے کرنے کا ایک رواج ہندستانی سیاست میں اس طرح سے متعین ہوگیا ہے کہ اب اسے اصول کی طرح دیکھنا چاہیے۔ ہندستان کی پسماندہ برادریوں کو ریزرویشن دیا جائے، اس کی سفارشیں ٹھنڈے بستے میں پڑی رہیں اور تقریباً ایک دہائی تک کسی حکومت کو یہ بات یاد ہی نہیں آئی مگر دیوی لال سے اندرونی جنگ میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کو منڈل کمیشن کی سفارشات کی مظوری دینا ایک ہتھیار کی طرح سے سامنے آگیا۔ کیا ایک ایسا فیصلہ جس سے تیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کا تعلق ہو، اس کے نفاذ کے لیے سازشی گھڑی کا تعین کیا جائے گا؟ پرلیامنٹ اس طرح سے سیاسی پارٹیوں کی گروی ہے کہ نہ اس کے پاس ضمیر ہے اور نہ ہی کوئی آزادانہ سوجھ بوجھ کہ ایسے مسئلوں پر حکومتوں کو یاد دلائے کہ مناسب فیصلے بھی معقول طریقے سے ہی ہونے چاہیے۔ اب کی بار عمومی ریزرویشن بھی کھلا سیاسی فیصلہ بن کر ہمارے سامنے آیا ہے اور فصیلِ وقت پر لکھی عبارتوں کو اور بین السطور میں پوشیدہ آگ اور شعلوں کو ٹھیک طریقے سے موجودہ حکومت پڑھ نہیں پارہی ہے۔ یہ صرف آنے والے چار مہینوں کا سوال نہیں ہے بلکہ ہندستان کس طرح سے آگے بڑھے گا اور اس کی عوامی زندگی کا ڈھانچہ کس طور پر قائم رہے گا، اس کے بارے میں فکرمندی براے نام ہے۔ سب کو فوری فائدہ چاہیے یا فوری طور پر نقصان ہونے سے بچنا ہے۔ اس لیے اس بل کی نہ پارلیامنٹ میں سنجیدگی سے مخالفت ہوئی اور نہ ہی عوامی طور پر اس کی زیادہ جانچ پرکھ ہورہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنا اشتعال پیدا ہونا تھا، اس کے مقابلے میں بڑی سنجیدگی سے اور صبر و تحمل کے ساتھ اس بل کے مخالفین بھی

بہت حد تک خاموش نظر آرہے ہیں۔

        سوالات کئی ہیں اور آنے والے وقت میں ان سب کے جوابات تلاش کیے جائیں گے۔ کیا کوئی اعداد و شمار جمع کیے گئے کہ حکومت کو یہ سمجھ میں آیا کہ ہندستان کی نام نہاد اونچی برادریوں کو دس فی صد ریزرویشن دے دیا جائے؟ معمولی سوالوں پر کمیشن قائم کیا جاتا ہے اور اسے یہ عوامی طور پر پتا لگانے کا موقع دیتے ہیں کہ آخر سماجی اثرات کیا ہوں گے اور اس کے اطلاق کی نزاکتیں کیا ہوں گی؟ کیا اس قانون کی ضرورت ہوگی؟ منڈل کمیشن کی سفارشات اور اس کے نفاذ کے لیے کمیشن در کمیشن اور سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کو سامنے رکھا جائے تو اس بحث میں پچاس ہزار صفحات سے زیادہ کا تحریری مواد سامنے آتا ہے اور ہزاروں ہی نہیں لاکھوں لوگوں کی آواز اس میں شامل ہوئی تھی۔ تب بھی عدالتِ عالیہ نے اس کے نفاذ میں پہلی بار مالیت کا سوال جوڑ دیا تھا۔ جسے کریمی لیئر یا ملائی دار طبقہ قرار دیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت اتنی سست اور کام چور رہی کہ منڈل سفارشات کے نفاذ میں سپریم کورٹ نے جو سجھاو دیا کہ اس کی خانہ بندی کرکے زیادہ پسماندہ افراد کو اور کم پسماندہ افراد کو الگ الگ کوٹہ دیا جائے، یہ آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔

        اسی زمانے میں سپریم کورٹ کے متعدد ایسے فیصلے آئے جن میں آئینِ ہند کی مزید وضاحتیں کی گئیں اور صاف صاف یہ کہا گیا کہ صرف مالی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ آئین میں سماجی اور تعلیمی پسماندگی کا امر لازمی ہے۔ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس فیصلے میں یہ یاد نہیں رہا۔ کیا دس فی صد میں کوئی مذہبی یا برادرانہ کوٹہ بھی ممکن ہے، اس سلسلے سے موجودہ حکومت یا قانون خاموش ہے۔ درج فہرست ذات(شیڈیولڈ کاسٹ) کے معاملے میں حکومت کی بد نیتی جگ ظاہر ہوچکی ہے اور آزادی کے ستّر برسوں کے بعد بھی دلت مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں مل سکا۔ جب کہ ہندو دلت کے بعد دھیرے دھیرے سکھ، عیسائی اور بودھ دلت بھی اس کا حصہ بنائے گئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ دس فی صد میں مسلمانوں تک معاملہ آتے آتے فیضان کی یہ ندی سوکھ جائے۔ وہاں بھی صدرِ جمہوریہ کے ایک حکم نامے کی وجہ سے مسلمان اس دائرے میں نہیں آسکے، یہاں بھی کوئی ایسا کھیل کھیلا جاسکتا ہے۔ یوں بھی مختلف مواقع سے مسلمانوں کو کہیں تین فی صد اور کہیں پا نچ فی صد ریزرویشن دینے کے نقلی فیصلے ہوئے مگر انھیں عمل درآمد سے پہلے ہی قانون کی پیچیدگی میں پھنسا کر ضایع کردیا گیا ہے۔

        کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ یہ انتخابی جملہ سے آگے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ دس فی صد کو ریزرویشن دے کر پچاس فی صد کی مخالفت آسان نہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بھی اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرچارک ہارتے نظر آرہے ہیں اور پانچ ریاستوں میں اپنی شکست کے بعد پارلیامنٹ کے انتخاب میں جب گھر گھر سے ووٹ لینے کا موقع آئے گا تو کیا نریندر مودی اور امت شاہ لوگوں کے سوالوں کا جواب دے پائیں گے؟ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی تو وبال جان ہیں ہی، اب اس اعلا برادریوں کو ریزرویشن کا سوال گائوں گائوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارندوں کو شرم سار کرے گا اور راہل گاندھی میں قیادت کے اعتبار سے جتنی بھی نااہلی ہو مگر ایسا لگتا ہے کہ طشت میں رکھ کر نریندر مودی اپنے ان غلط فیصلوں کی وجہ سے حکومت پیش کرکے رہیں گے۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف مقدمہ ہوچکا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی سماعت میں اس پر روک لگ جائے۔ اسی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو زیادہ سکون ملے گا۔ عوامی سطح پر ریزرویشن کے حوالے سے یہ سوال بھی اب پیدا ہونے لگا ہے کہ جب اتنے انداز کے انصاف کی بات چل نکلی ہے تو عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں سماجی انصاف کے لیے کب قانون آئے گا؟ وہاں جو ننانوے فی صدی اعلا طبقات کے لیے ریزرویشن مخصوص ہے، آخر اس سے نجات حاصل کیے بغیر سماج کے آخری آدمی کو بھلا کیسے انصاف ملے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔