غیرت مند کو اُنگلی اُٹھنے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہئے

حفیظ نعمانی

ہم صحافی تو نہ پہلے تھے نہ آج ہیں لیکن اس خاندان میں پیدا ہونے کا اسے اثر کہا جائے گا جہاں سے ہماری پیدائش کے تین سال کے بعد والد نے ایک ماہنامہ رسالہ نکالنا شروع کیا تھا۔ اور ہم جب کھیلنے کی عمر میں آئے تو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ وہیں کھیلتے تھے کہ رسالہ تیار ہوگیا اسے لفافہ میں بند کردیا اس پر ٹکٹ لگا دیا اور پورے ملک میں بھیج دیا۔ اور ایسے ہی کھیل کھیلتے کھیلتے رسالہ بھی نکالا اخبار بھی نکالے اور پریس کو بھی روزی روٹی کا ذریعہ شاید اسی شوق میں بنا لیا۔ اور دوستوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حفیظ اخبار کا آدمی ہے۔

شاید چالیس سال اس واقعہ کو ہوگئے ہوں گے جس کی تصدیق عزیز مکرم منور رانا سے ہوسکتی ہے کہ ایک دن وہ اور والی آسی گھر ٓئے اور والی بھائی نے کہا کہ منور اب ایک اخبار نکلنا چاہتے ہیں مگر ان کی شرط یہ ہے کہ آپ اس کی ذمہ داری لے لیں۔ میں نے منور کی طرف دیکھا تو انہوں نے جو کہا اور جس لہجہ میں کہا اس سے تو اندازہ ہوا کہ ذہن میں تو اخبار بن چکا ہے بس نکلنے کی دیر ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس کا افتتاح ایم جے اکبر کریں گے۔ صحافت کی دنیا میں یہ نام اس وقت آفتاب کی طرح چمکتا تھا۔

اس کے بعد ایم جے اکبر صاحب مختلف اخبارات سے وابستہ رہے انہوں نے ڈیلی ٹیلی گراف کیوں چھوڑا اور پھر کہاں کہاں رہے یہ منور رانا تو شاید جانتے ہوں ہمیں نہیں معلوم۔ آخر میں ایک زمانہ میں یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ایشین ایج کے ایڈیٹر ہیں۔ ہمیں ان سے نہیں بلکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے ایک جونیئر اسامہ طلحہ سے ایک کام تھا جن کا بعد میں انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب یہ سنا کہ ایم جے اکبر مودی جی کی وزارت میں لے لئے گئے تو نہ حیرت ہوئی نہ ملال۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا انہوں نے اپنے لئے جو بہتر سمجھا وہ کیا۔ لیکن ان پر جو گندہ الزام اور پھر الزامات لگے اس سے اس لئے تکلیف ہونی ہی چاہئے تھی کہ سب انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور شاید وہ کہتے بھی ہیں اور مسلسل کیچڑ اُچھالنے والوں میں اضافہ ہونا اور پھر اس سلسلہ کی زنجیر بننا ضرور حیرت کی بات ہے۔ انہوں نے نائیجیریا سے واپس آتے ہی دہلی میں بمباری شروع کردی اور الزام لگانے والیوں سے ثبوت مانگ بیٹھے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دے ڈالی۔

ایم جے اکبر نے اسے عام انتخابات سے پہلے کے حملہ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے یہ بات حلق سے اس لئے نہیں اترے گی کہ وہ مسلمان ہیں اور بی جے پی حکومت میں وزیر ہیں اور اس بنگال سے ان کا تعلق ہے جہاں ممتا بنرجی بی جے پی کو پنپنے نہیں دیں گی۔ ہندو ووٹوں کا سوال نہیں اور مسلمان ووٹ ان کو ملنے والے نہیں تو ان کی نیک نامی اور بدنامی سے الیکشن سے کیا تعلق؟ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ثبوت مانگ رہے ہیں۔ اس کا جواب تو وہ دیں گی جنہوں نے الزام لگایا ہے لیکن ایسی لڑکیاں جو اچھے گھر کی ہوں صحافت کے محترم پیشے سے وابستہ ہوں وہ اگر یہ الزام لگائیں کہ فلاں آدمی نے میرے ساتھ فلاں تاریخ کو اس جگہ پر اس وقت یہ کیا اور وہ کیا تو یہ خود اتنا بڑا ثبوت ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔

جن شرمناک واقعات کا ذکر کیا جارہا ہے ایسے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں جو ہوجاتے ہیں اور لڑکیاں دانتوں میں اس لئے زبان دبا لیتی ہیں کہ انہیں یقین نہیں ہوتا کہ اس کے بعد ان کی زندگی برباد ہوجائے گی یا آباد رہے گی؟ فلم اور سیاست کی دنیا میں تو یہ اتنا عام ہے کہ جو اچھی شکل صورت کی لڑکی وہاں ہے اس کے والدین اور اس کے شوہر کو معلوم ہے کہ وہ معلوم نہیں کس کس سے ملتی ہوئی آرہی ہے۔ لیکن صحافت کا پیشہ اس لئے محفوظ تھا کہ صحافت کے لئے بہت اچھی تعلیم کی ضرورت ہے اور صحافت کا اصل کام رات میں ہوتا ہے۔ لیکن اس دنیا میں آئی ہوئی کوئی لڑکی کسی کی طرف انگلی اٹھا دے تو اس سے ثبوت نہیں مانگنا چاہئے اس کی زبان کا ہر لفظ ثبوت ہے۔ وہ عام لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی حیثیت جسم فروش لڑکیوں جیسی ہی ہوتی ہے اور انہیں پیسے دے کر کسی کے بارے میں بھی اور کچھ بھی کہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہر لڑکی کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ فلم کی دنیا سے تو ہمارا کبھی سابقہ اور رابطہ نہیں رہا لیکن سیاست کی دنیا میں دیکھا ہے کہ بہت ممتاز مانے جانے والے ایک صاحب نے اپنی جوان اور خوبصورت بیگم کو لکھنؤ اسٹیشن پر وزیراعلیٰ کے کوچ میں خود سہارا دے کر سوار کرا دیا اور خود ساتھیوں سے باتیں کرتے ہوئے گھر آگئے۔

اور اس سے بھی بہت آگے کی بات کہ کانگریس کے ٹکٹ کے بھکاری ایک صاحب نے ایک بڑے لیڈر کو گھر بلایا کہ اپنے ہاتھ کے پکے ہوئے دیسی مرغ اور بریانی میرے گھر آکر کھایئے۔ اور جب وہ آگئے اور کھانے سے پہلے پینا شروع کیا تو جان بوجھ کر بوتل گرادی اور ارے ارے کرتے ہوئے بیوی سے کہا کہ شیشے اٹھا لو اور صاحب کی خاطر کرو میں حضرت گنج سے دوسری بوتل لاتا ہوں۔ اس درمیان بیوی نے منصوبہ کے مطابق اپنے کو نیتاجی کے سپرد کردیا اور رنگے ہاتھوں شوہر نے پکڑلیا۔ بعد میں یہ مطالبہ ہوا کہ دو ٹکٹ دیجئے میں الگ لڑوں گا اور بیوی الگ۔

فلمی کہانیوں میں 75  فیصدی کی بنیاد ہی اس پر ہوتی ہے کہ کسی شاطر عاشق نے بھولی بھالی اچھی صورت والی کو یقین دلادیا کہ تم کو دیکھتے ہی ڈائرکٹر ہیروئن بنا دے گا۔ اور جب تک ہوسکا اس کا دماغ خراب کیا اس کے بعد لڑکی کو اس پر آمادہ کیا کہ گھر کا جتنا ہوسکے زیور اور نقد لے لو اور ممبئی چلیں اور پھر یا اس کے مقدر میں بازار حسن ہوتا ہے یا کسی کے گھر میں جھاڑو پونچھا کرکے عمر گذارنا۔

البتہ سیاست میں صرف افسانے نہیں ہیں۔ اور اب اکبر صاحب سیاست میں ہیں اگر ان کا اشارہ اپنی مخالف پارٹی کانگریس کی طرف ہے تو اس لئے غلط ہے کہ ان کے بدنام ہونے یا وزارت چھوڑنے سے بی جے پی کو نقصان ہو نہ ہو کانگریس کو فائدہ نہیں ہوگا تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ لاکھوں روپئے دے کر لڑکیاں خریدے؟ اور فرضی الزام لگوائے اور ممتا بنرجی کو بھی معلوم ہے کہ اخبار کے ایڈیٹر کی تعریف کرنے والے ان کو پسند کرنے والے تو ہوتے ہیں لیکن ان کے حلقہ میں ووٹ دینے والے نہیں ہوتے۔ کل کے اودھ نامہ میں شکیل رشید نے جتنا کچھ لکھا ہے وہ ان کے اندازِ بیان سے افسانہ نہیں معلوم ہوتا اور اگر افسانہ بھی ہو تو ایم جے اکبر جیسے صحافی کو جس کے خزانہ میں تعریفوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اسے سب سے پہلے استعفیٰ دینا چاہئے۔ اگر کسی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے انہیں سوالوں کے جواب دینا پڑے تو نتیجہ جو بھی ہو ذلت کا طوق ان کے گلے میں ضرور پڑجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔